سیاسی انٹرویو

بہت دنوں سے جی چاہتا تھا کہ کسی بڑے سیاستدان کا انٹرویو کیا جائے لیکن شومئی قسمت کہ ایک تو ہم ملک میں موجود نہیں اور دوسرا ہماری اتنی اہمیت نہیں کہ پاکستانی سیاست کا کوئی بڑا وارداتیا ہمارے ساتھ بیٹھنے پر تیار ہو جائے، ارادہ تھا کہ محترمہ مریم نواز کا انٹرویو کیا جائے جنہیں بھارتی تاجر اور دانشور روہت بنسال نے کچھ عرصہ پہلے بے نظیر کا ہم پلہ قرار دیا تھا جس پر ہم نے اپنی دانست میں’’ ہائے میں مر جاواں‘‘ جیسا شہرہٗ آفاق کالم بھی لکھا تھا۔ اب محترمہ کا انٹرویو کرنے میں مسئلہ زمان و مکان کا تھا جسکا حل ڈاکٹر طاہرالقادری کے مشہور زمانہ نظریہ ’’عالم رویا‘‘سے نکالا اور جاگتی آنکھوں سے عالم رویا میں محترمہ مریم نواز شریف کے ساتھ ایک نشست کی جسکا متن من و عن آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
ہم: محترمہ آپ کیسی ہیں اور کپتان صاحب کے کیا حال ہیں؟
مریم:(ایک دم غصے سے) خبردار اگر کپتان کا ذکر بھی کیا تو دھکے دے کر باہر نکلوا دوں گی، دیکھ نہیں رہے اس نے کس طرح ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
ہم: لاہور بیکری والا واقعہ یاد تھا اس لئے ڈرتے ہوئے کہا جی ہم تو کپتان یعنی کپتان صفدر صاحب کی بات کر رہے تھے،
مریم: اوہ آئی ایم سوری یہ کپتان ایسا ہمارے اعصاب پر سوار ہے کہ ہر کپتان مجھے عمران خان ہی لگتا ہے۔
ہم: چلیں کوئی بات نہیں ، یہ بتائیے کہ آپ نہایت نفیس خاتون ہیں پھر یہ سیاست جیسے گندے میدان کا انتخاب ہی کیوں کیا؟
مریم : (ہنتے ہوئے) آ پ نے جب نفیس خاتون کہا تو میں سمجھی کہ آپ صفدر سے شادی کی وجہ پوچھنے لگے ہیں، خیر اگر میں سیاست میں نہ آتی تو کیا کرتی؟
ہم: جی سنا ہے نمبر کم آنے کے باوجود کسی طریقے سے آپ کا داخلہ میڈیکل کالج میں کرا دیا گیا تھا تو آپ ڈاکٹر بن جاتی۔
مریم: ڈاکٹروں سے مجھے بڑی چڑ ہے دیکھ نہیں رہے پہلے ینگ ڈاکٹروں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا اور اب ڈاکٹر قادری نے ہمار گلا پکڑا ہواہے۔
ہم: لیکن قادری صاحب تو وہ والے ڈاکٹر نہیں ہیں۔
مریم: (برا سا منہ بناتے ہوئے) چھوڑیں جی ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہی ہوتا ہے کوئی سا والا بھی ہو۔
ہم: یہ بتاےئے آپ سیاست میں کس سے متاثر ہیں؟
مریم: ظاہر ہے ابو جی سے اور ان کے علاوہ کون ساسیاستدان ہے ملک میں۔
ہم: آپ اپنے والد کی طرز حکمرانی پر کیا کہیں گی؟
مریم: جی ہم جمہوری لوگ ہیں اور جمہوریت ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے اور جس طرح گزشتہ دور میں انہوں نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے زرداری صاحب کا ساتھ دیا ایسی مثال پوری جمہوری تاریخ میں نہیں ملتی۔
ہم: لیکن محترمہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں پورے کا پورا خاندان بمعہ رشتہ داران اقتدار کے جھولنے میں جھول رہا ہے؟
