تحریک طالبان پنجاب کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا اعلان

تحریک طالبان پنجاب کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ اپنے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے سال 2014 کی سب سے اہم اور بڑی پیشرفت ہے۔عام پاکستانیوں کے لیے یہ چونکا دینے والی خبر ہو سکتی ہے مگر طالبان پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ،تجزیہ نگار اور دیگر باخبر ذرائع اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ طالبان اسلام آباد اور راولپنڈی کے طاقتور حلقوں سے رابطہ میں تھے۔اور ان سے بات چیت کا سلسلہ جاری تھا۔ تحریک طالبان پنجاب کے سربراہ عصمت اﷲ معاویہ نے گذشتہ روز جو اعلان کیا ہے۔ یہ بہت پہلے ہونے کی اطلاعات بھی تھیں۔لیکن اسلام آباد میں دھرنے تحریک طالبان کے ہتھیار ڈالنے کے اعلان میں تاخیر کا باعث بنے۔سو دیر ااید درست آید کے مصداق طالبان کے اس فیصلے کو پاکستان کی سیاست اور موجودہ گرماگرم صورت حال میں ایک حوصلہ افزاء اقدام قرار دیا جا ئیگا۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ کیا طالبان تحریک پنجاب آزادانہ طور پر اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے یا نہیں؟ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں بلکہ تمام حلقوں کی متفقہ رائے ہے کہ انہیں پاکستان خصوصا پنجاب میں اپنی دعوت و تبلیغ کی سرگرمیاں کھلم کھلا جاری رکھنے میں مشکلات ضرور پیش آئیں گی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک پنجاب، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپ جو آزادانہ طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔وہ بھی ہتھیار ڈالتے ہیں یا پھر اپنی روش پر قائم رہتے ہوئے اپنی مسلح کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔تحریک طالبان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ تحریک طالبان پاکستان اور کئی گروپ اپنے اپنے طور پر جہادی کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں۔تحریک طالبان پاکستان افغانستان کے طالبان کی طرح منظم نہیں ہیں۔جہاں ملا عمرسیاسی،مذہبی اور انتظامی طورپر طالبان کے مسلمہ سربراہ ہیں۔اور اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ افغانی طالبان اپنے امیر ملا عمر کے احکامات کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ اور اس سچائی کو بھی جھٹلانا ممکن نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک طالبان پنجاب اور جہادی کارروائیوں میں مصروف دیگرگروپ کسی ایک قیادت کے تابع اور فرمابردار نہیں ہیں۔مطلب یہ کہ طالبان کے مختلف گروپ مختلف سربراہوں کی قیادت میں کام کرتے ہیں۔ اس وقت زیر بحث سوال یہ ہے کہ تحریک طالبان پنجاب ’’ اپنے اس موقف سے بھی تائب ہوگئی ہے ،کہ امریکہ کی اتحادی بن کر پاکستانی فوج مرتد ہوگئی ہے۔اس لیے پاکستانی فوج کے افسروں ،سپاہیوں کا قتل جائز اور عین شریعت کے مطابق ہے‘‘کیا پنجابی طالبان کے قائد عصمت اﷲ معاویہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ تحریک طالبان پنجاب یا تحریک طالبان پاکستان کی عسکری کارروائیوں میں جو بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سلایا گیا انکا خون ناحق ہواہے۔ اور ان افراد کے قتل کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ کیا عصمت اﷲ معاویہ قتل ہونے والے افراد کی دیت اور قصاص دینے پر تیار و آمادہ ہوں گے ۔کیابے گناہ قتل ہونے والوں کے قتل کے مقدمات عصمت اﷲ معاویہ اور انکے دیگر ساتھیوں ،کمانڈروں کے خلاف دائر کیے جائیں گے؟ اورانہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائیگا؟ کیا عصمت اﷲ معاویہ اور انکے ساتھ عسکری کارروائیاں بند کرنے والے ساتھی خود کو قانون کے حوالے کردیں گے۔؟ اور قانون کے کٹہرے میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے پر تیار ہو جائیں گے؟ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کے لیے بھی تحریک طالبان پنجاب کے تائب ارکان سے آنکھیں بند رکھنا انتہائی مشکل امر ہوگا۔اس حوالے سے اس امر پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی کہ کہیں تحریک طالبان پنجاب ’’داعش ‘‘ کے پلیٹ فارم سے نئے سرے سے اپنی کارروائیوں کا آغاز نہ کریں۔ یہ خبریں تو گردش میں ہیں۔کہ داعش پاکستان اور بھارت میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کوشاں ہے۔اور اس سلسلے میں اسکے مطبوعہ لٹریچر کی تقسیم کا عمل جاری ہے۔ عصمت اﷲ معاویہ کے ایک بہت قریبی ساتھی جنوبی ایشیا کے لیے داعش امیر مقرر ہو چکے ہیں۔عصمت اﷲ معاویہ کا یہ اعلان کہ وہ اپنی جہادی کارروائیاں افغانستان کے اندر تک محدود رکھیں گے۔ ہمارے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ عصمت اﷲ معاویہ اور انکے گروپ کے ساتھ معاملات طے کرنے والے حضرات کو اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ ’’دعوت و تبلیغ ‘‘ کا کام کرنے والے تحریک طالبان پنجاب کے جہادیوں سے اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروائیں ورنہ سب غارت جائیگا۔پاکستان گذشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا میدان بنا ہوا ہے۔اور اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ہمارے اردگر میں مخدوش اور غیر یقینی صورت حال اور ہماری داخلی کشمکش نے ان جہادیوں کی تشکیل او رقوت میں فعال کردار ادا کیا ہے۔پاکستان لہو لہو ہے۔اور ہمارا اتحاد کرچی کرچی ہے۔ہمارے مستقبل کے بارے میں دنیا نا امیدی کا اظہار کر رہی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق ہمارا مستقبل خطرے میں ہے۔اس لیے ہمیں پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا۔اس بات کا بھی دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں داعش کے ہمراہی بن کر یہ لوگ پاکستان میں خون کے دریا نہ بہا دیں۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144203 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.