یہ لوگ جیت گئے ہیں

دنیا میں ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ دستور چلا آ رہا ہے کہ موروثی شرافت سے چمٹے ہوئے خاندان ،اقوام کے خلاف پیروں اور مذہبی پیشواؤں سے ساز باز کر کے ایک دوسرے کی امدادانہ امانت کا عہد و پیمان کر لیتے ہیں۔ یہ ایک بڑا روگ ہے جس نے انسانی سماج کی گردن میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ یہ روگ ہرگز زائل نہیں ہو سکتا تا وقت کہ اس دنیا سے جہالت کا خاتمہ ہو اور ہر مرد کی عقل حکمران اور ہر عورت کا دل مذہبی پیشوا نہ بن جائے۔

موروثی شریف زادہ اپنے عمل کی تعمیر کمزور لوگوں کے اجسام سے کرتا ہے اور پیر اپنی عبادت گاہ کی بنیاد اطاعت کیش اہل ایمان کی قبروں پر رکھتا ہے۔ امیر بے چارے کسان کے بازوؤں کو جکڑتا ہے اور پیر اپنا ہاتھ اس کی جیب کی طرف بڑھاتا ہے۔ حاکم کسان کو تیوری چڑھا کر دیکھتا ہے اور مذہبی پیشوا اس کی طرف خندہ پیشانی سے متوجہ ہوتا ہے۔ نتیجہ میں چیتے کی تند مزاجی اور بھیڑیے کی دانت نکالنے میں بھیڑ غریب کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ حاکم قانون کی تعمیل کی طرف بلاتا ہے اور مذہبی پیشوا مذہب کی طرف اور ان دونوں کے درمیان جسم فنا ہو جاتے ہیں اور روحیں مضمحل۔

تمہارے یہ طاقتور دشمن تمہارے خیراتوں پر جیتے اور بادشاہوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ تمہاری محنتوں کے ثمر سے اپنا وسیع پیٹ بھرتے ہیں۔ کیا تم میں وہ بوڑھے نہیں جو بتا سکیں کہ وہ کھیت جنہیں بونے اور جوتنے کے باوجود تم ان کی پیداور سے محروم رہتے ہو دراصل تمہارے ہیں۔ ان لوگوں نے تمہارے بزرگوں سے چال کی اور ان کے کھیت اور باغوں پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت بھی مذہبی پیشوا ان کے ساتھ تھے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مذہب کے ٹھیکیدار اور موروثی امیر زادے تمہیں حقیر و ذلیل کرنے اور تمہارے دلوں کا خون چوسنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ تم میں سے کون مرد ایسا ہے جس کی گردن مذہبی پیشواؤں نے زمینداروں کے سامنے نہیں جھکوائی اور کون سی عورت ایسی ہے کہ جسے زمیندار نے ڈانٹ ڈپٹ کر مذہبی ٹھیکیداروں کی مرضی پر چلنے کے لئے مجبور نہیں کیا………… تم نے سنا ہو گا کہ اﷲ نے انسان سے کہا تھا ’’محنت کرو روٹی کھاؤ‘‘۔ پھر یہ لوگ وہ روٹی کیوں کھاتے ہیں جو تمہارے ماتھے کے پسینے سے گندی ہے اور وہ مشروب کیوں پیتے ہیں جس میں تمہارے آنسو شامل ہیں؟ کیا اﷲ نے ان لوگوں کو ماں کے پیٹ ہی سے عظمت و امتیاز اور امارت و سیادت کا مرکز بنا کر بھیجا ہے یا نامعلوم گناہوں کی بنا پر تم سے ناراض ہو کر تمہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے کہ تم کھیتوں کا غلہ جمع کرو اور ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں میں رہو۔ تم نے سنا ہو گا پیمبر نے اپنے حواریوں سے کہا تھا تمہیں جو کچھ فطرت کی طرف سے ملا ہے مفت ملا ہے اس لئے تم بھی لوگوں کو جو کچھ دو مفت دو۔ چاندی سونے اور تانبے میں خود کو مقید اور ذلیل مت کرو۔ پیغمبر کی کون سی تعلیمات ہیں کہ جنہوں نے جائز کر دیا ہے کہ مذہبی پیشوا اپنی نمازیں اور عبادات سونے چاندی کے عوض فروخت کریں۔