مریم: (نہایت عقیدت سے) اس پر تو آپ میاں صاحب کی اعلیٰ ظرفی کو داد دیں ، میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ کوئی شخص اتنا نرم دل بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت ملنے کے باوجود اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھے، آپ یورپ یا امریکہ میں کوئی ایک مثال لا دیں مجھے جہاں حکومت میں آنے کے بعد کسی نے اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھا ہو وہ تو اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں ، یہ صرف میاں صاحب کا ہی حوصلہ ہے۔
ہم: (چند لمحے تو اپنا سر پکڑ کر خاموش رہے، اور پھر اگلا سوال کیا) یہ بتائیے کہ آجکل ملک مختلف بحرانوں کا شکار ہے جس میں سر فہرست بجلی کا مسئلہ ہے، کیا کہیں گی آپ؟
مریم: (انتہائی مضبوط لہجے میں) دیکھیں جی قوموں کی زندگی میں بحران آتے رہتے ہیں، اگر کسی کو بجلی کا مسئلہ ہے توجنریٹر لگا لے شور کیوں مچاتے ہیں۔
ہم: دیکھیں کہا جاتا ہے کہ ایسی ہی بات ملکہ فرانس نے کی تھی کہ جن کو روٹی نہیں ملتی وہ کیک کھا لیں، اور پھر وہاں انقلاب فرانس نے جنم لیا تھا اور آپ بھی ایسی ہی بات کر رہی ہیں؟
مریم: (چیونگم چباتے ہوئے) انقلاب کو تو آپ بھول جائیں ، وہ صرف وہاں آتے ہیں جہاں قوم کی سوچ زندہ ہو، لوگ اپنے مسائل سے خود واقف ہوں، جہاں ضمیر کی آواز سنی جاتی ہو، جہاں لوگوں کا ذہن آزاد ہو، یہاں کیا انقلاب آئے گا جہاں تیس برس حکومت میں رہو اور ایک سڑک بنا دو لوگ آپ کو نجات دہندہ سمجھ کر بس آپ کے ہو جائیں،یہاں کے لوگ روٹی کے چکر سے نہیں نکل سکتے تو آپ انقلاب کی دھمکی دے رہے ہیں۔
ہم: یہ بتائیں کہ پی پی پی کے دوسرے دور میں چوبیس ہزار میگا واٹ کے بجلی کے منصوبے پر کام شروع ہوا تھا ، لیکن میاں صاحب نے آتے ہی وہ ختم کر دیا تھا، کیوں؟
مریم: ہمیں شک تھا کہ اس منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا کھیل کھیلا جائے گا اس لئے بند کر دیا تھا۔
ہم: موجودہ حکومت میں بھاشا ڈیم پر کام کیوں روک دیا ہے؟
مریم: یہ ٹیکنیکل معاملات ہیں آپ کو سمجھ نہیں آئیں گے اس لئے چھوڑیں اس بات کو۔
ہم: اچھا یہ بتائیں کہ لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار کون ہے؟
مریم: ظاہر ہے پیپلز پارٹی ہی ذمہ دار ہے ان کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔
ہم: لیکن انہوں نے تو چوبیس ہزار میگا واٹ کا منصوبہ بنایا تھا اور ختم میاں صاحب نے کیا تو پھر وہ لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار کیسے ہو گئے؟
مریم: (نہایت فلسفیانہ انداز میں) اگر وہ کرپشن فری منصوبہ بناتے تو ایسا نہ ہوتا۔
ہم: اگر اس میں آپ کے بقول کرپشن کے آثار تھے تو آپ اس کے تخمینے دوبارہ تیار کروا لیتے اور اس پر عمل تو کرتے؟
مریم: (اکتائے ہو لہجے میں) ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کہ لوگوں کی غلطیاں درست کرتے پھریں۔
