نظام حکومت بدل ڈالو!

جب سے پاکستان وجود میں آیا اسے سکون نصیب نہیں ہوا۔ مہاجرین کی آبادکاری، پیسوں سے خالی خزانہ، افواج بغیر اسلحہ کے، ملک کو آئین دینے کی ابتداء تو ہوئی کہ قراردادِ مقاصد پاس ہوگئی، مگر فرنگی اشاروں پر آئین نہ بن سکا۔ کشمیر پر ہندوؤں کا قبضہ ہوگیا۔ اسلامی ریاستوں پر ہندو کا قبضہ ، مسلمانوں کا قتل عام، کشمیر کی جنگ سخت ابتلاء کا دور تھا مگر گذر گیا۔سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں ایک مضبوط نظام حکومت کا قیام تھا جو بد قسمتی سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور آج ملک کے اند ر غیر یقینی صورت حال اسی کا نتیجہ ہے۔ مغربی جمہوریت جو مذہب و اخلاق سے عاری ہے ہم پر مسلط ہے۔ اسلام ہی جمہوریت کا علمبردار ہے۔ اسی جمہوریت میں ایک عام فرد سربراہ مملکت سے کسی معاملے پر بلاخوف و خطر بازپرس کرسکتا ہے اور اپنے شکوک و شبہات دور کرسکتا ہے۔ اسلامی جمہوریت میں فرد کو اسکے بنیادی حقوق حاصل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کوئی فرد اپنے آپ کو تنہا اور بے بیکس تصور نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسلامی ریاست کا سربراہ اور نظام حکومت اس کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔ بچہ پیدا ہوا تو اس کا وظیفہ جاری کردیا( یہ نظام سب سے پہلے سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ قائم فرمایا)اگر بے روزگار ہے تو روز گار ملنے تک بیت المال سے اسے خرچ ملے گا۔ کوئی کسی کا حق نہیں مار سکتا، کوئی کسی کا استحصال نہیں کرسکتا ۔ جان و مال کا خطرہ نہیں۔ کیونکہ جو کسی کی جان لے گا جان کے بدلے جان کا قانون نافذ ہوتا ہے۔ جب لوگوں کو ان کی ضروریات بلا تعطل میسر ہیں تو چوری، ڈاکہ اور ناجائز ذرائع سے دولت کا حصول باقی نہیں رہتا۔ نظام زکوۃ سے عوام کی غربت دور کیجاتی ہے۔ پہلی قوموں کی ہلاکتو ں کے بارے حضور ﷺ نے فرمایا کہ کمزوروں پر تو قانون لاگو کرتے تھے مگر امرا اور طاقتوروں پر قانون کا اطلاق نہ ہوتا تھا۔ عدل وانصاف کا نظام بھی بددیانتی کا شکار تھا جیسا کہ آج ہمارے ملک میں ہے۔ ملک میں قانون کے نفاذ کے لیئے قوت نافذہ پولیس ہے۔ پولیس کا یہ عالم ہے کہ اکثریت افسران اور اہلکاران سفارش یا رشوت پر بھرتی ہوئی ہے۔ یہ لوگ ساستدانوں کے گروپ ہیں۔ پولیس بلافریق مقدمات کے اندراج نہیں کرتی بلکہ اوپر کے احکامات کی تعمیل کرتی ہے۔ اس کی تازہ مثال لاہور ماڈل ٹاؤن میں نہتے دیندار مردوخواتین کا قتل عام ہے ۔ جن میں سے چودہ تو شہید ہوگئے اور سو کے قریب شدید زخمی ہوئے۔ انہیں ریاست نے انصاف نہیں دیا۔ انکے ورثاء کی جانب سے ناحق قتل کے پرچے بھی درج نہیں ہوئے۔ جسکے محرکات میں صوبائی حکومت خود ملوث ہے، چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس خون ریزی کا نوٹس نہیں لیا۔ پولیس کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں انہیں اوپر سے جو حکم ملا انہوں نے اس پر عمل کیا۔ حالانکہ پولیس افسران کو سوچنا چاہیئے تھا کہ ایک دن انہیں اﷲ کے حضور اس کا جواب دینا ہوگا جہاں کوئی وزیر اعلیٰ نہ ہوگا۔ اسی طرح مہنگائی سے عوام شدید پریشان ہیں ۔ آلو جسے کوئی کھاتا نہ تھا آج دیسی مرغ بن گیا ہے کہ اسی سو روپیہ کلو غریب نہیں خرید سکتا۔ آٹا پچاس روپے کلو، کنگ آئل یک صد ستر روپے کلو، چینی اٹھا ون تا ساٹھ روپے کلو کون خریدے ؟ یہ تو چند چیزوں کے بارے لکھا ۔ بتانے کا مقصد ہے کہ اسلامی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف من مانی ہورہی ہے۔ حکومت نہیں کہ احتساب کرے ۔ معاشرے میں یہ تمام ناہمواری صرف رشوت کی پیداوار ہے۔ قوت نافذہ رشوت خور ہے، کوئی اسکا احتساب کرنے والا نہیں ۔ اس وقت ملک اور عوام کی ضرورت بجلی ہے۔ بجلی نہ ہونے سے کاروبار،پیداوار سبھی کچھ مفلوج ہوچکا ہے۔ اربوں کھربوں روپیہ غیر پیداواری منصوبوں پر صرف کیا جارہاہے۔ عوام اور ملک کی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ حکمران یہ دیکھتے ہیں کہ کس منصوبہ سے ہماری تجوری میں روپیہ زیادہ آتا ہے۔