تم رات کی خاموشی میں دعائیں مانگتے ہو کہ یا رب! ہمیں پیٹ بھر کر روٹی اور زندگی کی دوسری ضروریات عطا فرماٍِ۔ پروردگارِ عالم نے تمہیں یہ زمین عطا فرمائی جو تمہارے لئے روٹی اور زندگی کی ضروریات فراہم کرتی ہے۔ تو کیا اﷲ نے حکمرانوں کو قوت اس لئے دی ہے کہ وہ تمہارے ہاتھوں سے روٹی چھین لیں؟
یہ لوگ تنی ہوئی گردنوں، لمبی لمبی حریر ی قباؤں، طلائی ہاروں، اور قیمتی انگوٹھیوں کے ساتھ تمہارے سامنے پھرتے ہیں۔ یہ پیغمبروں کی تعلیمات سے بغض اور عناد رکھتے ہیں جو محبت کی تعلیم ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ لوگ تمہاری روح کو قتل کرتے ہیں؟ تمہاری خیراتوں سے عیش کرتے ہیں؟ تمہاری قید و بند کی تکلیفوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں؟ قسمت کے مارو! وہ کیا چیز ہے جو تمھیں ذلت و حقارت سے بھری ہوئی زندگی کے فریب میں مبتلا کرتی ہے اور اس خوفناک بُت کے سامنے تمہیں سجدہ ریز رکھتی ہے جسے جھوٹ اور ریاکاری نے تمہارے آباؤ اجداد کی قبروں پر نصب کیا تھا۔ وہ کون سا خزانہ ہے کہ جس کی حفاظت تم اپنی اطاعت و فرماں برداری کے ذریعے کرتے ہو کہ اپنی اولاد کے لئے اسے ورثہ میں چھوڑ جاؤ۔
یہ بھیڑیے ہیں۔ وہ بھیڑیا جو باڑ میں داخل ہوتا ہے تو چرواہا اسے بھیڑ کا بچہ سمجھ کر اطمینان سے سو جاتا ہے لیکن جب رات کی تاریکی دن کی روشنی پر غالب آ جاتی ہے تو ریوڑ پر جھپٹ کر ایک ایک بھیڑ کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ یہ پیٹ کے کتے ہیں جو لذیذ اور مرغن غذاؤں سے چٹے ہوئے دستر خوان کی عزت اپنے ایمان سے زیادہ کرتے ہیں۔ لالچی ہیں جو دولت کی حرص میں جنوں کے غاروں تک میں پہنچ جاتے ہیں۔ غلاموں کا خون اس طرح چوستے ہیں جس طرح صحرا بارش کے قطروں کو چوس جاتا ہے۔ کنجوس ہیں جو اپنے انفاس تک کی حرص کرتے ہیں اور وہ چیزیں بنواتے ہیں جنکی انہیں مطلق ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ چور ہیں جو دیوار کے شگافوں سے داخل ہوتا ہے اور اس وقت تک نہیں نکلتا جب تک مکان ڈھے نہ جائے۔ وہ سنگدل ڈاکو ہیں جو بیوہ سے ایک درہم اور یتیم سے ایک پیسہ چھیننے میں باک نہیں کرتا۔ یہ وہ عجیب و غریب مخلوق ہیں جس کی چونچ گدھ کی سی، پنجے چیتے کے سے، دانت بچھو کے اور پھنکار سانپ کی سی ہے۔ تم اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں مگرا نہیں دستر خوان پر بیٹھنے دو، یہ سب بھول جائیں گے۔

کیا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ جو ہر چیز پر قادر ہے جو تم سے محبت کرتا ہے اور اپنے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے ذریعے تمہیں حق کی راہ دکھاتا ہے یہ چاہتا ہے کہ تم ذلیل اور مظلوم بن کر جیو؟ کیا تمہارق عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ جو بادلوں سے مینہ برساتا ہے، بیجوں سے کھیت اگاتا ہے، پھول اور پھل پیدا کرتا ہے…… یہ چاہتا ہے کہ تم بھوکے اور حقیر ہو ،تاکہ تم میں سے ایک آدمی غرور اور عظمت کی زندگی بسر کرے اور دنیا کی ہر لذت سے شاد کام ہو؟ کیا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ سرمدی روح جو بیوی سے محبت، اولاد سے ہمدردی اور رشتہ داروں سے شفقت کا سلوک کرنا سکھاتی ہے۔ تم پر ایک بے رحم حاکم مسلط کرتی ہے جو تم پر ظلم ڈھاتا ہے اور تمہارے شب و روز کو اپنا غلام بنا لیتا ہے؟۔۔۔ نہیں …… نہیں…… تم ان چیزوں پر اعتقاد نہیں رکھتے کیونکہ اگر تم ان پر اعتقاد رکھو تو خداوندی انصاف کی تکذیب کرو گے۔ حق کی روشنی سے انکار کرو گے جو تم انسانوں پر ضو فگن ہے۔