ہم: اخباروں میں پڑھا ہے اور لوگوں سے سنا ہے کہ ہلہ ملک پلانٹ کو حمزہ شہباز نے ناکام کروایا ہے اور اس پر قبضہ کیا ہے تا کہ حمزہ کے ملک پلانٹ کا کاروبار چمک سکے، اس پر آپ کیا کہیں گی کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟
مریم: جی بلکل کرپشن ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے، اس پر تو چاچو نے سخت ایکشن لیا تھا اور ہلہ کے سربراہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو نہ صرف نوکری سے نکالا بلکہ جیل یاترا بھی کروائی تھی تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ ہو۔
ہم: (حیرت سے) ہیں جی۔۔۔۔۔۔۔
مریم : اس میں اتنی ’’ہیں جی‘‘ کی کیا بات ہے، آپ کو پتہ نہیں کہ چاچو سرکاری معاملات میں کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے۔
ہم: (انتہائی بے بسی سے) اس میں ظفر صاحب کا کیا قصور وہ تو ہلہ ملک پلانٹ کو بچانا چاہتے تھے اور ملک کے انتہائی نیک نام بیوروکریٹ ہیں۔
مریم: قصور انہیں کا ہے وہ ہلہ کے سربراہ تھے اگر ان کو پتہ تھا کہ حمزہ بھائی اس پلانٹ کی زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے عہدے سے الگ ہو جاتے۔
ہم : (گہری سانس لیتے ہوئے کہا) سبحان اللہ ،
مریم:( انتہائی فخر سے) میرے چاچو کی انصاف پسندی پر تو ان کے دشمن بھی سبحان اللہ کہتے ہیں آپ کیا ہیں؟
ہم: رواں سال سترہ جون کو لاہور میں چودہ لوگ مار دئے گئے جن کے قتل کا الزام بمعہ دیگر آپ کے چاچو پر لگ رہا ہے؟ کیا کہیں گی؟
مریم: (انتہائی غصے سے) یہ چودہ لوگ تو آپ کو نظر آتے ہیں وہ جو فرعون نے ستر ہزار معصوم قتل کروائے تھے اس پر تو کبھی آپ کی زبان نہیں کھلی۔۔
ہم: (حیرت سے کھلے منہ کے ساتھ) جی۔۔۔ اس میں فرعون کا کیا تعلق؟
مریم: بہت گہرا تعلق ہے کیا آپ نے سنا نہیں ڈاکٹر قادری بار بار چاچو کو فرعون کہتا ہے تو پہلے احتساب اس فرعون کا ہونا چاہئے ، اور ویسے بھی فرعون کا ذکر قادری صاحب نے شروع کیا ہے ، ہم تو اس کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔
ہم: آپ کے چاچو ہمیشہ خلافت راشدہ کی مثال دیتے ہیں،اس خلافت میں تو دریا کے کنارے مرنے والے کتے کا ذمہ بھی خلیفہ وقت نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے،
مریم: اس بات کا جواب انکل رانا ثناء اللہ دے چکے ہیں کہ دریا کے کنارے بیٹھے کتے کو بھی کچھ شرم کرنی چاہئے ۔
ہم: آپ کے والد گرامی ایک عرصہ تک وزیر، وزیر اعلیٰ ، وزیر اعظم اور چاچو وزیر اعلیٰ رہے ہیں ، ملک میں موجود بدامنی، بد انتظامی، لاقانونیت، کرپشن، اقربا پروری، بے روزگاری ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟
مریم: عمران خان کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے، جس کو دھرنوں کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں، نہ خود کچھ کرتا ہے نہ ہمیں کرنے دیتا ہے۔
ہم: میاں صاحب پوری دنیا کے سرماداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایاکاری کریں ، آپ اپنی دولت واپس پاکستان کیوں نہیں لاتے؟
