آئین، جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کی جنگ لڑنے والوں کے نام کھلا خط۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد سے لے کر اب تک ملک میں ایک قیامت برپا ہے اور سبھی شرکا ایک دوسرے کو شکست دینے اور عالمی ریکارڈ بنانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

میرا ان تمام شرفا سے سوال ہے کہ اسمبلی میں بیٹھ کر دھوئیں دار تقریریں کرنے سے کیا ہمارے بجلی ،گیس اور روز مرہ استعمال کی اشیا کے نرخ واپس آ جائیں گے۔

اور اس ملک کے روز اول سے محروم لوگوں کو ان کے آئینی و قانونی حقوق مل جائیں گے۔

پاکستان کے بیس کروڑ لوگ اپنے حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ دنیا کے کس قانون کے تحت بجلی کے پہلے سو یونٹ ۵ روپے کے ہیں،دوسرے دو سو یونٹ۸ روپے کے ہیں، تیسرے دو سو یونٹ بارہ روپے کے ہین اور چوتھے دو سو یونٹ سولہ روپے کے اور پانچویں دو سو یونٹ اٹھارہس روپے کے ہیں اور آئین اور قانون کا کون سا آرٹیکل آپ کو اس طرہ لوگوں کا استحسال کرنے کا حق دیتا ہے۔

LET US HAVE A LOOK AT TRICKY MANEUVERING OF THE GOVERNMENT.
1- TOTAL UNIT CONSUMED-1705,ACTUAL COST RS.-7740- INCREASED COST RS. 14858- PERCENTAGE OF INCREASED COST-191.94.
2- TOTAL UNITS CONSUMED-4575- ACTUAL COST RS. -26489.5-I NCREASED COST RS.-49477- PERCENTAGE OF INCREASED COST-186.77.
3- TOTAL UNITS CONSUMED-4928-ACTUAL COST RS.-28533.12- INCREASED COSTRS. 68655- PERCENTAGE OF INCREASED COST-240.61.
4- TOTAL UNITS CONSUMED-14450-ACTUAL COST RS. 81534.5- INCREASED

COST RS.185795- PERCENTAGE INCREASED-227.87.
THE QUESTION STILL REMAIN TO BE ANSWERED BY THE POWER PRODUCERS THAT HOW MUCH IT COST WHILE PRODUCING THE VERY FIRST 100 UNITS, SOLD AT THE RATE OF RS.5.79, AND THEN THE OTHER 200 UNITS AT THE RATE OF RS.5,79 , SOLD AT THE RATE OF RS.8.11 AND THIRD 200 UNITS AT THE RATE OF RS.8.11 , SOLD AT THE RATE OF RS.12.33, AND THEN THE FOURTH 200 UNITS AT THE RATE OF ,RS.12.33, SOLD AT THE RATE OF RS.16 AND THEN THE 5TH 200 UNITS AT THE RATE OF RS.16, SOLD AT THE RATE OF RS.18.
THE HONOURABLE SITTING DELEGATES IN THE PARLIAMENT MUST TALK ABOUT THIS JOKING WITH THE NATION FOR WHOM THEY YELL DAY AND NIGH WITH LAUD ACCLAMATIONS.

جبکہ یہ قانون سازی آئین اور بنیادی حقوق سے یکسر متصادم ہے اور اسکی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں۔اور لوگوں سے اسطرح دو سو،دو سو چالیس،اور دو سو اسی فیصد سے زائید رقوم لی جارہی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اعلی عدالتیں جو زرا سی بات پر سوو موٹو لینے سے نہ تھکتی تھیں اب بلکل خاموش ہیں اور سر عام اپنے عوام کا تماسہ دیکھ رہی ہیں۔ ماسوائے اس فکر کہ کہ ان کے آنے جانے کے راستے کیوں کم ہو گئے ہیں۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ پارلیمان میں بییٹھے ہوئے لوگ کن کی ترجمانی کر رہے ہیں۔اور ان کو اس کام کے لئے منتخب کیا جاتا ہے یا کہ لوگوں کے اجتعمائی مفادات کے تحفظ کے لئے۔

