موجودہ سیاسی بحران اور آگے کی راہیں

پاکستان اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ ایک راستہ آئین اور قانون کی پاسداری، جمہوریت کی مضبوطی، سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے، سیاسی بلوغت کے مظاہرے، قومی یکجہتی، اخلاقی اقدار کو اپنانے، ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے، توانائی کے بحران کو ختم کرنے کیلئے دوررس اصلاحات کرنے، ڈوبتی معیشت کے سفینے کو بھنور سے نکال کر ساحل کی طرف لانے، کرپشن کے کینسر کو ختم کرنے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کے وقار کو بلند کرنے اور موجودہ تنہائی کو ختم کرنے کا ہے جس پر موجودہ حکومت کو پوری دیانتداری سے چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں عملی اقدامات کئے بھی گئے ہیں۔ دوسرا راستہ قوم میں نفاق پیدا کرنے، آئینی حکومت کے ایک غیر جانبدار عبوری حکومت کے دور میں اور ایک آزاد قومی الیکشن کمشن کی نگرانی میں حاصل کردہ تقریباً دو تہائی مینڈیٹ کو مشکوک بنانے، ہلڑ بازی، جلوس، دھرنوں اور گھیرائو جلائو سے ایک آئینی حکومت کی بزور طاقت بساط لپیٹنے کا ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان اور طاہر القادری صاحب قوم کو دوسرے راستے کی طرف دھکیلنے پر بضد ہیں، ان کی اپنی دانش میں ملک کو آزاد کروانے اور اس میں انقلاب لانے کا یہی واحد بہتر راستہ ہے۔ ان کا پہلا اور بڑا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم اس لئے مستعفی ہو جائے چونکہ اُن کے خیال میں جس کا اُن کے پاس کوئی ثبوت نہیںکہ حکمران مسلم لیگ جماعت نے ڈیڑھ کروڑ ووٹ دھاندلی سے لئے ہیں۔ کسی بھی عدالتی کمشن کے فیصلے سے قبل ایک وزیراعظم سے اس طرح مستعفی ہونے کا مطالبہ بالکل مضحکہ خیز ہے لیکن قارئین اگر ہم ایک لمحے کیلئے یہ تصور کر لیں کہ وزیراعظم اس دبائو کے تحت مستعفی ہو جاتے ہیں تو اس کے مضمرات کیا ہوں گے۔ پہلا یہ کہ ملک پھر ایک سیاسی جمود کا شکار ہو جائے گا۔ وزیراعظم کی سبکدوشی کے فوراً بعد روپے کی قیمت گر جائے گی، بیرونی سرمایہ کاری رُک جائے گی، عبوری حکومت کوئی دوررس فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہ ہو گی۔ ملک میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ اگر عبوری حکومت کے انتخاب پر بڑی سیاسی جماعتیں رضامند نہ ہوئیں تو وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں گی۔ سیاسی بحران میں اضافے کی بدولت اگر افواج پاکستان کو ملک کی باگ ڈور بادل نخواستہ سنبھالنی پڑی تو ملک مزید 50 سال پیچھے چلا جائے گا، ہماری پیشہ ور بہادر افواج کو اندرونی سیاست میں گھسیٹنے کے بعد، جس کے بہت کم امکانات ہیں۔ جنرل راحیل جیسے شریف النفس انسان، نڈر فوجی اور قابل رشک سپہ سالار کی موجودگی میں پاکستان کی تاریخ کے دہشت گردی ختم کرنے والے سنہری باب رقم ہو رہے ہیں، فوج پیشہ وری میں آگے بڑھے گی، سیاسی مداخلت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، چونکہ اس پر پاکستان کے بیرونی دشمن بغلیں بجائیں گے جب وہ پاکستان پر حملہ کر کے اس کے ٹکڑے کرنے کیلئے اپنی نئی ڈاکٹرین بنا رہے ہوں گے اور پورا دھیان ملکی دفاعی پیداوار، فوجیوں کی پیشہ ورانہ تربیت اور دفاعی ایکسر سائز پر مرکوز کر رہے ہوں گے تو ہماری فوج ملک میں غیر عسکری سرگرمیوں یعنی غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد، سیاستدانوں کا کڑا احتساب، ان کے اندر مفاہمتی فضا پیدا کرنے، بین الصوبائی رابطوں کو بڑھانے، انرجی کے مسائل حل کرنے، پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو بہتر کرنے جیسی غیر پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں پھنسی رہے گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ مارشل لائوں سے نہ صرف ملک کا عدالتی نظام تباہ ہوتا ہے بلکہ میڈیا کی اس آزادی کا بھی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جو اُن کو آجکل حاصل ہے۔ ہاں مارشل لا سے وہ لاوارث سیاستدان ضرور فائدہ اٹھاتے ہیں جن کو کوئی جماعت اپنی صفوں میں شامل کرنے پر تیار نہیں ہوتی اور وہ اگر پارٹی ٹکٹ کے بغیر الیکشن لڑیں تو ان کی ضمانتیں ضبط ہو جاتی ہیں، فوجی حکومت محبوراً اپنی سیاسی ساکھ بنانے کیلئے اُن کی جھولی میں اقتدار کا ٹکڑا ڈالتی ہے، اس طرح فوراً سپر کیولیگ سامنے آ جاتی ہے اس لئے کہ کسی بھی مارشل میں کور کمانڈرز تو مجلس شوریٰ یا کابینہ کے ممبرز نہیں ہوتے۔ دراصل اگر ملک کا سپہ سالار ہی ملک کا صدر یا وزیراعظم بن جائے تو پھر یہ لاوارث سیاستدان ہی آرمی چیف کے حقیقی کور کمانڈر بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لال مسجد، بگٹی کے قتل اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے سلسلے میں جنرل مشرف بار بار انہی سیاستدانوں کا نام لیتے ہیں جو اُن کے ارد گرد موجود تھے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ سیاستدان جنرل پرویز مشرف صاحب کے اچھے اقدامات کو اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے دور میں ڈالر کی قیمت 60 روپے تھی اور سٹاک مارکیٹ اتنی اوپر گئی۔ ۔۔لیکن جب اُن سے لال مسجد، بگٹی قتل کیس یا ججوں کی حراست کی بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے ذمہ دار تو جنرل صاحب خود ہی تھے یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو تُھو۔