مریم: (ہنستے ہوئے) پاگل نہیں ہیں ہم، حالات دیکھے ہیں یہاں ، یہ کوئی جگہ ہے سرمایا کاری کرنے کی۔
ہم: تو پھر آپ دوسرے سرمایاداروں کو ایسا کیوں کہتے ہیں۔
مریم: ہنستے ہوئے ، ہمارے کہنے سے کون سا کوئی آ گیا ہے۔۔
ہم: آپ نے عابد شیر علی کو ہی بجلی کا وزیر مملکت کیوں بنایا؟
مریم: ہاہاہا ۔۔ تو آپ بتائیں ، اس کو کہیں کوئی اور نوکری مل سکتی ہے؟
ہم: یہ بتائیں کہ آپ کی کیا قابلیت ہے جس کی بنیاد پر آپ کو اربوں روپے کے یوتھ پروگرام سربراہ مقرر کیا گیا ہے؟
مریم: (حیرت سے) کیا مطلب اب ملک کے وزیر اعظم کی لاڈلی بیٹی ہونا کوئی قابلیت ہی نہیں آپ کی نظر میں؟
ہم: نہیں وہ تو ہے، ہمارا مطلب تھا کہ کیا آپ کو مالی معاملات کی سوجھ بوجھ ہے جو آپ سو ارب روپے کا پرگرام چلا رہی ہیں۔
مریم: اس میں سوجھ بوجھ کی کیا ضرورت ہے پیسے خرچنے کے لئے بھی کوئی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے؟
ہم: لیکن آپ کی سربراہی کے حوالے سے سوال تو اٹھ سکتے ہیں نا؟
مریم: ڈار انکل نے میڈیا پر بتایا تو تھا کہ میں مالی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔تو پھر کیسا سوال؟
ہم: لیکن اس کے لئے تو کسی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ سے آڈٹ کروانا پڑے گا پھر بات بنے گی۔
مریم: ہنستے ہوئے، تو انکل ڈار کیا ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں چارٹرڈاکاؤنٹینٹ ہی ہیں وہ بھی۔
ہم: لوگ کہتے ہیں کہ میاں صاحب ترکی کے دورے پر ایک دن زیادہ صرف اس لئے رکے تھے کہ انہوں نے وہاں کے مشہور ریستوران میں کباب کھانے تھے؟
مریم: (ایکدم غصے سے) تو کیا اب وزیر اعظم ترکی جا کر کھانا بھی نہ کھائے، کمال کرتے ہیں آپ لوگ بھی۔
ہم: آپ کے چاچو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لوڈشیڈنگ بہت جلد ختم کر دیں گے؟
مریم: قہقہہ لگا کر۔ بہت سے وعدے تو حمزہ شہباز نے عائشہ احد کے ساتھ بھی کئے تھے آپ کن وعدوں کی بات کرتے ہیں (بڑے سادے او تسی وی)
ہم: آجکل ملک میں جو ہنگامہ ہے اس میں خدانخواستہ آپ کی حکومت چلی گئی تو؟
مریم: (آنکھوں میں آنسو) روہانسی آواز میں ، اللہ نہ کرے ، ہمیں تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔
ہم: اسحاق ڈار صاحب پر ہم کیا اعتبار کریں ، وہ تو جو بھی دعویٰ کرتے ہیں غلط نکلتا ہے، پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے۔
مریم: دیکھیں جی انسان خطا کا پتلا ہے ، ڈار انکل جتنی غلطیاں کرتے ہیں اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ وہ کتنے بڑے انسان ہیں۔
ہم: خواجہ آصف ابھی تک بجلی کے بحران کیلئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر سکے؟
مریم: (غصے سے) کمال ہے، اب بجلی کا بحران حل کرنا بھلا وزیر دفاع کا کام ہے۔
ہم: چلیں یہ بتائیں کہ جس کا دل کرتا ہے وہ دفاعی اداروں پر بہتان تراشی شروع کر دیتا ہے، خواجہ آصف نے کسی کے خلاف کوئی سخت تادیبی کاروائی کیوں نہیں کی؟
