پاکستانی عوام اور انتخابی معرکے

7مارچ1977والے دن جب پاکستان قومی اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان قومی اسمبلی کا انتخابی معرکہ برپا تھا ،حیدرآباد کے ایک پولنگ اسٹیشن پر ایک بڑا دلخراش واقعہ پیش آیا ۔اس واقع کی تفصیل میں جانے سے قبل اس کے اسباب اور محرکات پر بات ہو جائے کہ 1970کے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے نتیجے کے مطابق اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ کرنے کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہو گیا ۔سانحہ مشرقی پاکستان کا دکھ مشرقی بازو کے محب وطن بنگالیوں نے بھی محسوس کیا لیکن مغربی پاکستان کے ہر فرد نے اس دکھ کا بڑا گہرا اثر لیا اور اس کے اثرات پاکستانیوں کی نفسیات کا حصہ بن گئے کہ ہر پاکستانی سانحہ مشرقی پاکستان کا تین افراد کو ذمہ دار سمجھتا تھا اور ہے۔وہ تھے مجیب الرحمن، جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو ۔عام پاکستانی یہ سمجھتے تھے کہ اگر بھٹو صاحب نتائج کے مطابق اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا قبول کر لیتے تو شاید یہ سانحہ نہ ہوتا۔ انھوں نے اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن پاکستانیوں کہ دل نہ جیت سکے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے اچھے کام کرنے کے باوجود بھٹو صاحب کے دور میں ان کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلیں ان میں عوام کی اکثریت اپنے پورے جذبات کے ساتھ شریک رہی چاہے وہ بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک ہو ،دستور سازی کی موومنٹ ہو ،قادیانی تحریک ہو یا تحریک نظام مصطفیٰ ہو ۔یہ سانحہ مشرقی پاکستان کا دباؤ ہی تھا کہ بھٹو صاحب ایک اسلامی دستور پر تیار ہوئے اور پھر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے دستور میں ترمیم کی اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا ،ان سب کے باوجود عام پاکستانیوں کہ دل میں سقوط ڈھاکا کا کانٹا ضرور چبھتا رہتا تھا پھراپنے دور میں ظالمانہ طرز حکومت کی وجہ سے یہ چبھن اور گہری ہوجاتی اور نفرت کی چنگاری کسی وقت بھی شعلہ بن سکتی تھی ویسے تو 14 اگست1973 کو مستقل دستور نافذ ہونے کے بعد اصولاَبھٹو صاحب کو نئے انتخابات کرانے چاہیے تھے حزب اختلاف نے اس کا مطالبہ بھی کیا لیکن بھٹو صاحب نے اس خوف سے انتخاب نہیں کرائے کہ مشرقی پاکستان کا غم تازہ ہے کہیں کہانی الٹ نہ جائے بھٹو صاحب کی مدت آئین کی روسے اگست 1978 تھی۔

لیکن چونکہ اس سال یعنی 1977 میں اپوزیشن بالکل خاموش بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی روزآنہ مختلف بااثر لوگ اپنے ہزاروں اور لاکھوں ساتھیوں سمیت پی پی پی میں داخل ہو رہے تھے اسی دوران بھٹوصاحب نے بھی مزاحاَیہ کہا کہ سات کروڑ کا ملک ہے اور دس کروڑ افراد پی پی پی میں شامل ہو چکے ہیں ۔اس وقت ایجنسیوں نے یہ رپورٹ دی کے اس وقت پی پی پی کے لیے سیاسی حالات موافق ہے اس لیے انتخاب کرا دیے جائیں چنانچہ جنوری 1977 میں اچانک بھٹو صاحب نے الیکشن کا اعلان کردیا جس کے مطابق 7 مارچ کو قومی اسمبلی اور 10 مارچ کو صوبائی اسمبلی کے انتخاب ہونا قرار پائے ۔

اس دلخراش واقع کی تفصیل یہ ہے کہ ایک عورت کا بچہ بیمار تھا وہ اپنے بچے کو اسپتال لے جانے کے بجائے اس کو اپنے سینے سے لگا کر پولنگ اسٹیشن آئی اور یہ کہا کہ پہلے وہ ووٹ ڈالے گی پھر اسپتال جائے گی ووٹ ڈالنے کی بڑی لمبی لائن تھی اسی دوران اس کا بچہ مر گیا وہ اپنے پولنگ بوتھ میں داخل ہوئی اور مردہ بچہ پریزائیڈنگ آفیسر کی میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ بڑی لمبی لائن تھی میرا بچہ مر گیا لیکن میں ووٹ ڈال کر جاؤں گی اور وہ ووٹ کاسٹ کرکے اپنے مردہ بچے کو لے کر گھر گئی یہ اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف شدید نفرت اور اپنے ملک سے محبت کی نہ صرف ایک مثال ہے بلکہ انتخاب کے حوالے سے پاکستانیوں کے شعور کا پتا بھی بتاتی ہے ۔آج کل اسلام آباد میں دھرنوں کا موسم ہے ،جنرل راحیل بھی درمیان میں آگئے ہیں دیکھتے ہیں کے سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن ہماری دلچسپی تو اس بات سے ہے کہ اگر ان تمام جدجہد کے نتیجے میں انتخابی اصلاحات کا عمل مکمل ہو جائے تو اس ملک کے عوام پر موجودہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا بہت بڑا احسان ہو گا ،اسی حوالے سے کچھ تجاویز پیش خدمت ہے ۔

