پاکستان میں فسادات کی غیرملکی سازش

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

تحریر: مصعب حبیب

پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے اسلام آباد دیے جانے والے دھرنوں کے دوران سڑکوں پر ناچ گانوں اور طوفان بدتمیزی برپا کئے جانے سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی توہورہی تھی لیکن اب پارلیمنٹ ، وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر پر دھاوا بولنے سے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئی ہیں۔امریکہ، یورپ اور ان کے دیگر اتحادی افغانستان میں بدترین شکست کے بعد پاکستان کو مصر، الجزائر اور بیروت بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیکر حاصل کیا ایٹمی پاکستان کسی طرح مضبو ط و مستحکم نہ ہو سکے ا س کے لئے ماضی میں وہ بہت کھیل کھیلتے رہے۔ ڈرون حملے کئے گئے اور پھر اس کے ردعمل میں خودکش حملے پروان چڑھائے گئے۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کروائی کی گئی۔ علیحدگی کی تحریکوں،ٹارگٹ کلنگ ، دہشت گردی اور تخریب کاری کو فروغ دیا گیا تاہم پاک فوج ، پاکستانی عوام اور قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کے بے پناہ قربانیاں دینے کے بعد یہ سلسلہ کچھ تھما تھا کہ دشمنان اسلام نے پرامن پاکستان کو ایک نئی جنگ کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔عورتوں ، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو پولیس سے دست و گریبان کر کے شہادت کے متلاشی قائدین خود بلٹ پروف گاڑی اور کنٹینر میں چھپے بیٹھے ہیں کہ ان کے کارکنان پر چلنے والے آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیوں میں سے کوئی ان کے قریب سے نہ گزر جائے ۔وہ جذباتی تقریریں اور جرأت و بہادری دکھانا سب کچھ آنسو گیس کے دھویں میں غائب ہو چکا ہے۔ایسی سیاست ،بہادری اور مردانگی کو کیا کہا جائے کہ بلٹ پروف گاڑی اور کنٹینر کی حفاظت پر بیٹیوں اور ماؤں ، بہنوں کو لگا رکھا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔دھرنوں کے قائدین اپنی تقریروں کے دوران کفار کے خلاف جہاد کی فضیلت والی حدیثیں سناکراپنے مارچ اور دھرنوں کو بھی جہاد سے تشبیہہ دیکر لوگوں کے جذبات بھڑکاتے رہے لیکن قوم سوال کرتی ہے کہ یہ کیسا جہاد ہے کہ وہ خود تو بلٹ پروف گاڑی و کنٹینر میں بیٹھے ہیں اور عوام الناس بے چارے گولیاں اور آنسو گیس کے شیل کھارہے ہیں۔ایسی صورتحال میں تو یہی کہاجاسکتا ہے کہ ’’ دل تو کرتا ہے شہید ہوجاؤں مگر‘ سنا ہے کہ وہ جان سے مار دیتے ہیں‘‘۔بہرحال بلٹ پروف گاڑی اور کنٹینر سے کمان کرتے ہوئے دونوں قائدین پانچ سو سے زائد افراد زخمی کروا چکے ہیں‘ بیسیوں کو گرفتار کیاجاچکا جبکہ دوتین اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خاں کی جانب سے اپنے کارکنان کے پرامن رہنے کے بہت دعوے کئے گئے اور شور مچایاجاتا رہا کہ ان کے کارکنان کسی قسم کا انتشار نہیں چاہتے لیکن پولیس سے مارپیٹ کے دوران جس طرح وہ آنسو گیس کے شیل اٹھا کر واپس پولیس کی جانب پھینکتے رہے اور چہروں پر ماسک چڑھا کر ڈنڈے چلاتے رہے اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں اس حوالہ سے خصوصی تربیت دی گئی ہے۔انتظامیہ کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس سمیت دیگر حساس عمارتوں کی جانب جانے والے راستوں پر کنٹینر لگا کر سکیورٹی فورسز کی بھاری نفرتی تعینات کی گئی تھی تاہم مظاہرین کی بڑی تعداد نے وزیر اعظم ہاؤس ، پارلیمنٹ اور ایوان صدر میں گھسنے کی کوشش کی جس پر پولیس، رینجرز اور ایف سی کے اہلکاروں نے انہیں روکا تو انقلاب کے متوالوں اور نیا پاکستان بنانے والوں نے باقاعدہ جنگ شروع کر دی۔پولیس کی طرف سے انہیں منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں تو مظاہرین بھی خوب پتھراؤ کر کے اپنے اور اپنے قائدین کیلئے ثواب کماتے رہے۔مظاہرین کی کثیر تعداد نے ریڈ زون میں پاکستان کی تاریخ کی بدترین ہنگامہ آرائی کی اور وہاں موجود درختوں، پولیس و رینجرز کی گاڑیوں کو آگ لگاتے رہے۔ مشتعل مظاہرین پارلیمنٹ ہاؤس کا جنگلہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے، کیبنٹ ڈویژن اور پی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر کے داخلے دروازے توڑ دیے گئے۔ مظاہرین پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر تک جانا چاہتے تھے مگر پاک فوج کے جوانوں کی گنیں دیکھ کر وہیں پر احتجاج کیلئے بیٹھ گئے۔ اس وقت جتنے قائدین اسلام آباد میں دھرنوں کی قیادت کر رہے ہیں ان میں سے کسی کے اپنے بچے یا عورتیں وہاں موجود نہیں ہیں۔پاکستان کو پوری دنیا میں ایک تماشا بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ ان دھرنوں کی وجہ سے کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ملک کو سینکڑوں ارب کا نقصان ہوا۔ سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی، ڈالر دوبارہ ایک سو روپے سے اوپر چلا گیا۔مالدیپ اور سری لنکا کے صدور پاکستان کا دورہ ملتوی کر چکے ہیں ۔ اب چین کے صدر نے پاکستان کا انتہائی اہم دورہ کرنا ہے جس میں بجلی سمیت دیگر کئی معاہدے طے پانا ہیں لیکن حالات سخت خراب ہونے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ بھی چند دن کیلئے موخر کرنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ۔ یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ اور پاکستان دشمنوں کو خوش کرنے والی ہے۔ ملکی ترقی کے دشمن ممالک کسی طور نہیں چاہتے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مستحکم ہو سکیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست کے نام پر ان دنوں جوکھیل کھیلا جارہا ہے یہ انہی سازشوں کا حصہ ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اسلام و پاکستان دشمنوں کی آلہ کار نہ بنیں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ طاقت کے استعمال کی بجائے مذاکرات سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے۔ ماڈل ٹاؤن میں حکومت پنجاب کی طرف سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوششوں میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اور دس بارہ لوگ مارے گئے وہ غلطی حکمرانوں کے گلے کا پھندہ بن چکی ہے۔ اسی سے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کو جواز ملااور بیرونی قوتوں کو بھی اپنے مذموم مقاصدحاصل کرنے کیلئے درپردہ کھیل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ اگر جان بوجھ کر ماڈل ٹاؤن واقعہ کی یہ مصیبت اپنے گلے میں نہ ڈالی جاتی تو قطعی طور پر آج یہ حالات نہ ہوتے بہر حال اس وقت جو صورتحال ہے حکومت پاکستان کو کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھانی چاہیے۔ اسلام آبادپر لشکر کشی کر کے حکومتیں تبدیل کرنے کی ریت چل پڑی تو پھر یہ سلسلہ رک نہیں سکے گا۔ آئے دن کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی دس بیس ہزار بندے لیکر اسلام آباد آجایا کرے گی اور دس پندرہ لاشیں گرا کر حکومت تبدیل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ علامہ طاہر القادری اور عمران خاں نے تشدد کی سیاست کا ایک نیا بیج ملک میں بود یا ہے جس کے خطرناک نتائج آنے والے دنوں میں بھی بھگتنا پڑیں گے۔ پی ٹی آئی، پی اے ٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے ملک بھر میں مظاہرے شروع کر دیے گئے ہیں۔ کراچی میں ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ پولیس اور مذکورہ جماعتوں کے کارکنان کے مابین جھڑپیں جاری ہیں اور یہ سلسلہ فی الحال ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور حکومت دونوں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اورانا پرستی کے خول سے باہر نکل کر ملک کیلئے سوچیں۔دنیا بھر کی کافر قوتیں اس وقت پاکستان کوعدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔اگر ہم اسے مضبوط اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ملک میں اتحادویکجہتی کاماحول پیدا کرنا چاہیے نا کہ آپس کے لڑائی جھگڑوں میں اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام اور قومی املاک کو تباہ کرنے کا سلسلہ ختم کیاجاسکے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا کہ وہ اس ملک کی حفاظت کرے اور دشمنان اسلام کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

Manzar Habib
About the Author: Manzar Habib Read More Articles by Manzar Habib: 193 Articles with 119314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.