اسلام آباد دودھرنوں کی زد میں

اسلام آباد دو دھرنوں کی زد میں آیا ہوا ہے، حکومت کی نااہلی اور کیا ہوگی کہ وہ اس مسلئے کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکال سکی ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری شاید آج اسلام آباد میں نہ ہوتےاورنہ ہی نواز شریف کی مرکزی حکومت اور شہباز شریف کی صوبہ پنجاب کی حکومت کے خاتمے کے اعلانات کرتے اگر وزیراعظم کی کرسی پر تیسری بار بیٹھنے والے نوازشریف تلخ تجربات کے بعدحکومت چلانا سیکھ لیتےلیکن وہ تو الٹا اپنی حکوت گرانا خوب سیکھ چکے ہیں اور صرف ڈیڑھ سال سے بھی کم مدت میں ان کی حکومت دو دو دن کے نوٹس پر ختم کرنے کی کوششیں رنگ لاتی دکھائی دے رہی ہیں،حکومت کی جانب سے ان احتجاج سے نمٹنے کے لیئے گذشتہ دو ماہ میں کچھ نہیں کیا گیا یا یوں کہہ لیں کہ پرواہ ہی نہیں کی۔نواز شریف کی غیر ذمیداری کا یہ حال ہے سیاسی مسائل کو حل کرنے کے بجائے پندرہ دن عمرہ اور مری کی سیر میں لگادیے، اس درمیان میں دارلحکومت میں آئین کی دفعہ دوسوپینتالیس کے ذریعے فوج کو تعینات کردیا گیا، اگر کچھ کوشش کی جاتی تو عمران خان اور طاہر القادری سے کچھ لو اور کچھ دوکےدرمیانی راستے پر سیاسی معاملات طے ہوجاتے اور یہ جو آج پاکستان کو بدنام کرنے پر عمران خان اور طاہر القادری پیش پیش ہیں اس میں نواز شریف کا حصہ بھی برابر کا ہے۔عمران خان تو الیکشن کے بعد سے ہی یہ مطالبہ کررہے تھے کہ چار سیٹوں کوچیک کرلیا جائےلیکن سعودی بادشاہت کے سائے تلے سات سال سعودی عرب میں گذارنے والے نواز شریف 2013ء کے الیکشن کے بعد ملک کےوزیراعظم کم نام نہاد بادشاہ زیادہ بن گے۔ جس کا واضع ثبوت اُنکی قومی اسمبلی اور سینٹ سے عدم دلچسپی ہے۔ غیر ملکی دوروں کی بھرمار، ہربڑی دہشت گردی کے وقت عام طور پر نواز شریف کسی غیر ملکی دورئے پر ہوتے تھے۔ابھی عمران خان کے مطالبات چل رہے تھےکہ کنیڈا سے طاہر القادری نے اپنے دس نکات اور انقلاب کا نعرہ لگادیا اور 19 جون کو اپنی پاکستان آمد کا اعلان کردیا۔ 17 جون کو پنجاب حکومت ادارہ منہاج القران کے مرکز ماڈل ٹاون لاہور پر چڑ ھ دوڑی، رات ڈیڑھ بجے سے اگلے بارہ تیرہ گھنٹے گھمسان کا رن پڑا اور نتیجہ میں چودہ لاشیں ملیں جن میں دو خواتین بھی تھیں۔ روزانہ صبح ساڑے پانچ بجے اٹھنے والے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے بقول اُنہیں تو پتہ ہی نہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا، اُنکی یہ بات ناقابل اعتبار ہے۔ پاکستان کے سیاستدان لاشوں کے اوپر سیاست کرتے ہیں یہ لاشوں کے سوداگر ہیں،مرئے بیچارے تقلید کے مارے مریدین۔ فاہدہ کس کا ہوا؟ سیدھا سیدھا طاہرالقادری کا۔ چودہ لاشیں کم نہیں ہوتی سیاست چمکانے کے لیے۔ 19جون کو طاہر القادری کو اسلام آباد کی جگہ لاہور اترا گیا۔

اگست کے شروع میں سیاسی حدت بڑھ گی جسکی ذمیدار حکومت ہے جس نے ماڈل ٹاون میں ادارہ منہاج القران کو کنٹینرلگاکرچاروں طرف سے بندکردیا ۔ پاکستان تحریک انصاف نےآزادی مارچ اورپاکستان عوامی تحریک نے انقلاب مارچ کے نام سے 14 اگست کو لاہور سے اسلام آبادکا سفر کیا۔ اس وقت صورتحال یہ کہ دونوں مارچ دو دھرنوں کی شکل میں قومی اسمبلی کے سامنے ریڈ زون میں موجود ہیں۔ عمران خان کے انتخابی نظام پر اعتراضات بالکل بجا ہیں اور جن خامیوں کی وہ نشاندہی کرتے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں، مگر عمران خان کے پاس ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کوئی پروگرام نظر نہیں آتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُنکے مطالبات بڑھتے چلے گے اور اب عمران خان نے چھ مطالبات کیے ہیں جس میں پہلا مطالبہ نواز شریف کا وزیراعظم کے منصب سے استعفی ہے، دوسری طرف طاہرالقادری اپنے دس نکات کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ نہیں بتاتے کہ وہ اس دس نکاتی ایجنڈئے کو کیسے نافظ کرینگے، کیا وہ حکومت پر قبضہ کرینگے یا کوئی اور طریقہ ہے۔ دوسری طرف وہ اس پورئے نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ ماڈل ٹاون میں قتل ہونے والے افراد کے قتل کا مقدمہ 21 افراد کےخلاف درج کرانا چاہتے ہیں جن میں نواز شریف اور شہباز شریف سرفہرست ہیں۔ نواز شریف اور انکی حکومت کو یہ تمام مطالبے منظور نہیں ہیں جسکی وجہ سے عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ حکومت پر دباوُ بڑھا دیا ہے۔ ان دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے، عمران خان نے دھرنوں کو دوسرئے شہروں میں بھی پھیلا دیا ہے جس میں کراچی اور لاہور بھی شامل ہیں جبکہ کراچی کو ملک کا معاشی حب بھی کہا جاتا ہے۔

عمران خان اپنے مطالبات پر بہت سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں جبکہ ایک اچھا سیاستدان ایسا بے لچک رویہ کبھی بھی اختیار نہیں کرتا۔ عمران خان کو اپنے مطالبات میں کامیابی ہو یا ناکامی ہر دو صورتوں میں عمران خان کے لئے سیاسی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ عمران خان کے مطالبات کی منظوری اور ان پر عمل درآمد کی بنیاد پر ہوگا۔ ایک بات جو عمران خان کو نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر وہ اس نظام کو نہیں چلنے دینگے تو کل اگر وہ وزیر اعظم بن گے تو دوسرے بھی اُنکو آرام سے نہیں رہنے دینگے۔ عمران خان کو یہ بھی یاد رہے کہ دھرنے اور احتجاج کے زریعے وزیر اعظم کو ہٹانے اورملکی نظام کو غیر فعال کردینا کسی بھی طرح آئینی اور قانونی طریقہ نہیں۔ اگر نوازشریف خود استعفیٰ دینا چاہئں اور موجود اسمبلی ختم کر دینا چاہئے تو پھر یہ صیح آئینی اور قانونی طریقہ ہوگا۔ آئین میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ وزیر اعظم صدر پاکستان سے درخواست کرے کہ اسمبلی تحلیل کر دی جائے تو صدر اس بات کا پابند ہے کہ وہ اسبملی تحلیل کر دے۔عمران خان کا سارا جھگڑا انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سےہے لیکن یہ بات تو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے 11مئی 2013ء کو ہی کہہ دی تھی مگر ان انتخابات میں ایک اور دھاندلی بھی ہوئی جو شاید عمران خان کے نزدیک دھاندلی نہ ہو اور عمران خان نے کبھی غلطی سے یا اخلاقی طور پر اس کا ذکر نہیں کیا۔2013ء کے انتخابات سے قبل طالبان کی دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، طالبان دہشتگردوں نے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو یہ دھمکی دی تھی کہ وہ الیکشن کی مہم نہ چلایں ورنہ اُن پر حملہ ہوگا اور ایسا ہوا بھی ، اُن جماعتوں میں تین بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور اے این پی شامل تھیں،طالبان نے اپنی دھمکیوں پر عمل بھی کیاتو ان سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم بند کردی۔ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام کے دونوں گروپ ف اور س کو انتخابی مہم چلانے کی کھلی چھٹی تھی کیونکہ عمران خان ، نواز شریف، منور حسن، فضل الرحمان اور سمیع الحق یہ سب اور اُنکی جماعتیں طالبان دہشت گردوں کے حامی تھے اور ہیں۔ لہذا نواز شریف، عمران خان، جماعت اسلامی اور فضل الرحمان کو جو سیٹیں ملی ہیں وہ سب کی سب دھاندلی کی مہربانی سے ملی ہیں، آپ سوال کرسکتے ہیں کہ کیسی دھاندلی؟ جواب یہ ہے کہ دھاندلی یہ تھی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو الیکشن سے پہلے اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے ریاست نے ایک جیسے مواقع فراہم نہیں کئے۔ مسلم لیگ ن ، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام تو بغیر کسی خوف کے شہر شہر سیاسی جلسے کر رہے تھے مگر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو چھپ چھپ کر انتخابی مہم چلانی پڑی۔تینوں جماعتوں کے جلسوں پر جان لیوا حملے بھی ہوئے لیکن نواز شریف یا عمران خان کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی اسکی مذمت کرتے، مذمت کرتے تو اتنی سیٹیں نہ ملتیں۔ دھاندلی شدہ 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف کی کامیابی یقینا جعلی ہےتو پھر عمران خان کی قومی اسمبلی میں حاصل ہونے والی سیٹیں بھی دھاندلی کی پیداوار ہیں، اُنکی کےپی کے کی حکومت بھی جعلی ہے کیونکہ یہ سب دہشتگردوں کی مدد سے حاصل ہوا ہے۔ نواز شریف اورعمران خان کو یہ تو معلوم ہوگا جب دو مقابل پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کی ایک جیسی آزادی نہ ہو تو اسے بھی دھاندلی کہتے ہیں۔

اسلام آباد کے دھرنے میں شریک دوسرئے لیڈر طاہرالقادری اُس وقت کنیڈا میں تھے جب مئی 2013ء میں پاکستان میں انتخابات ہوئے، ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی اور ملک کے کڑوڑوں عوام دہشت گردوں کے سامنے بےبس تھے۔ آج طاہرالقادری نے جس انتخابی اصلاحات ، دس نکاتی ایجنڈئے اور انقلاب کی وجہ سے انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا ہےاُسکا صیح وقت جب تھا جب مئی 2013ء میں پاکستان میں انتخابات ہورہے تھے۔ عالمی میڈیا ان دھرنوں کی خبریں اور اُن پرتبصرئے نشر کررہا ہے ۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاج نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں زندگی معطل کردی ہے اور شہر کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔برطانوی اخبار گارجین، نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ حکومت سے پُر تشدد تصادم میں ہی اس احتجاج کا منطقی نتیجہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ آج اسلام آباد کے دھرنوں کے پہلے ذمیدار تو نام نہاد بادشاہ سلامت نواز شریف اور اُنکے نادان دوست یا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارہیں ، صرف چودہ ماہ بعد ہی عام لوگوں کا مسلم لیگ ن کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے جسکی وجہ نواز شریف اور شہباز شریف کی طرز حکمرانی ہے اور اسکی وجہ سے ہی آج عمران خان اور طاہرالقادری کو بڑی آسانی سے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ سے پہلے عوام کے سامنے جو وعدئے کیے اُنکو وہ توڑ چکے ہیں۔ پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہے، معاشی طور پر ملک بربادی کی طرف گامزن ہے۔ طاہرالقادری اور عمران خان کو چاہیے کہ اپنےسخت موقف موقف میں لچک پیدا کریں جبکہ حکومت جسقدر ممکن ہو ان دونوں کے مطالبات منظور کرئے۔ بقول عمران خان اللہ نے اُنکو سب کچھ دیا ہوا ہے ، یہ ہی حال طاہرالقادری کا ہے اور نواز شریف کو بھی کوئی کمی نہیں، لیکن اس ملک کے 60 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گذار رہے ہیں لہذا اس ملک پراور اس ملک کے غریب عوام پر آپ لوگ رحم فرمایں اور یہ جواسلام آباد دو دھرنوں کی زد میں ہے اسکو جلد از جلد ختم کریں۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 444828 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More