آیا جب یاد بالاچ مری تو آنکھیں چھلک پڑیں

شہید وطن کو ہم سے بچھڑے ہوئے دو سال ہونے کو ہیں لیکن وہ ہستی جو ہمیشہ دلوں پر راج کرتا تھا- وہ آج ہر دل میں زندہ ہے وہ آج بھی اسی طرح قریب ہے جس طرح ہر لمحہ وہ ہمارے ساتھ رہے- آج دھرتی ماں کی ہر چٹان بالاچ کے غم میں غمزدہ ہے-دھرتی ماں کی ہر وادی انہیں یاد کررہی ہے- سرزمین بلوچستان کا ہر صحرا آج بالاچ کی یادوں میں بے تاب ہے- آج ہر اس زرہ زمین میں بلوچ رہائش پزیر ہیں وہاں بالاچ زندہ و تابندہ ہے- سرزمین بلوچ پر ہر اگنے والی گھاس، درخت، ندی وادی بالاچ مری کو یاد کرتے وقت یقیناً اداس و مرجھائے ہوئے ہونگے بلوچ دھرتی کی ہر بدلنے والی موسم ہر آنے والی طارش شہید بالاچ کی یاد میں خاموشی سے برستے اور آتے ہیں بلوچ سرزمین پر آنے والی آندھی آخری آندھی ہے جو میر بالاچ کی شہادت کے دن آیا تھا-

مادر وطن بلوچستان کا ہر دریا آج بالاچ کی یاد میں چند لمحہ ضرور خاموش ہوگا غموں نے ان بادلوں کو بھی آگھیرا ہے جو ہمیشہ شہداء کی دھرتی پر برستی تھیں۔ آج وہ حسین بادل تو یکسر غائب ہیں یا غمگین ہیں جو بالاچ کے حیات (زندگی) میں بلوچستان کی خوبصورت فضا میں چھائے ہوئے تھے- آسمان کے ستارے یقیناً ان جیسے چہروں کو ڈھونڈتے ہونگے جو چاند کی چاندنی اور ستاروں کی روشنی کو سہارا سمجھ کر بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں میں ٹہلتا اور آزادی کا خواب لیے پہاڑی دروں کا سفر کرتا تھا- سرزمین کا ہر وہ کوہ چٹان آج بھی خاموش ہیں جہاں سے شہید انقلاب کا گزر ہوا تھا- وہ اس امید میں ہیں کہ کب میر بالاچ مری کا گزر وہاں سے ہوگا- بلوچ سرزمین کا ہر سرد و گرم موسم میر بالاچ مری کے یاد میں ماتم کدہ ہے غموں سے چور بلوچ سرزمین کا ہر حصہ شہید انقلاب کی جدائی میں اشکبار ہے آج یقیناً بلوچ دھرتی کا ہر وہ پتھر اس افسوس اور غم میں ڈوبا ہوا ہے کہ جس کے لگنے سے شہید بالاچ کے پاؤں میں چھالے پڑگئے تھے-

آج بلوچ دیس کا ہر وہ چشمہ اس اندوہناک غم میں ہے کہ جب شہید بالاچ نے اس چشمے سے دو گھونٹ پانی کی امید لیکر قدم رکھا مگر اس وقت وہ چشمہ خشک تھا- آج وہی چشمہ، پانی اپنی بدقسمتی پر ماتم کررہا ہوگا آج بلوچ دھرتی کی وہ پہاڑی چوٹی اس غم سے نڈھال ہے جس نے شہید انقلاب کو گزرنے کا راستہ نہ دیا ہو جس پر شہید بالاچ نے یہ امید باندھی کہ شاید اس پتھریلی چٹان پر گزرنے کا راستہ ہو- آج وہ نوحہ کناں ہیں غموں سے بے حال بلوچ دھرتی کے وہ درخت آج رو رہے ہونگے جنہوں نے میر بالاچ کو چند منٹ کی خاطر تپتی دھوپ میں سایہ نہیں بخشا لیکن آج وہ ہمیشہ ہمیشہ اس گھمبیر غم میں ہر لمحہ نڈھال ہیں-بلوچستان کا ہر زرہ زمین اپنی بدقسمتی پر آہ و بکا کررہی ہے جنہیں شہید بالاچ کا دیدار نصیب نہیں ہوا شہید بالاچ کے غم نے صرف بلوچ دھرتی کو نہیں گھیرا بلکہ ہر اس شخص کو بھی گھیر لیا جس نے شہید بالاچ کو نہیں دیکھا- آج ان ساتھیوں کے غموں سے کون واقف ہے جنہوں نے ہر لمحہ شہید بالاچ کے ساتھ گزارا اور جدائی کے وقت بن کہے بالاچ بچھڑ گیا آج وہ صرف بالاچ کی برسی پر نہیں بلکہ زندگی کے ہر منٹ ہر لمحہ ہر گھنٹہ حتٰی کہ زندگی بھر خون کے آنسو رو رہے ہیں-ان ساتھیوں کو یقیناً یہ غم نہیں کہ بالاچ شہید ہوا انہیں اگر غم ہے توصرف اس بات کا کہ بالاچ ہم سے بچھڑ گیا اور بالاچ کے بچھڑنے کا وقت یہ نہیں تھا کیونکہ بالاچ کو بلوچ دشمنوں کو شکست دینا تھا مگر بالاچ بچھڑ گیا اس طرح کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی- بالاچ کی بہادری پر تو سب فخر کرتے ہیں لیکن کاش کے جو خواب بالاچ انکھوں میں لیئے صبح و شام سرزمین بلوچ کے پہاڑوں، دروں میں گزرتا رہا اس کی تعبیر اگر بالاچ نے اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہوتا تو خوب ہوتی مگر افسوس ہے کہ خواب کی تعبیر اب تک نہیں ہوئی- بالاچ کے ساتھیوں اور باضمیر بلوچوں کو یہ افسوس ضرور ہے کہ بالاچ بچھڑتے وقت سب کے ساتھ جاتا تو خوب ہوتا مگر بالاچ نے سب کو غموں کے اندھیرے میں دھکیل دیا اور خود دھرتی ماں کی آغوش میں ہے آج ہر بلوچ باضمیر بالاچ کی جدائی میں غمگین ہے- وہ صبح و شام بالاچ کی یاد میں سو مرتبہ مرکر زندہ ہوتے ہیں آج جو بلوچ زندانوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں وہ بھی اپنے جسم جو زخموں سے چور ہیں ٹارچر زدہ لاغر جسموں کے درد کو بھلا کر بالاچ کو یاد کرکے زندہ ہوتے ہیں میں اس امید کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان ماؤں اور بہنوں اپنے باپ، بچے، بھائی بالاچ مری کو ہرگز نہیں بھلا سکتے- غموں نے ان بھائیوں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھیر لیا جو بالاچ کی شہادت سے قبل اپنے بھائیوں کی شہادت و بازیابی کی خاطر احتجاج کرتے رہے مگر آج وہ بلوچ گھبرو بالاچ کی یاد اور غم میں متحد ہوکر دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونے جارہے ہیں-