مریم: انتہائی اکتائے ہو ئے لہجے میں ، اب وزیر پانی و بجلی دفاعی معاملات میں کیسے مداخلت کر سکتا ہے آپ بتائیں؟
ہم: رانا مشہود اچھے خاصے انسان تھے اچانک کیا ہو گیا ہے کہ ان کا لہجہ رانا ثناء اللہ سے بھی سخت ہو گیا ہے؟
مریم: آپ بھی تو رانا ہیں کبھی ہماری لیگ جوائن کریں تو آپ بھی ایسے ہی ہو جائیں گے (پھر ہنستے ہنستے اپنی کرسی پر دہری ہو گئیں)
ہم: میاں صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جب وہ اور شہباز شریف بچے تھے تو مرحوم میاں شریف صاحب کی بند مٹھی سے پیسے نکال لیا کرتے تھے۔
مریم: (فخر سے) بند ہاتھوں سے پیسے نکالنے کی تربیت تو بچپن سے لے رکھی ہے۔
ہم: لوگ الزام لگاتے ہیں کہ میاں ساحب بادشاہ بنے ہوئے ہیں؟
مریم: اس میں الزام کی کیا بات ہے،ابو جی کوئی اکبر بادشاہ سے کم تو نہیں۔
ہم : (ندیم کھر ل کی طرح ہاتھ گھماکر) جی اکبر اعظم اور موجودہ وزیر اعظم میں کیا مماثلت؟اس کے پاس تو اپنے وقت کے بہترین عقلمند لوگ تھے، عبدالرحیم خان خاناں جیسے دانشور، بیربل جیسے جانثار، آپ کے پاس کون ہے؟
مریم: ہمارے پاس خان خاناں سے بھی بڑے دانشور ہیں ، آپ کبھی روزن دیوار سے جھانک کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے کس کس دانشور کے خیال پر میرے بابا کے نقش قائم ہیں، رہا بیربل جس نے موجودہ فاٹا کی قبائلی فوج پر حملہ کیا تھا اور اس میں اپنی جان قربان کی تھی، تو ہمارے بیربل سعد رفیق ہیں دیکھا نہیں کیسے فوج کو للکارتے رہتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ مروائیں گے ہمیں)
ہم: زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ اکبر کے پاس تو ملادوپیازہ جیسے خوشامدی بھی تھے۔
مریم: اب آپ مولانا فضل الرحمان کی طرف اشارہ نہ کریں ان کی اپنی الگ سیاسی جماعت ہے۔
ہم: لوگ کہتے ہیں میاں صاحب سری پائے مغز وغیرہ بڑے شوق سے کھاتے ہیں، جبکہ میاں صاحب نے بتایا تھا کہ ان کو مغز وغیرہ بلکل بھی پسند نہیں۔
مریم: (ہنستے ہوئے) انہوں نے ٹھیک کہا ہے، آپ خود سوچیں اگر وہ مغز کھاتے ہوں تو کیا ملکی حالات اتنے بگڑ سکتے ہیں۔
ہم: کیا میاں شہباز شریف بھی سری پائے نہیں کھاتے؟
مریم: جی بلکل وہ بھی پائے نہیں کھاتے (پھر ہنستے ہوئے) اسی لئے تو اپنی کہی ہوئی بات پر کھڑے نہیں رہ سکتے (ہم بھی مریم نواز کے ساتھ ملکر خوب ہنسے)۔
ہم: الزام ہے کہ میاں صاحب کسی سے مشاورت نہیں کرتے اور اپنا فیصلہ سب پر نافذ کر دیتے ہیں۔
مریم: ایسی بات نہیں ہم جمہوری لوگ ہیں سارے فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں، رات کو ڈنر پر ہم سب ملکر بات کرتے ہیں اور جس بات پر میں، بھائی، امی اور چاچو متفق ہوں وہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ہم: ہیں ۔۔ یہ کیسی مشاورت ہے،
مریم: بات کاٹتے ہوئے، ہماری مشاورت یہی ہے آپ کو پسند نہیں تو قادری صاحب کے ساتھ دھرنے میں بیٹھ جائیں۔
ہم : قادری صاحب سے یاد آیا ، وہ تو اپنی تقریروں میں موجودہ حکمرانوں کو یزید کہتے ہیں؟