ایوان میں بیٹھ کر بلند بانگ دعوے کرنے سے آپ کن لوگوں کے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ کون سا تظام ہے جسے آپ بچانے کے دعوے کر رہے ہیں اور اس نظام کے فوائید کن لوگوں کو حاصل ہوں گے،بجلی بنانے والوں کو یا عوالمناس کو جو پچھلے ساٹھ سالون سے اپنے تمام قانونی و آئینی حقوق سے محروم ہیں۔اور جنہیں روزانہ کنزیومر اشیا پر اربوں روپے زائید ادا کرنے پڑتے ہیں۔

جبکہ آپ اچھی طرہ جانتے ہیں کہ ان حالات میں آپ خود آئین و قانون کی حکمرانی کی نفی کر رہے ہیں۔ لوگوں سے روزانہ کنزیومر اشیا پر اربوں روپے اضافی وصول کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ہم ملک مین قانون کی بالا دستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بیس کروڑ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی جنگ کن طبقات کے لئے ہے،ہمیں تو ساٹھ سالوں میں ذلتوں اور رسوائیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔جبکہ آپ لوگوں کے پاس سو فیصد سے زائید حقوق ہیں۔

اعلی عدالتوں میں بیٹھے منصفوں کا کیا کوئی کام نہیں کہ وہ ان معاملات پر توجہ دیں جبکہ وہ اس امر کے پابند ہین کہ وہ مسائل میں جکڑے محروم لوگوں کو ان کا آئینی و قانونی حق دلانے میں کردار ادا کریں۔

اس کے علاوہ معزز عدالتوں سے یہ بھی درخواست ہے کہ پاور جنریشن ایکٹ مجریہ ۱۹۹۷ جس میں حکومت یا حکومتی اداروں کو پاور ٹیرف یعنی نرح نامہ کی تشکیل اور نفوز کا جو اختیار دیا گیا ہے اس میں عوام لناس کی شراکت اور ان کی رائے کا آئینی و قانونی حق کیا ہے کی بھی تشریح کی جائے اور اس میں عوام کی جانب سے دی جانے والی رائے یعنی کہ موجودہ نرح نامہ برائے کھریلو مسرف میں اضافہ نہ کیا جائے، یا کہ اتنے فیصد کیا جائے، یا کہ اسے جوں کا تون ہی برقرار رکھا جائے کی کیا حیشیت ہے۔اور اسکا واضح طریقہ کار کیا ہے،یعنی کتنے فیصد عوام کی رائے سے نرخ نامہ کو جوں کا توں رکھا جا سکتا ہے یا اس میں کوئی کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ اور اس طریقہ کار کو عوام کے بنیادی حقوق سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کے لئے اسے کیا سالانہ بجٹ سے مشروط کیا جا سکتا ہے اور کیا اس بجٹ میں عوام الناس کو سرکار کی جانب سے کوئی اضافی رقوم دی جانے کی توقع ہے کہ عوام کنزیمر اشیئا پر مزید اربوں روپے کا بوجھ برداشت کر سکیں گے۔

بصورت دیگر حکومت اس امر کی پابند ہو گی کہ کنزیومر اشیا پر مزید کوئی اضافہ نہ کیا جائے گا۔ نیز حکومت یا کسی بھی حکومتی ادارے کو یہ حق حاسل نہ ہو گا کہ وہ بغیر عوام الناس کی اکثریتی تحریری منشا کے یکظرفہ طور پر نرحنامہ میں اضافہ کر دے اور اسے فوری عور پر نافذ کرنے کا عندیہ بھی دے دے،جیسا کہ یہ امر کسی بھی صورت عوام کے بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔

اعلٰی عدالتوں کی جانب سے ان امور پر خاموشی یا عدم دلچسپی عوام الناس کو یقینا تباہی کی جانب لے جا رہی ہے اور عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کو عدالتوں سی بھی ان کے بنیادی حقوق کا حصول نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔

اس سے قبل کہ سب کچھ چھن جائے اور لوگ اپنے فیصلے خود کرنے کا اعلان کر دیں۔یہ عدالتوں کی اولیں ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات کا فوری جائزہ لیں اور اپنے قانونی و آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی مدد کے لئے اقدامات کرین۔اس ملک کی سلامتی صرف اور صرف لوگوں کو ان کے آئینی حقوق دلا کر ہی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
Anwar Baig
About the Author: Anwar Baig Read More Articles by Anwar Baig: 22 Articles with 14150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.