ڈیڈ لاک

کل تک حکومت مسلسل مذاکرات کی رٹ لگاتی رہی، لیکن عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی تمامتر کوششوں اور اُن کی ساری تجاویز کو مسترد کرنے کے بعد حکومت اپنی ہٹ دھڑمی اور غیر لچکدار رویے کی وجہ سے خود ہی "ڈیڈ لاک" کی بندگلی کی طرف چلی گئی ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ کسی بے گناہ کے قتل کی دادرسی اور FIR اُس کے ورثاء کا بنیادی اور قانونی حق ہے۔ اگر حکومت کو ذرا سی بھی پاکستان کے امن اور مقتولین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ہوتا تو وہ لازمی اِس مطالبے کو مانتی۔

لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے تو حکومت ڈر رہی تھی کہ اگر FIR درج ہوگی تو پھر لازمی طور پر حکومت گھر جائے گی اور جب حکومت جائے گی تو مزید کاروائی میں پنجاب کی صوبائی سطح سے لے کر قومی اسمبلی کی حد تک ساری حکومت متاثر ہو جاتی، کیونکہ شہباز شریف اور نوازشریف کے علاوہ باقی 19 ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی قتل و غارت کے اُس اندوہناک واقعے میں ملوث تھے۔

اب الیکشن 2013ء میں دھاندلی کا ایشو تو ایک طرف رہ گیا، لیکن ماڈل ٹاؤن لاہور کا وہ خونی واقعہ حکومت کی بنیادوں کو اُکھاڑنے کے لیے کافی ہوگا۔ اور ایسی حکومت کے رہنے کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا جو اپنے شہریوں کو انصاف نہ دلا سکے، خواہ شہید ہونے والے اُن کے حامی تھے یا مخالف تھے، لیکن بالآخر تھے تو پاکستانی۔

اب چونکہ کل (جمعرات) دھرنے کا آخری دن قرار دے دیا جا رہا ہے تو یقیناً بہت اہم دن ہوگا۔ اور خیال کیا جا رہا ہے کہ دھرنے کے شرکاء کا غم و غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے، اور وہ مرنے اور مارنے کی حد تک تیار ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف فوج نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنے پاکستانی شہریوں پر گولی نہیں چلائیں گے، اور پولیس نے بھی کہا ہے کہ ماڈل ٹاؤن واقعے کے بعد اب جب تک ہمیں کوئی تحریری حکم نامہ نہیں ملتا ہم دھرنے کے شرکاء پر کوئی بھی کاروائی نہیں کریں گے۔

اب بھی اگر حکمرانوں نے اِس آخری "ڈیڈ لائن" کو آسان سمجھا اور کوئی لچک نہ دکھائی تو یہ یقیناً اُن کے اقتدار کی "ڈیڈ لائن" بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ایک غیرمصدقہ اطلاع کے مطابق دھرنے کے شرکاء پارلیمنٹ ہاؤس، وزیرِاعظم ہاؤس، سپریم کورٹ اور PTV کے آفس پر قابض ہو جائیں گے۔

اب یہاں پر فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ کل 3 بجے سے پہلے ہی کوئی اہم تاریخی فیصلہ کرے۔ تاکہ قیمتی جانوں کا نقصان نہ ہو۔ اور ملک کا نظم و نسق سنبھال کر آئندہ کی حکمت عملی کو ترتیب دے، جس کے روشن امکانات کا خیال ظاہر بھی کیا جا رہا ہے۔

ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 104972 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.