9/11 سے داعش تک

11 ستمبر 2001 کو امریکا میں 4 فضائی حملے ہوئے ۔ ان میں سے دو حملےنیو یارک کی بلند وبالا عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہوئے ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 2974 لوگ ہلاک ہوئے ۔ یہ سانحہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے ۔ امریکا نے ان حملوں کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرایا ۔

9/11 کے حادثات نے امریکا کو پورے عالم میں اپنی بالادستی قائم کرنے کا جواز فراہم کیا ۔ امریکا نے "وار آن ٹیرر" کی ابتدا کردی ۔ اس وقت صدر جاج بش کے غیض و غضب سے بھر پور آراء نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ جارج بش ایک موقع پر یہ بھی کہہ بیٹھے کہ جو ملک امریکی پالیسیوں کو سپورٹ نہیں کرے گا ، اس کے ساتھ امریکا اپنے دشمنوں جیسا سلوک کرے گا ۔ جارج بش کے اس طرح کے سخت احکامات کے سامنے سارے ملک دم بہ خود ہوگئے ۔ اس طرح جو ملک امریکا کی وار آن ٹیرر کے خلاف تھے ، وہ بھی اس کے حامی بن گئے ۔ 9/11 کے بعد دنیا کا جو ملک سب سے پہلے امریکی بربریت کا نشان بنا ، وہ افغانستان تھا ۔ افغانستان میں اس وقت طالبان کی حکومت تھی ۔ اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن بھی افغانستان میں تھے ۔ امریکا اور برطانیہ نے افغانستان کی طالبان حکومت کو اسامہ کو حوالے کرنے کا کہا ۔ طالبان نہیں مانے ۔ بالآخر 7 اکتوبر 2001 کو وہاں بم باری شروع کر دی گئی ۔ امریکا کو افغانستان میں اسامہ تو نہیں مل سکا ۔ البتہ افغانستان کو تہس نہس کرنے کا موقع ضرور مل گیا ۔ ایک معتبر ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں امریکا نے اکیس ہزار عام شہریوں کو شہید کر دیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا "وار آن ٹیرر " کے نام پر افغانستان میں شروع کی جانے والی جنگ میں مکمل طور پر کام یاب ہو چکا ہے؟ کیا اب افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات ٹل گئے ہیں ؟کیا امریکا کے جانے کے بعد یہ ملک مکمل طور پر پر امن ہو جائے گا؟ اگر ان سب سوالات کا جواب "نہیں " ہے ، تو میں امریکا کی اس نام نہاد "وار ان ٹیرر کو کیا نام دوں، جس میں میرے ملک کے پچاس ہزار لوگ جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ؟

امریکا نے افغانستان پر حملے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اس نے عراق کو بھی خون میں نہلا دیا ۔ عراق پر حملے کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ اس کے پاس خطرناک ہتھیا ر ہیں ۔ حالاں کہ ہینس بلکس نے ، جو اس وقت اقوام ِ متحدہ کے ویپن انسپکٹر تھے ، 14 فروری 2003 کو اقوام ِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں عراق میں "مطلوب" ہتھیاروں کے نہ ہونے کا اعتراف کر دیا تھا ، اس کے باوجود امریکا اور برطانیہ اپنے غرور کے ساتھ 20 مارچ 2003 کو عراق پر چڑھ دوڑا اور اس وقت تک بس نہیں کیا ، جب تک عراق کو مکمل طور پر تہس نہس نہیں کر دیا ۔نیشنل جغرافیہ کے ایک سروے کے مطابق ، جو اس ادارے نے 2003 میں کیا تھا ، عراق میں 2003 سے 2011 تک رہنے والی جنگ میں پانچ لاکھ لوگ شہید ہوئے ۔ وائس آف امریکا کے مطابق اس جنگ میں 4500 امریکی ہلاک ہوئے ۔

اب جب کہ 2014 ہے ، بہت کچھ بدل گیا ہے ۔ امریکا عراق سے نکل چکا ہے ۔ افغانستان سے جانے والا ہے ۔لیکن سوال وہی کہ کیا امریکا کام یاب ہو چکا؟ اس کا جواب بلا شبہ " نہیں " ہے ۔ اگر امریکا کی نام نہاد "وار آن ٹیرر" کا نقصان صرف اسی کو ہوتا تو آج شاید میں کچھ اور لکھ رہا ہوتا ۔ لیکن کیا کروں کہ امریکا کی اس جنگ نے پوری مسلم کمیونٹی پرانتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس وقت مسلم دنیا کا بڑا حصہ دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے خطرناک مسائل کا شکا ہے ۔ جس میں بالواسطہ امریکا کا ہاتھ ہے ۔

امریکا نے جب یہ نام نہاد جنگ شروع کی تھی ، اس وقت اسے لگ رہا تھا کہ وہ پوری مسلم دنیا سے مزاحمتی تنظیموں کو ختم کر دے گا۔ یوں اس کے تسلط کے خلاف کوئی بولنے والانہیں ہو گا ۔ اور وہ بغیر کسی مزاحمت کے خصو صا پوری مسلم دنیا پر اور عموما پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لے گا ۔ لیکن 2014 کے واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ امریکا کی بھول تھی ۔ شاید امریکی تاریخ کی سب سے بڑی بھول تھی ۔ القاعدہ بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ،اور اس کے بطن سے اس جیسی کئی دیگر تنظیمیں جنم لے چکی ہیں ۔ جن میں سر ِ فہرست "داعش" ہے ۔ اس تنظیم نے جس تیزی سے شہرت حاصل کی ہے ، اس پر امریکا خود بھی حیران ہے ۔ پچھلے دنوں اس تنظیم نے جیمز فولی (ایک امریکی صحافی) کی زبح ہونے کی ویڈیو جاری کی ، جس پر امریکا بھی ششدر ہے ۔ اس ویڈیو سے اس تنظیم کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا ۔ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ جیمز فولی کی گردن اڑنے والا اگر چہ داعش سے وابستہ ہے ، لیکن اس کا تعلق برطانیہ سے ہے ۔

9/11 سے داعش تک کا سفر ، خاک و خون سے لتھڑا ہو ا۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ کئی لوگ اس سفر میں جانیں گنوا بیٹھے ۔ مگر اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ اب دنیا پہلے سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہو چکی ہے ۔ نہ جانے کیا ہوگا !!
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 146082 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More