بند گلی کا دیس

جو لوگ پاکستان کے تازہ ترین یعنی جاری و ساری بحران کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہیں اُنہیں اب اپنی طرزِ فکر پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یہ کوئی پہلا موقع تو نہیں کہ ہم نے نہایت عقیدت مندانہ انداز سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ ایسا تو ہوتا ہی آیا ہے۔

زمانے گزر گئے ہیں اہلِ دانش کو یہ راگ الاپتے ہوئے کہ کچھ سنجیدگی اپنائیے، کچھ برد باری کا مظاہرہ کیجیے۔ جو اُڑتی چڑیا کے پَر گِن لیا کرتے ہیں اُن کی کور چشمی کا یہ حال ہے کہ اگر بُرد باری اور سنجیدگی جیسی صفات ہاتھی جیسی کایا لے کر بھی آجائیں تو اُنہیں نہ دیکھ پائیں گے۔ نیتوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ دیکھنے پر آئیں تو اندھیروں کی رفتار بھی ناپ کر دکھادیں اور نہ دیکھنا چاہیں تو نصف النہار پر چمکتے دمکتے سُورج کو بھی اَن دیکھا کردیں!

اسلام آباد کے ریڈ زون کا سُنتے ہی آئے تھے، دیکھ بھی لیا۔ یہ وہ زون ہے جس میں قومی استحکام اور معیشت کا خُون ہوا ہے۔ اِسی زون کی زمین پر قومی مفادات کے چھینٹے پڑے ہوئے ہیں۔ اِسی ریڈ زون میں ایسے خطاب فرمائے گئے ہیں کہ جس میں غیرت کی تھوڑی سی بھی رمق باقی ہو تو ذرا سی دیر میں شرم سے اُس کا چہرہ سُرخ ہو اُٹھے۔ سُرخ رنگ خطرے کی گھنٹی ہوا کرتا ہے۔ ریڈ زون میں جو کچھ ہوا ہے وہ بھی ملک اور قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی، بلکہ گھنٹا ہے جو مسلسل بج رہا ہے مگر یاروں نے طے کرلیا ہے کہ اور تو سب کچھ سُنیں گے، خطرے کے اِس گھنٹے کو نہیں سُنیں گے۔

جشن آزادی کے بعد سے وفاقی دارالحکومت ’’جشن غلامی‘‘ کی زد اور لپیٹ میں ہے۔ ملک کے حَسّاس ترین شہر کے حَسّاس ترین علاقے میں جو دھما چوکڑی مچائی گئی ہے اُس نے قوم کو خلجان میں اور باقی دُنیا کو وسوسوں اور تحفظات میں مبتلا کیا ہے۔ ملک پہلے کون سی اچھی حالت میں تھا کہ اب وفاقی دارالحکومت کو بھی داؤ پر لگادیا گیا ہے۔ اور اِس بھی بڑھ کر یہ کہ اِسے داؤ پر لگنے دیا گیا ہے۔

احتجاج کے نام پر جو کچھ ہوا ہے وہ قوم سے بھونڈے مذاق کے سِوا کچھ نہیں۔ اور پھر جس طرح اِس پورے معاملے کو ہینڈل کیا گیا اُس نے جلتی پر تیل چھڑک دیا۔ سوال یہ نہیں کہ اِس نام نہاد جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا۔ معاملہ تو کچھ ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی جیتا نہیں، سب ہار گئے ہیں اور ہار کا ’’مزا‘‘ چکھنے والوں میں قوم سب سے آگے کھڑی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ اِس کھیل میں ہار صرف قومی مفادات کا مقدر بنی ہے۔ اور باقی سب ’’فتح‘‘ کا جشن منانے کے حقدار قرار دیئے جاسکتے ہیں!

ایک ہی سُوراخ سے خود کو کتنی بار ڈسوایا جاسکتا ہے؟ سُنا ہے مومن کو ایک سُوراخ سے ایک ہی بار ڈسا جاسکتا ہے۔ تو کیا ہم مومن نہیں؟ اگر ایک بار ڈسے جانے کا اُصول یا کلیہ درست مان لیا جائے تو سمجھ لیجیے ہمارا کام تو تمام ہوچکا ہے۔ احتجاج کے نام پر دھرنے بازی اور مارچ کا ڈراما وہ سُوراخ ہے جس سے ہم بار بار ڈسے گئے ہیں۔ ایک بار ڈسے جانے والے اُصول کے تحت تو ہم مومن نہ رہے مگر معترضین کو کیا معلوم کہ اب ہم نے احتجاج کرنے اور اُس سے لطف کشید کرنے کو ایمان کا درجہ دے دیا ہے!

