کیا جمہوریت کا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے

ایک طرف پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہورہا ہے ،اور ارکان جمہورت کے حق میں دواں دھار تقاریر کرکے اپنی دھاک بٹھا رہے ہیں۔تو دوسری جانب سپریم کورٹ بلوائیوں سے اسلام آباد واگذار کرنے میں اپنی کوشش کر رہی ہے ۔ شیخ رشیدسپریم کورٹ کو یہ یقین دھانی تو کروا رہے ہیں کہ’’ مظاہرین کھڑے ہوکر چینی صدر کا استقبال کریں گے ‘‘لیکن کنٹینرز پر بلند بانگ دعوے کرنے والے بلوائیوں کے کھڑپینچ عدالت میں کسی قسم کی یقین دھانی کرنے سے پریزاں ہیں……سپریم کورٹ کا یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ پارلیمنٹ کے کسٹوڈین کی ذمہ داری نہیں کہ پارلیمنٹ کا صحن خالی کروائیں؟میں سپریم کورٹ کی بات سے پوری طرح متفق ہوں کیونکہ گھر کے سربراہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بھی گھر کا قبضہ چھوڑانے کے لیے ہاتھ پاوں مارے پھر دوسروں سے مدد کا سوال کرے۔لیکن ہمارے سپیکرقومی اسمبلی ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔

تیسری طرف طاہر القادری کے بلوائیوں نے شاہراہ دستور پر اپنی رٹ قائم کر رکھی ہے ۔عام شہریوں کے علاوہ بلوائی پولیس کے نوجوانوں کی تلاشی بھی لے رہے ہیں۔ پولیس والوں کو کھڑا کرکے انکی تلاشی لینے کے مناظر دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا ہے ……منتخب جمہوری حکومت کی اس قدر بے بسی میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی ، جس قدر اسلام آباد میں بلوائیوں کے مسلے پر دیکھ رہا ہوں……گو طاہر القادری نے اپنے بلوائیوں سے پارلیمنٹ کا احاطہ خالی کروانے کا اعلان کردیا ہے ۔ لیکن یہ مسلے کے حل ثابت ہوگا؟کیا پارلیمنٹ مین دھواں دھار تقریریں کرنے سے جمہوری سفر پر منڈلانے والے خطرات ٹل گے ہیں؟……کیا منتخب اسمبلی اور حکومت غیر یقینی صورت حال سے باہر نکل آئی ہیں؟……کیا مملکت خداداد پاکستان اور اسکے عوام کا جمہوری مستقبل محفوظ ہوگیا ہے ؟کیا پاکستان کے مستقبل اور معاشی ترقی پر شب خون مارنے والے اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہو گئے ہیں؟…… اس جیسے ان گنت سوالا ت لوگوں کے ذہنوں میں سر اٹھائے ہوئے ہیں۔

میں نہیں سمجھتا کہ ان سب سوالات کا جواب ہاں میں دیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں علامہ طاہر القادری نے فرمایا ہے کہ’’ نواز شریف کا استعفی لیے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے‘‘ میں حیران ہوں کہ حکومت نے فوج کو 245کے اختیارات اس لیے عطا کیے تھے کہ وہ دہشت گردوں سے نبٹے گی اور سرکاری عمارتوں کی حفاظت بھی کریگی ۔لیکن میری آنکھیں ان اختیارات کے استعمال دیکھنے کو ترس گئیں ہیں۔ الٹا بلوائیوں کا اسلام آباد پر راج دیکھنے کو ملا……جتنی شفقت اور محبت و انس ان بلوائیوں سے کی جا رہی ہے ۔اس صورت میں میں یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ بلوائی اور ان کے قائدین آسانی سے اسلام آباد چھوڑنے پر آمادہ ہوں گے۔کیونکہ بلوائیوں کے لیڈر انتہائی پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ انکے قول فعل میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پرعلامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا بھی ہے…… وہ بھی اپنے کانوں کی صفائی کرکے اور آنکھوں کو مل مل کر کہ کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا…… ڈاکٹر طاہر القادری اپنے کنٹینرز پر اپنے قمیض کے بٹن کھول کر اور سینہ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں۔اے پولیس والوں اگر گولی چلانی ہو تو مجھ پر گولی چلانا…… میرا سینہ حاضر ہے…… کارکنوں پر گولیاں مت چلانا……بچوں اور خواتین پر تشدد نہ کرنا……انکا کیا قصور ہے ۔