پاکستان کا 67 واں یوم پیدائش منایا گیا۔ ایک بچہ 67 سال پہلے پیدا ہوا آج بوڑھا ہوگیا مگر اس نے اپنے لڑکپن اور جوانی کے ایام تو بیماری اور مفلوک الحالی میں گذارے۔ اسکی سڑسٹھ سالہ زندگی کس کام کی۔بعد میں آزاد ہونے والے ممالک نے مثالی ترقی کی ۔ پاکستان پر یہ ظلم کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ پاکستان بننے کے بعد اس پر حکمرانی کرنے والے مسلمان ہی ہیں۔ لیکن جتنے حکمران آئے وہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے حامل تھے اور ہیں۔ جن ممالک نے ترقی کی وہاں جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام نہیں۔ اس نظام میں جاگیر دار یا سرمایہ دار ہی منتخب ہوکر آتا ہے۔وہ طاقت ور ہوتا ہے۔ اور طاقتور ہمیشہ کمزور کا دشمن ہے اور اس کا استحصال کرتا ہے۔ یورپ، برطانیہ امریکہ ، چین جاپان وغیر ہ آج کے خوشحال ممالک کچھ عرصہ قبل اسی ظالمانہ نظام کا شکار تھے۔ آج وہاں جمہوریت بھی ہے اور انکا نظام تعلیم انکی اپنی قومی زبانوں میں ہے۔ ہمارے آقا رحمۃ للعالمین ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا اسے آج دنیا میں انسانی حقو ق کا چارٹر مانا جاتا ہے۔ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہے ۔ اسی چارٹر پر مہذب دنیا عمل پیرا ہے لیکن اگر نہیں ہیں تو پاکستان کے حکمران۔ آپ ﷺ نے مساواتِ عدل میں سب سے پہلے اپنی ذات پاک کو پیش فرمایا۔کتب احادیث و سیر میں متعدد مثالیں موجود ہیں۔ قرآن حکیم کے مطابق جب اﷲ تعالیٰ اور رسول پاک ﷺ کسی کام کے بارے فیصلہ فرمادیں تو مومنوں کو اس بارے کوئی اختیار نہیں رہتا۔ شیخ الاسلام طاھرالقادری کے دس نکات کے نفاذ سے پاکستان اور عوام پاکستان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ان میں لوگوں کو مفت انصاف، مفت تعلیم، مفت علاج، روزگار کی فراہمی ، اشیاء ضروریہ عوام کو سستے داموں فراہم ہوسکتی ہیں۔ عدالتوں میں اضافہ کی صورت میں مقدمات کے جلد فیصلے ہونگے۔ محتاجی اور غربت کا خاتمہ ان نکات پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہوگا۔اختیارات کی یونین کونسل کی سطح پر منتقلی سے ترقیاتی کام دیانتدار کے ساتھ ہونگے اور لوٹ مار کا بازار بندہوگا۔1973 کے آئین میں یہ سب کچھ موجود ہے لھذا ان مطالبات کو غیر آئینی نہیں کہ سکتے۔ بلکہ اس سے آئین کی تکمیل ہوگی۔ اس فریم ورک سے اسمبلیوں میں اہل لوگوں کے جانے کی امید کی جاسکتی ہے۔

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128611 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More