یہ حقیت ہے کہ بالاچ کی شہادت سے بلوچ نے ایک محاذ مار لیا اور آجوئی (آزادی ) کی جنگ آج بھی جاری ہے- آج ہر اس ماں کا بیٹا بالاچ ہے جس میں زرہ برابر بلوچی جذبہ شامل ہو- آج ہر بہن اپنے بھائی سے امید رکھتی ہے جس میں زرا سا ضمیر ہو وہ بالاچ بن کر ابھرے گا ہر باپ کی یہی خواہش ہوگی کہ وہ بالاچ جیسا غیرت مند جوان پالے- آج ہر دوسرا بلوچ بالاچ ہے جس نے خود کو دھرتی بلوچستان کی خاطر وقف کردیا- آج اگر نواب مری کے گھر سے ایک بالاچ گیا تو غم نہیں کیونکہ دھرتی کی خاطر قربانی دینے والا ہر وہ جوان ایک بالاچ ہے جو خود کو دھرتی ماں کی خاطر قربان کرنے پر تیار ہو-

ہر وہ نوجوان سردار مری کیلئے ایک بالاچ ہے جو اپنا قیمتی لہو دھرتی کی خاطر بہا دے- آج بالاچ نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا شاید ساتھ دینا بالاچ کے بس میں نہیں رہا- بالاچ نے پہاڑی کو اپنے خون سے رنگ کر بلوچ قوم کو یہ باور کرایا کہ دھرتی کی خاطر اور قومی غلامی سے نجات اور قومی آزادی کی خاطر سر کی کوئی قیمت نہیں ہے کیونکہ سر جتنا بھی قیمتی کیوں نہ ہو وہ عزت سے زیادہ نہیں ہے- بالاچ اس طویل ریاستی غلامی سے واقف تھا- بالاچ یقیناً دوران جہد آجوئی میں سرزمین بلوچ پر شہادت پانے والے ان معصوم بچوں کے لاشوں کو کندھا دیا ہوگا جو ریاستی فضائی و زمینی بمباری میں مارے گئے بالاچ نے طویل غلامی کو شکست دے کر منزل آجوئی میں قدم رکھا- اور ثابت کردیا کہ قربانی کیلئے ( سرزمین بلوچستان کی خاطر ) نواب، سردار، چرواہا، ڈاکٹر و دیگر ہر طبقہ فکر کے لوگ برابر ہیں- بالاچ زندگی آسائشوں کو دیکھ چکے ہیں- بالاچ نے موجودہ بلوچ اور دنیا کے آرام پسند لوگوں سے زیادہ آرام پسندی کو دیکھ لیا- بالاچ نے روس کی کھلی فضاؤں میں زندگی گزارا- لندن و دبئی سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی سیر بھی کی- بالاچ نے ایسے علاقوں میں بھی قیام کیا جہاں بلوچی زبان نہیں بولی جاتی تھی مگر واپس بلوچستان آکر بالاچ نے ثابت کردیا کہ انسان دنیا میں جہاں بھی رہے قومی رسم و ثقافت رواج اور زبان کو نہیں بھولنا چاہیے-

بالاچ مری نے ان لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جو پاکستانی عقوبت خانوں سے نکل کر معزور ہوچکے تھے- بالاچ نے اپنی آنکھوں سےان بلوچ ماؤں و بہنوں کو دیکھ لیا جو بمباری کی زد میں آئے- بالاچ مری ان سب کچھ کو اپنے اوپر سمجھ کر خود کو احساس کرایا کہ وہ (بالاچ ) غلام ہے- بالاچ نے بلوچ سرمچاروں کے ساتھ غلامی سے نجات کی جنگ میں حصہ لینا شروع کیا- بالاچ ان ریاستی طاقت سے بھی آشنا تھا مگر بالاچ کے ضمیر نے غلامی قبول نہیں کی- تب جاکر جنگ لڑ کر جام شہادت نوش فرمائی- عہد کریں کہ ہر بلوچ بالاچ بن کر دشمن کو منہ توڑ جواب دے گا تاکہ پاکستانی غلامی سے نجات ممکن ہو ورنہ غلامی مقدر بن جائے گی- جدوجہد آخری فتح تک جاری رہے گی-
Meerak Baloch
About the Author: Meerak Baloch Read More Articles by Meerak Baloch: 13 Articles with 13596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.