عمران خاں کہتے تھے کہ میں سب سے آگیآگے ہوں گا …… لیکن جب مرنے مارنے کا وقت آیا تو یہ دونوں لیڈر کہیں نظر نہیں آئے…… کنٹینرز مین چھپ کر بیٹھ گے……کارکن پولیس کا مقابلہ کرتے رہے…… گولیاں اور لاٹھیاں کھاتے رہے…… پیچھے مڑ مڑ کر اپنے قائدین کو تلاش کرتے رہے اور آنکھوں آنکھوں میں اپنے ساتھیوں سے سوال کرتے اور جواب دیتے رہے……خواتین اور بچے بلک بلک کر روتے رہے……ان کے آنسو پونچھنے کے لیے نہ علامہ آئے اور نہ ہی مسٹر آزاد خاں اپنے کنٹینرز سے باہر نکلے……!!!!

کیا لیڈر ایسے ہوتے ہیں؟ کیا قیادت اپنے کارکنان کو موت کے منہ میں دیکر خود چھپ جاتی ہے؟ نہیں بابا نہیں…… لیڈر میدان جنگ میں اپنے ورکروں سے ااگے ہوتے ہیں…… اپنے سینے پر لاٹھیاں اور گولیاں کھاتے ہیں…… قذافی سٹیڈیم میں بیگم نصرت بھٹونے اپنے جسم پر لاٹھیاں کھائیں اور زخموں سے چور چور ہو گئیں لیکن میدان سے بھاگی نہیں…… بے نظیر بھٹو کی جدوجہد ایسی بہادری کی داستانوں سے بھری پڑی ہے……اعتزازاحسن سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو نے نہایت جرات و بہادری سے آمروں کے جبر و ستم کا مقابلہ کیا ہے۔

لیکن طاہر القادری اور عمران خاں مجھے ممی ڈیڈی اور برگر لیڈر دکھائی دئیے ہیں…… بقول جاوید ہاشمی……’’اسلام آباد میں بلک بلک کر دودھ مانگنے والے بچوں کا ذمہ دار عمران خاں اور طاہر القادری ہونگے۔‘‘ اگر ملک پر آمریت کے سیاہ بادل چھا جاتے ہیں تو اسکی ذمہ داری بھی انہیں دونوں کے سر ہوگی۔قرآن اور حدیث سنا سناکر عوام کو مرنے کا درس دینے والو ! کیا تمہارا طرز عمل جو قول فعل کے تضاد سے لبریز ہے…… کس قرآن کی آیت اور کس حدیث کی ترجمانی کرتا ہے ؟

پاکستان کا بچہ بچہ کہتا ہے کہ ……اے عمران خاں ……اے طاہر القادری……!!!! تم قاتل ہو جمہوریت کے…… ملک کی ترقی اور خوشحالی کے…… عوام کی سدھروں کے…… پاکستان کے عوام تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گی…… یہ میرا تم سے وعدہ ہے…… مستقبل کا مورخہ تمہیں قاتل لکھے گا…… ااج ملک پر مسلط ہونے والی آمریت کے ختم ہونے پر میں نہیں تو کوئی نہ کوئی تم سے ضرور پوچھے گا…… تم سے اس ظلم اور زیادتی کا حساب ضرور لے گا۔

میرا سوال وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر جمہوریت کے چیمپئین سیاست دانوں سے ہے کہ وہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے کی بجائے عوام کو کچھ ڈلیور بھی کریں ……جب آپ عوام کو ڈلیور کریں گے تو عوام جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے کواہاں اور کوشاں مداریوں کے نرغے میں نہیں آئیں گے۔ وزیر اعظم صاحب آپ اور آپکے برادر خورد بھی عوام کی خوائشات کا پاس کریں اور عوام کے منتخب ایوان اور اپنے حلقہ انتخاب کا احترام کرنابھی سیکھیں ……ایوان کو وقت دینے کی عادت ڈالیں……ورنہ اسلام آباد پر بلوائیوں کی یلغاعیں ہوتی رہیں گی۔اور پارلیمنٹ پر قبضے ہوتے رہیں گے۔اور ملک کے مستقبل اور جمہوریت پر خطرات کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144232 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.