تبدیلی……مگر کیسی؟

ہمارے ہاں تبدیلی کا نعرہ بہت پاپولر ہے۔ ہر ایک تبدیلی کا خواہاں ہے ، خود شہباز شریف بھی سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ عوام کے حالات تبدیل نہ ہوئے تو خونی انقلاب آئے گا۔ ہاں تبدیلی تو آنی ہے لیکن وہ قربانی سے آئے گی۔ قربانی کون دے گا، کب دے گا اور محض چہروں کی تبدیلی کے لیے کون پاگل قربانی دے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں، جو تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

مجھے ابھی تبدیلی بہت دور تک نظر نہیں آرہی۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے لازم ہے کہ پہلے فرد تبدیل ہو۔ تبدیلی ایسے ہی ہے جیسے دودھ میں سے مکھن بننا، یعنی جس قدر دود میں چکناہٹ ہو گی[خالص ہوگا] اسی تناسب سے مکھن بنے گا۔ بالکل اسی طرح معاشرے میں تبدیلی اسی رفتار، اسی انداز اور اسی طرح رونما ہوگی، جس رفتار اور انداز میں فرد میں تبدیلی رونما ہو گی۔

ایک تبدیلی وہ ہے جو شاہراہ دستور پر نظر آرہی ہے۔ مرد و زن کا آزادانہ اختلاط، نیم برہنہ ملبوسات بلکہ نیم برہانہ مرد وزن۔ جھوٹے الزامات، مکاریاں، دھمکیاں، دھونس، ضد اور سینہ زوری، یہ سب کچھ ہمارے معاشرے کے حصے کی عکاسی ہے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ یقینا ایسا ہے کہ اسے جب بھی اظہار آزادی کا موقعہ ملتا ہے وہ لباس سے بھی آزادی چاہتا ہے، وہ جھوٹ بھی خوشی سے بول لیتا ہے، دوسروں کو دھوکہ دینے میں بھی دیر نہیں کرتا، اگر کسی کو الزام لگا کر زیر کرنے کا موقعہ ملے تو بھی دھوکہ دہی میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا اور جب اپنے مطلب کے لیے دھمکی دینے سے کام چلتا ہے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یوں اس طبقے میں جن اخلاقی اقدارکا چلن ہے اس کا مظاہرہ شاہراہ دستور پر کیا جارہا ہے۔

ہمارا موجودہ نظام استعماری [انگریزوں سے ورثے میں ملنے والا] ہے اور جس تبدیلی کا شاہراہ دستور پر مطالبہ کیا جارہا ہے وہ دجالی ہے۔ جس طرح "شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری" نے خواتین کی ڈھال بنا رکھی ہے۔ مختلف ڈیزائن کی خواتین کو مردوں کی درمیان لا کھڑا کیا ہے اور جس طرح عمران خان نے طبقہ اشرافیہ اور لوئر کلاس کی بے لگام خواتین کو تبدیلی کے لیے میدان میں لا کھڑا کیا ہے، وہ صرف عمران خان کی ضرورت نہیں اس دھرنے میں شامل ہر خاتون اور مرد کے دل کی آواز ہے۔

قادری اور عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ۰ ۲،۵ ۲ ہزار لوگ ہیں، ان کی پشت پر مزید دو یا تین لاکھ ایسے لوگ ہوں گے جو یہ دجالی سسٹم چاہتے ہوں گے۔ پاکستان کے ۸ اکروڑ لوگ لاکھ بے عمل سہی لیکن وہ اس طرح کے دجالی کلچر کے حامی نہیں۔نام کے ہی مسلمان سہی لیکن کوئی اپنے بچوں کو اس طرح مادر پدر آزاد نہیں کرنا چاہتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بُرے سے بُرا انسان بھی اپنے بچوں کو نیک اور بااخلاق دیکھنا چاہتا ہے۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں لیکن وہ معاشرے سے ظلم، استحصال اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ موجودہ استعماری نظام کے بجائے اسلام نظام زندگی قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ سال گیلپ سروے کے مطابق پاکستان کے نوے فیصد لوگ اسلامی نظام کے قیام کے خواہاں ہیں۔ موجودہ استعماری نظام اور اس کی پشت پر موجود مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے ہمارے معاشرے کی اخلاقی بنیادیں ہلانے کی ہر کوشش کرلی ہے۔ ایک اچھی خاصی تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی لیکن مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ ابھی تک اپنی اقدار پر قائم ہے۔

برصغیر پر استعماری قبضے کے ابتدائی دنوں میں انگریزوں نے مری میں بسیارا کرلیا تھا۔ انگریز مرد وخواتین اور ان کے بچے ، بچیاں بھی یہاں مقیم تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے بڑے، بڑے تعلیمی ادارے بھی مری اور ایبٹ آباد میں قائم کیے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستان کی مغرب زدہ فیمیلز نے گرمی کا موسم مری اور ایبٹ آباد میں گزارنے کا رواج قائم رکھا لیکن یہ ساری یلغار مری اور ایبٹ آباد کے عوام میں کوئی تہذیبی تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ مری اور ایبٹ آباد کے مرد اور خواتین آج بھی اپنا مشرقی بلکہ علاقائی لباس پہنتے ہیں، اپنی زبان بولتے ہیں اور ان کا پورا نظام معاشرت اپنی ثقافت پر قائم ہے۔ ان علاقوں کے لوگ آج بھی پہلے کی طرح مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارے کلچر کو بگاڑنے کے لیے مغربی اور ہندی کلچر کی یلغار اور میڈیا پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود معاشرے کو اپنی تہذیبی بنیادوں سے ہلایا نہیں جاسکا۔ پاکستان کی اشرافیہ اور نچلی ترین سطح کے لوگ پہلے بھی مذہب سے دور تھے اور آج بھی ان کا مذہب سے تعلق نہیں تاہم مسلسل دعوتی سرگرمیوں نے ان دونوں طبقات میں بھی خاطر خواہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ الحمدﷲ آ ج کا پاکستان اپنی ثقافتی بنیادوں پر قائم و دائم ہے اور اسلام پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہے۔ تبدیلی جب بھی آئے گی اسلامی بنیادوں پر ہی آئے گی۔ اسلام نظام کے قیام کے لیے سرگرم عمل تنظیموں میں اشتراک عمل اور رفتارکار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ بھارتی اور مغربی ثقافتی یلغار کا اہل پاکستان نے بھرپور مقابلہ کیا اور انہیں اپنے اندر جگہ نہیں دی۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105619 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More