میڈیا برائے فروخت

الیکٹرانک میڈیا کی بہتات نے گو کہ لوگوں کو انٹرٹینمنٹ کا عمدہ مشغلہ فراہم کیا ہے۔ لوگوں کو جہاں 24گھنٹے بریکنگ نیوز کی شکل میں اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ جب آپ نیو چینل دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ فوراًیقین کر لیتے ہیں کہ بس چند ہی گھنٹوں میں انقلاب کا اعلان ہوگا۔ اور عوام کو نیا پاکستان دیکھنے کو مل جائے گا۔ کل ہی نیوز چینلز پر عمران خان کی پریس کانفرنس اور وزیراعظم کا قوم سے خطاب دیکھنے کے بعد زہن عجیب و غیرب کشمکش میں مبتلا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ہر چینلز پر ماشاء اﷲ تجزیہ نگاروں ، کالم نگاروں کے تبصرے ہو رہے تھے ہر چینل اس پریس کانفرنس اور قوم سے خطاب کے مختلف معنی اور مطلب لے رہے تھے۔ بس ایسے لگ رہا تھا کہ سارے فیصلے چینلز کے ذریعے سے ہی ہو رہے ہوں بس چینلز اپنے ریٹنگ بڑھانے کی خاطر نہ جانے کیا کیا کرنے کے خواہاں تھے کوئی حکومت مخالف تو کوئی حکومت حامی۔ ان چینلز سے جڑے تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار بھی حکومتی مخالف اور حکومتی حمایت میں تبصرے اور تجزیہ کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ بس مسئلہ ویورز کا تھا جو یہ دیکھ کر کیا ہو رہا ہے۔ کسی کو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہونے والا ہے۔

چینلز کی اتنی بہتات جو قوم کوایک اچھی ڈائریکشن دے سکتے تھے اور انکی رہنمائی کے لئے اچھے اچھے پروگرامات ترتیب دیئے جاتے لیکن افسوس صد افسوس آج چینلز نے ہمارے زہنوں کو منقسم اور منتشرکرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ چینلز پر ہی قوم کے سیاستدان لائیو پروگرام میں ایک دوسرے کے دست و گریبان کو پکڑنے اور ایک دوسرے کو گالی دیتے دکھائی دیتے نظر آتے ہیں اور چینلز کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اس پروگرام کو کچھ دیر کے لئے بریک کی جانب لے جائیں تاکہ ہماری وہ بدبخت قوم جو اس وقت اس پروگرام کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اسکے برے اثرات سے محفوظ رہ سکیں لیکن نہیں ایسا نہیں ہوتا بلکہ ان کو مزید اشتعال دلانے کے لئے ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ ان پڑھ اور جاہل سیاستدان مزید طیش میں آکر قوم کے سامنے کیا کچھ کہہ جاتے ہیں جسے فیملی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔ تو بھلا اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اور ہماری قوم اس عمل سے کیا سیکھ رہی ہے۔ گو کہ گزشتہ زمانے میں چینلز کم تھے اور معلومات کے ذرائع کم تھے لیکن لوگوں میں تہذیب تھا برداشت تھا لیکن موجودہ دور میں ہمیں معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ہماری مثبت سرگرمیاں منفی سرگرمیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگر میڈیا چینلز کو پاکستان میں مسائل اجاگر کرنے ہوں تو انکے پاس بہت سے ایسے ایشوز موجود ہیں جن کو ہائی لائیٹ کرکے مثبت تبدیلی اور بہتری لانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے۔ بلوچستان کے کیا ایشوز ہیں آج تک ہماری میڈیا ان ایشوز سے مبرا ہے جو حقائق ہیں ان سے میڈیا منہ چھپاتا ہے۔ لیکن نان ایشوز کو ایشو بنانا ہمارے میڈیا کا ایک بہترین مشغلہ بن چکا ہے۔ اسکی بڑی وجہ ہمارے میڈیا مالکان ہیں جنہیں اپنا کاروبار کو وسعت دینی ہے۔ اوراگر موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری میڈیا بالکل بک چکی ہے ایسے کاروباری حضرات کے ہاتھوں جو شروع اول سے صحافت کے حقائق سے واقف ہی نہیں لیکن میڈیا سے جو انکی کاروبار کو چار چاند لگ سکتے ہیں وہ بھلا کسی اور کاروبار کا کیا سوچیں۔ وہ اپنی مکمل سرمایہ انہی کاروبار پر لگا دے گی یہ وہ کاروبار ہے جہاں اچھا خاصا منافع بھی مل جاتا ہے۔ اور اسکے ذریعے ہر برے کام کو تحفظ حاصل ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ زرد صحافت سے تعلق رکھنے والے صحافی میڈیا سے کارڈ حاصل کرکے اپنی آمدنی حاصل کرنے کازمہ خود اٹھا لیتے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کا الیکٹرانک میڈیا پاکستان میں اپنا جو روپ دھار چکا ہے اسکے نتائج ہماری سوسائٹی پر کیا پڑنے والے ہیں وہ آنے والا وقت خود ہی بتا دے گا۔ البتہ آنے والے کل سے آج کے زمانے میں اسکے اثرات کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے جہاں حکومتی حلقوں اور سیاسی جماعتوں میں تجزیہ نگاروں اور صحافی برادری کا رول بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں ایک بڑا اینکر پرسن ایک بڑے چینل کا پروگرام بھی چلاتا ہے اور حکومت کی جانب سے اسے ایک اہم پوزیشن پر بٹھایا بھی گیا ہے۔ عربوں کربوں کے اشتہارات عوام کے خزانے سے نکال کر پیڈ ایڈورٹائزمنٹ کی صورت میں چینلز کو بخشے جاتے ہیں اور یہاں تک کہ کچھ سیاسی جماعتیں بھی اپنا سیاسی اشتہارات بھی انہی چینلز کے ذریعے چلا کر ان چینلز مالکان کے کاروبار کو مزید توانائی بخشنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے بھی تو کہ یہ پیسے آئے کہاں سے۔ اور چینلز پر زیادہ تر پروگرامات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں کہ کس سیاسی جماعت کو جتوانے میں چینل اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور پروگرامات انہی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کو واضح پیش کرنے اسکی تعریف میں زیادہ الفاظ بول کر اسکے لئے رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں آج بھی چینلز کی بھر مار نے چینلز کو سیاسی جماعتوں کا چینلز بنا دیا ہے۔

کہنے کا مطلب تھا کہ چینلز کی تو بھر مار ہے لیکن مسائل اپنی جگہ حل ہونے کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں لوگوں کی زہن انتشار کا شکار ہو چکے ہیں کیونکہ عوام کو مختلف چینلز پر بیک وقت ٹاپک ایک ہی موضوع پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن کہیں پر حکومت مخالف تو کہیں حکومت حامی۔ تو ویورز بھی حیران و پریشان کہ صحیح ڈائریکشن اور صحیح تجزیہ اور تبصرہ اور حقائق پر مبنی پروگرام کہاں سے ملے گا۔ بس یاد کرنی ہے تو ایک چیز کہ یہاں پر بکا ہوا ہے میڈیا۔ نہ یہ تیرا نہ یہ میرا۔
Shabir Rakhshani
About the Author: Shabir Rakhshani Read More Articles by Shabir Rakhshani: 20 Articles with 16724 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.