مریم: (معصومیت سے) جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے۔
ہم: آپ کی حکومت نے کسی کو وزیر خارجہ کیوں نہیں بنایا۔
مریم: ہم دس سال جدہ میں رہے ، ہمارے لئے کسی نے خروج کیا جو ہم کسی کو وزیر خارجہ بنا دیں۔
ہم: تو پھر چوہدری نثار کو وزیر داخلہ کیوں بنایا؟
مریم: مشرف کے مارشل لاء لگاتے ہی وہ اپنے گھر میں گھس کر بیٹھ گئے اور مسلسل دس سال وہ گھر کے اندر ہی داخل رہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ داخلی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
ہم: نامور کالم نگار حسن نثار نے انگریزی کتاب دی ایچلز ہیل کا اردو ترجمہ کیا ہے اس میں تو آپ لوگوں کی کرپشن کے بڑے قصے ہیں۔
مریم: حسن نثار تو ویسے ہی ہمارا دشمن ہے، ہم نے وہ کتاب منگوا لی ہے اور قاسمی انکل اور عرفان انکل سے کہا ہے کہ وہ اس کتا ب کا درست اور صحیح ترجمہ کریں، جب وہ اس کتاب کا ترجمہ کر لیں گے تو پھر آپ وہ کتاب پڑھنا۔
ہم: موجودہ ابتری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
مریم: (افسردہ لہجے میں) کچھ لوگ ہیں جو ملک میں لیبیا، مصر، شام، عراق اور تیونس جیسے حالات بنانا چاہتے ہیں۔
ہم: لیکن ان ملکوں کے حالات خراب کرنے میں تو وہاں کے حکمران براہ راست ذمہ دار ہیں۔
مریم: ایسی بات نہیں ، یہ بین الاقوامی سیاست کے مسائل ہیں آپ نہیں سمجھ سکتے۔
ہم : تو آپ ہمیں سمجھائیں نہ؟
مریم: کہا تو ہے کہ آپ نہیں سمجھ سکتے پھر کیوں ضد کرتے ہیں۔
ہم: یہ بتائیں کہ فوج کے ساتھ حکومتی تعلقات کیسے ہیں؟
مریم: فوج سے ہم بڑی محبت کرتے ہیں کبھی آپ ہمارے گھر آئیں تو دیکھیں کہ ہمارے ہاں کیپٹن صفدر کی کتنی عزت ہے،
ہم: میاں صاحب کے علاوہ آپ کس سیاستدان کی عقل و دانش اور سیاسی فلسفے سے متاثر ہیں اور کس کو سب سے بڑا سیاستدان سمجھتی ہیں؟
مریم: میاں صاحب اور چاچو کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا اور ذہین سیاستدان تو راجہ ریاض ہیں اور سیاسی فلسفہ سب سے بہتر اسلم رئیسانی کا ہے۔
ہم: محترمہ مریم صاحبہ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دیا آپ سے بہت سی تلخ و شریں باتیں ہوئیں، اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک آخری لیکن انتہائی ذاتی نوعیت کا سوال کر لیں۔
مریم: جی جی پوچھیں جو پوچھنا ہے ہم سیاسی لوگ ہیں ہماری کوئی چیز ذاتی نہیں جو کچھ بھی آپ دیکھ رہے ہیں سب عوام کا ہی ہے (پتہ نہیں کیوں ہلکا سا مسکرا ئی بھی)
ہم: ویسے تو آپکی زندگی بڑی پرسکون ہے لیکن کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی بات پر کیپٹن صاحب سے ناراضی تو ہوتی ہو گی۔
مریم: جی ہاں یہ تو ہر گھر کی کہانی ہے، ہماری بھی ناراضی ہو جاتی ہے۔
ہم: تو ایسی صورت میں آپ کیپٹن صاحب کو کیا کہتی ہیں؟
مریم: (بند آنکھوں کے ساتھ) میرا دل ہے نازک شیشے سا ، اور تو ظالم گلو بٹ
 
Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 26743 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More