پہلی بات تو یہ کہ الیکشن کمیشن آزاد اور با ختیار ہو جس طرح بھارت میں ہے نواز شریف صاحب بھارت سے دوستی کے حق میں ہیں تو اس ملک کی اچھی باتوں کو بھی اپنا لیں۔

دوسری اہم بات جس پر آج کل بہت بحث ہو رہی ہے وہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنا اس میں بوگس ووٹنگ بالکل نہیں ہو سکے گی اس کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کی تربیت کرنا ہو گا ۔تیسری تجویز یہ ہے کہ انتخابی عمل ایک ہی دن میں مکمل کرنے کے بجائے اسے کئی دنوں پر محیط کیا جائے ۔چوتھا نکتہ یہ ہے کہ ایک صوبے کے انتخاب میں عملہ دوسرے صوبے سے لایا جائے مثلاَ سندھ میں انتخاب ہو تو اس کا عملہ پنجاب کا ہو اور پنجاب میں انتخاب ہو تو اس کا عملہ سند ھ اور بلوچستان سے لیا جائے ریٹرننگ افسران کو بروقت سزا کا اختیار دیا جائے ۔

آخر میں ایک اہم تجویز یہ ہے کہ بہت سے ممالک میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیں ۔ہمار یہاں جس طرز کے انتخابات ہوتے ہیں اس میں اقلیت ووٹ والا ممبر منتخب ہو جاتا ہے اور اکثریت ووٹ والے ناکام ہو جاتے ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک حلقہ انتخاب میں دو لاکھ ووٹ ہیں Aکو ملتے ہیں 53ہزار ووٹ اورBکو ملتے ہیں 51ہزار اور Cملتے ہیں 49ہزار جب کہ Dکو ملتے ہیں 47ہزار ووٹ ۔ اس طرح 53ہزار والا کامیاب کہلائے گا جب کے ایک لاکھ سینتالیس ہزار ووٹ ضائع ہو جائیں گے جب کہ متناسب نمائندگی میں ووٹ ضائع نہیں ہو تے ۔پاکستان میں ہم دونوں طرح کے انتخاب کا تجربہ کر سکتے ہیں ،خالص متناسب نمائندگی میں تو یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو اپنے نمائندوں کی فہرست دے دیتی ہیں جو وہ اپنی پارٹی کی باہمی مشاورت سے میرٹ کی بنیادپر بناتی ہیں اس میں لوگ جماعتوں کو ووٹ ڈالتے ہیں ،جس جماعت کو جتنے ووٹ ملتے ہیں اسی تناسب سے الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی دی ہوئی فہرست سے کامیاب نمائندوں کا اعلان کردیتا ہے مثلاَ اگر پورے ملک میں دو کروڑ ووٹ پڑے ہیں جیسا کہ تحریک انصاف کو 76لاکھ مل جاتے ہیں اور کل ایوان 200کا ہے تو تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں 76نشستیں ملیں گی ۔

ہم اپنے ملک میں یہ تجربہ کر سکتے ہیں کہ کل ایوان 300کا رکھیں اور پورے ملک میں 150انتخابی حلقے بناکر 150ہی نشستوں پر عام انتخابات کروائیں اب اس میں جس پارٹی کو جتنی بھی نشستیں ملے وہ ان کی ہو گی لیکن بقیہ 150نشستوں کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ ان جماعتوں نے جتنے ووٹ حاصل کیے ہیں اس تناسب سے سیٹیں الاٹ کی جائیں مثلا یوں سمجھئے کہ جماعت اسلامی کو عام انتخاب میں کل دو کروڑ ووٹوں میں سے 40لاکھ ووٹ ملتے ہیں اور 150کے ایوان میں اس کے صرف 8نمائندے کامیاب ہوتے ہیں لیکن بقیہ 150متناسب نمائدگی والی سیٹوں میں اسے 20%نشستیں یعنی 30نشستیں اور مل جائیں گی اس طرح جماعت اسلامی کے 300کے ایوان میں 38ممبران قومی اسمبلی ہوں گے اسی طرح کا فارمولاصوبائی اسمبلی میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے -

پاکستان بیلٹ کے ذریعے بنا تھا اور بیلٹ ہی کے ذریعے سے مستحکم ہو سکتا ہے بس ایک شفاف اور دیانتدارانہ انتخاب کی ضرورت ہے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.