اﷲ نے تمہارے ذہنوں کو بازو عطا کئے ہیں کہ تم ان کے ذریعے محبت اور آزادی کی فضا میں پرواز کرو پھر تم انہیں اپنے ہاتھوں سے کیوں نوچتے ہو اور کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر کیوں رینگتے ہو۔ اﷲ نے تمہارے دلوں میں سعادت کے بیج ڈالے ہیں پھر تم کیوں انہیں وہاں سے نکال کر چٹان پر ڈالتے ہو کہ کوے نگل لیں یا ہوا کے جھونکے اڑا لے جائیں۔ اﷲ نے تمہیں بیٹے اور بیٹیاں عطا فرمائیں تاکہ تم حق کی راہوں کی طرف ان کی رہنمائی کرو۔ وجود کے نغموں سے ان کے سینوں کو لبریز کرو اور زندگی کی حقیقی مسرت کو ایک گرانقدر میراث کے طور پر ان کے لئے چھوڑ جاؤ۔ پھر تم ان کو زمانہ کے ہاتھوں میں مردوں کی طرح چھوڑ کر وطن میں بے وطن کر کے، دنیا کے سامنے بدبخت و نامراد بنا کر کیوں مر جاتے ہو؟ کیا وہ باپ جو اپنے آزاد بیٹے کے لئے غلامی کی میراث چھوڑتا ہے اس باپ کی مثال نہیں ہے جس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے اور وہ اس کے بدلے اسے پتھر کا ایک ٹکڑا دے دے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ باغوں میں چڑیاں اپنے بچوں کو اڑنا سکھاتی ہیں، پھر تم اپنے جگر گوشوں کو طوق و سلاسل میں جکڑے رہنے کی تعلیم کیوں دیتے ہو؟ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وادی کے پھول اپنے بیجوں کو سورج کی حرارت کے سپرد کر دیتے ہیں پھر تم اپنے بچوں کو سرد تاریکی کے حوالے کیوں کرتے ہو؟

اوپر دی ہوئی ساری عبارت مشہور فلسطینی ادیب شاعر اور مفکر خلیل جبران کے ناول ’’زرد پتے‘‘ سے لی گئی ہے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ خزاں رسیدہ زرد پتوں کی جگہ بہار بے کراں لئے سبز پتوں کی جستجو میں رہے ہیں۔ اس وقت کے حوالے سے کچھ لوگ کامیاب ہوئے کچھ ناکام مگر تاریخ نے ایسے ذہنوں کو کبھی ناکام قرار نہیں دیا۔ یہ خدائی پیام ہے۔ یہ پیغمبروں کا پیغام ہے اور اہل جنون اس پیغام کو عام کرتے رہے ہیں۔ اگر ان کے عقیدے میں خلوص اور سچائی غالب ہے تو وہ ناکام نہیں ہوتے۔ وہ ہر صورت کامیاب ہیں۔ تاریخ انہیں زندہ رکھے گی اور یہی زندگی ان کی کامیابی ہے۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔ حکمران ڈیزلوں کی مدد سے اپنی گاڑیاں کھینچنے کی ناکام سعی کر رہے ہیں انہیں عوام کی صورتحال سے کچھ غرض نہیں۔مگر اہل جنوں انہیں للکار رہے ہیں۔

آج اسلام آباد کی فضاؤں میں بھی ایسی ہی باتوں کی گونج ہے۔ لوگ اکیلے جاتے ہیں اور کارواں بن جاتا ہے۔ یہاں تو ایک کارواں موجود ہے اور مستقل مزاج لوگوں کا کارواں۔ یہ کارواں جیت گیا ہے۔یہ لوگ جیت گئے ہیں۔ جن شاخوں کو جھکنا تھا وہ اپنی سختی کے سبب ٹوٹنے کے قریب ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو میراث میں غلامی نہیں آزادی دینی ہے کیونکہ بقول خلیل جبران:
اور جو کوئی عروس آزادی کی طلب میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ ٹیلوں اور صحراؤں میں اس کے نقوش پا کے سوا اور کچھ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ آزادی بھی زندگی کی مانند ہے جو لنگڑوں اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جانے والوں کے لئے اپنی رفتار کسی حالت میں کم نہیں کرتی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444491 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More