قارئین اس موقع پر اگر ہم نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ فوجی قیادت اور خصوصاً جنرل راحیل شریف کے ذہن میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ فوجی مداخلت قومی سلامتی کے منافی قدم ہو گا، قوم بٹ جائے گی، اس سے فوج کے موجودہ عالیشان وقار کو دھچکہ لگے گا، اس لئے موجودہ دہشت گردی کے اندرونی اور خطے کی طاقتوں کی طرف سے بیرونی خطرات کے منڈلاتے بادلوں کے سائے میں فوج اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فوج یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ سیاسی جماعتیں بامقصد مذاکرات سے معاملات حل کریں اس سے فوج کی آمد کے بیتابی سے منتظر سیاسی عاقبت نااندیش پریشان ہوئے اور مذاکرات پر آمادہ بھی۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے -1 فوج چونکہ حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے اس لئے وہ طاقت کا استعمال یا فریقین میں ثالثی کا کردار ملکی مفاد میں صرف حکومت کی مشاورت اور اجازت سے ہی کرے گی -2 مظاہرین پورے پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتے، اُن کے قائدین وزیراعظم کے استعفے کی بجائے بنیادی اصلاحات منوانے پر زور دیں چونکہ ہجوم کے دبائو کے تحت اگر ملکی قیادت کی تبدیلی کا رواج پڑ گیا تو مستقبل میں کوئی بھی اقتدار کے ایوانوں میں نہیں ٹک سکے گا اور اس تباہی کا سارا بوجھ ریاست پر پڑے گا، دھرنا ختم کر کے بہت سے لوگ گھروں کو واپس چلے گئے ہیں باقی بھی ملکی مفاد میں ایسا ہی کریں۔ عمران خان کی جماعت اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہو اور خیبر پی کے حکومت کے خلاف عدم اعتماد بھی روک لی جائے -3 سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر ہے۔ وزیراعظم غیر آئینی طور پر کسی دبائو میں استعفے بالکل نہ دیں، اپنی پارٹی کی صفوں اور حکومت میں اتحادیوں کے علاوہ حزب اختلاف کے ساتھ تعلقات کو جمہوری انداز میں مضبوط کریں لیکن اس موقع پر طاہر القادری صاحب اور عمران خان کے سارے جائز مطالبات پر حکومت سنجیدگی سے اپنے سیاسی ہم خیالوں سے صلاح کر کے غور کرے تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ اُن کی دو ہفتوں کی ساری جدوجہد رائیگاں گئی ہے۔

حکومت یہ بھی ضرور ذہن میں رکھے کہ لوگ موجودہ نظام جمہوریت سے مطمئن نہیں اس لئے آئین میں تبدیلی کر کے صدارتی نظام کی طرف آنا ضروری ہے جس میں امریکہ کی طرح صرف پیشہ ور ماہرین کابینہ میں شامل ہو سکیں اور ماسٹر ڈگری ہولڈرز منتخب ارکان اسمبلیوں میں قانون سازی کریں اس سے قوم کی اُن لوگوں سے جان چھوٹ جائے گی جو سیاست کو تجارت سمجھتے ہیں۔ تمام اہم اداروں میں تعیناتیاں ایک آزاد قومی ادارہ کرے جس میں کوئی سیاسی مداخلت نہ ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے افواج پاکستان میں تعیناتیاں اور ترقیاں ہوتی ہیں۔ تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات ہوں اور چھ ماہ میں زرعی اصلاحات نافذ ہوں۔ الیکشن کمشن کی طرح احتساب کمشن بھی مکمل آزاد ہونا چاہئے اور کرپشن میں ملوث افراد کی سیاست کرنے پر تاحیات پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
 

LT GEN (R) ABDUL QAYYUM
About the Author: LT GEN (R) ABDUL QAYYUM Read More Articles by LT GEN (R) ABDUL QAYYUM: 3 Articles with 2230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.