تین ہفتوں سے قوم شدید خلجان میں مبتلا ہے۔ ہر طرف خدشات اور تفکرات کی فصل اگی ہوئی ہے۔ جسے دیکھیے وہ شدید پریشانی کے عالم میں ہے اور رات دن یہی سوچ سوچ کر دُبلا ہوا جارہا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ اِس ’’اب کیا ہوگا؟‘‘ نے قوم کا جینا حرام کردیا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے اور ہمارا جینا حرام کردیتا ہے۔ اور اُن کی بھی کوئی کمی نہیں جو اپنی ’’اصولی‘‘ جدوجہد سے اِس سوال کو بار بار جنم دینے کا کارن بنتے ہیں۔ آرڈر پر مال تیار کرنے والوں نے اِس ملک کو بند گلی کے دیس میں تبدیل کردیا ہے۔ جب بھی کہیں سے اشارہ ہوتا ہے، آرڈر پر مال تیار کرنے والے کمر کس کر میدان میں آجاتے ہیں اور قوم کا ناطقہ بند کردیتے ہیں۔ یہ پورس کے ہاتھی ہیں جو پلٹ کر اپنے ہی لشکر (یعنی عوام) کو کچلتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب لوگ سیاسی جدوجہد کو اپنے لیے خیر و برکت اور بہت سے مسائل سے نجات کا وسیلہ سمجھا کرتے تھے۔ تب اُصولوں کی جنگ ہوا کرتی تھی۔ لوگ جو زبان دیتے تھے اُس پر قائم رہتے تھے اور اُس پر مر بھی جاتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ پانی اپنی پنسال میں آتا چلا گیا یعنی اُصولوں کو بالائے طاق رکھنے کے رجحان نے جنم لیا۔ معاملہ اِس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب بے اُصولی ہی اُصول کا درجہ پاگئی ہے۔ ایک دور تھا کہ احتجاج کے لیے کوئی نہ کوئی اِشو تلاش کیا جاتا تھا یا خود کوئی اِشو کھڑا کرلیا جاتا تھا۔ یعنی کسی بھی تحریک کا کوئی نہ کوئی جواز یا حقیقی محرک ہوا کرتا تھا۔ اب اِس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ کوئی اِشو نہ بھی ہو تو میدان میں نکل آئیے۔ جس طور کسی اُصول کا نہ ہونا اب اُصول ٹھہرا ہے بالکل اُسی طور کِسی اِشو کا نہ ہونا بھی اِشو بن گیا ہے۔ سیاسی جدوجہد کے نام پر اپنی دکان چلانے والے کبھی کبھی اِس بات سے بھی چِڑ جاتے ہیں کہ فریق ثانی کوئی اِشو ہی نہیں دے رہا کہ جس کی بنیاد پر حلوے مانڈے کا اہتمام کیا جائے۔ اور یوں وہ دِل کے ہاتھوں بے تاب ہوکر میدان میں آ جاتے ہیں۔

وہ بھی کیا دن تھے کہ کوئی اپوزیشن ہوا کرتی تھی جو عوام کی بات کیا کرتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ مفاہمت کے نام پر سب کچھ ایک فارمولے کے تحت بانٹ لینے پر اکتفا کرلیا گیا۔ اِس صورت میں عوام کے ہاتھ کچھ نہ آتا تھا۔ اب سیاسی جماعتوں میں ٹھن گئی ہے۔ اور ٹھنی بھی ایسی ہے کہ عوام کے پاس جو کچھ رہ گیا تھا وہ بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ اِس لڑائی میں ملک اور قوم کو کیا ملے گا، کسی کو معلوم نہیں۔ یا شاید قوم سب کچھ جانتی ہے۔ یہ بھی اﷲ کا کرم ہے کہ قوم کو سب کچھ پہلے سے معلوم ہے، لہٰذا کسی بات پر حیرت ہوتی ہے نہ دُکھ۔ ع
مشکلیں مجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں

قوم نے تین ہفتوں کے دوران ایک بار خود کو بند گلی میں پایا ہے۔ منتخب حکومت کی غلطیاں اور خامیاں اپنی جگہ مگر جو کچھ ہوا ہے یا کیا گیا ہے اُس کا کوئی جواز عوام کو ریوڑ کی طرح ہانکنے والے کبھی ڈھنگ سے دے پائیں گے؟ یہ سوال بہت سوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔ اور ابھی بہت دنوں تک کرتا رہے گا۔ تین جماعتوں کی اِس لڑائی میں جو کچھ بھی ہوا ہے اُس کا نتیجہ صرف قوم کو بھگتنا ہے۔ ملک ایک بار پھر بند گلی میں کھڑا ہے۔ دنیا کو اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ بند گلی کا دیس ہے۔ وقفے وقفے سے ہر راستہ کسی نہ کسی بند گلی میں پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔ جو راستہ دکھانے کے دعویدار ہیں وہ تو بربادی کی منزل تک پہنچانے کو بے تاب ہیں۔ ایسے میں اﷲ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے کہ وہ راہ دکھانے کے شوقینوں کو سیدھا راستہ دکھائے۔ مشرکین مکہ بہت سے بُتوں کو پوجتے تھے مگر جب کشتی طوفان میں گِھر جاتی تھی اور ساحل کے دور دور آثار نہیں ہوتے تھے تب وہ بھی اﷲ ہی سے مدد مانگا کرتے تھے۔ ہماری کشتی بھی پھر طوفان میں ہے اور ہمیں اﷲ ہی سے مدد مانگنی چاہیے۔ دعا ہے کہ اﷲ ہمیں بھٹکے ہوئے رہبروں سمیت ہر مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483931 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More