سہارنپور کی مسجد کا قضیہ: چند حقائق

ہم ہندو نہیں، ہندستانی ہیں؛ دوممتازصحافیوں کی وفات؛ داعش کے خلاف مہم

گزشتہ ہفتہ ’سہارنپور کا سانحہ‘ عنوان سے ہم نے اپنے نوٹ میں یہ لکھا تھا کہ گرو دوارہ کمیٹی فراخدلی سے کام لے اور مسجد کی جگہ کو تعمیر میں شامل نہ کرے ۔اور یہ کہ اس جگہ کو انہوں نے خرید لیا۔ اس پرہمارے ایک کرم فرما جناب ریاض الحسن ، مدیر مسؤل آئینہ مظاہرالعلوم(وقف) نے بعض امور کی طرف متوجہ فرمایا اورکچھ دستاویزات کے ساتھ ایک تفصیلی نوٹ بھی ارسال کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس آراضی کی خرید فروخت ہوئی ،اس میں مسجدوالی جگہ شامل نہیں رہی ۔انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے نوٹ سے مسجد کا موقف کمزور ہوسکتا ہے چنانچہ عنداﷲ گرفت کے اندیشے سے یہ مناسب سمجھا کہ ان سے موصولہ معلومات کا خلاصہ پیش کردیا جائے ۔ خلاصہ یہ ہے:

٭شیخ حسن عسکری نے اکتوبرسنہ 1948میں اپنی دوکوٹھیاں معروف بہ پیلی کوٹھی اور لال کوٹھی زریعہ بیع نامہ دو غیر مسلم خواتین کو فروخت کردیں۔ پیلی کوٹھی میں تقریبا 535.69 مربع میٹرجگہ مسجد کے طور پراستعمال ہوتی تھی۔جس میں نماز کے لئے چبوترہ( مصلٰی) وضو خانہ اور امام کا حجرہ شامل ہے۔ یہ آراضی فروخت نہیں کی گئی اور بیع نامہ میں صاف طور سے درج ہے کہ اس کی حیثیت بطور مسجد بدستور برقرار رہیگی۔

٭سنہ 2008میں جائداد کی تقسیم میں پیلی کوٹھی مسماہ منشا دیوی زوجہ پدم پرساد کے حصہ میں آئی۔بعد میں پدم پرساد اس کے مالک قرار پائے۔ ان کے کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔پدم پرساد کی وفات کے بعد وصیت کے مطابق یہ جائداد ان کے نواسوں انوراگ وغیرہ کو منتقل ہوئی۔ انہوں نے اس کو 17.01.2001کو دوحصوں میں گرو سنگھ سبھا کو فروخت کردیا۔ مگر ان بیع ناموں میں بھی 535.69 مربع میٹرمسجد کی جگہ شامل نہیں ہے۔

٭اگست 2010میں گروسنگھ سبھا نے سہارنپور ڈولپمنٹ اتھارٹی سے جو نقشہ منظورکرایا اس میں مسجد کی آراضی کو بھی شامل کرلیا گیا حالانکہ وہ جگہ کسی بیع نامہ میں شامل نہیں اور نہ اس کی خریدو فروخت کا کسی کو حق ہے ۔ نقشہ کے خلاف سی جی ایم کورٹ میں کاروائی زیردفعہ 156(3)مقامی لوگوں کی طرف سے کی گئی جو ابھی تک چل رہی ہے۔

٭اس دوران ایک تدبیر یہ کی گئی کہ ایک دیوانی دعوا نمبر744/2010 گروسنگھ سبھا بنام پروندر سنگھ وغیرہ دائر ہوا جس میں نہ تو وقف کمیٹی کو فریق بنایا گیا اور نہ وقف بورڈ کو۔البتہ کمیٹی کے ایک کارکن مسمی عبدالوہاب مرحوم کوان کی ذاتی حیثیت میں فریق بنایاگیا مگر وہ نامعلوم وجوہ سے مسجد کے حق میں پیروی نہیں کرسکے اور ایک غلط حلف نامہ ان کی طرف سے داخل عدالت ہوا۔عدالت کے سامنے کیونکہ پورے حقائق نہیں لائے گئے، اس لئے یہ تدبیر کامیاب ہوگئی اور 15.05.2013کو ایک طرفہ ڈگری مدعی گوروسنگھ سبھا کے حق میں ہو گئی ۔ جس کی بنیاد پروہ خود کو مسجد کی آراضی کا دعویدار ظاہر کرتی ہے۔
٭سہارنپور کے میونسپل ریکارڈ میں تقریباً تسلسل کے ساتھ 2009تک مسجد کا اندراج موجود ہے۔یہ مسجد یوپی سنی وقف بورڈمیں بھی درج ہے جس کا نمبر 1858 سہارنپور ہے۔ اسٹیشن آنے جانے والے مسافر اس جگہ نماز پڑھتے رہے۔ اسسْنٹ وقف کمشنر کے سروے ریکارڈ میں بھی یہ مسجد AWC/1102 نمبر پر درج ہے ۔ یہ اندراج 17/08/1984کا ہے جب کہ گروسنگھ سبھا کے نام بیع نامہ اس کے 27 سال بعدسنہ2001 میں ہوا۔

٭ مسجد کے وقف بورڈ میں اندراج کے خلاف گورو سنگھ سبھا کی جانب سے سردار گورونام سنگھ ساہنی نے ایک عذرداری نمبر 39313/2011 الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جس پر عدالت نے 28.09.2011کو یہ آرڈر پاس کیا کہ مدعی وقف بورڈ سے رجوع کریں، مگر ایسا نہیں کیاگیا۔ نہ ہی اس آرڈر کے خلاف کوئی اپیل دائر کی۔

٭آراضی کے اس قضیہ کے سلسلے میں مقامی باشندوں کی کمیٹی کا دائر کردہ ایک کیس 58/2013 وقف ٹربیونل ، سول جج کورٹ سہارنپور میں ابھی زیر سماعت ہے ۔اس میں وقف بورڈ کو بھی فریق بنایا گیا ہے مگر اطلاع یہ ہے بورڈ کا جواب عدالت میں ابھی تک داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘

ریاض الحسن صاحب سے موصولہ جملہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے اصل مالک حسن عسکری سے ایک چوک یہ ہوئی کہ کوٹھی فروخت کرتے وقت انہوں نے مسجد کے حصے کوباقی آراضی سے باضابطہ الگ نہیں کیا اور اس کا راستہ بھی مشترکہچھوڑ دیا۔ یہ حصہ کوٹھی کے ایک گوشے میں ہے اور اس کو آسانی سے الگ کرکے باہر سے راستہ دیا جاسکتا تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ حسن عسکری نے مسجد کے نام وقف کو رجسٹر بھی نہیں کرایا۔ البتہ بیع نامہ میں وضاحت کردی جو کافی ہے۔ مسجدکا اندراج وقف بورڈ کے دو ریکارڈوں میں موجود ہے۔اس کے باوجودیوپی سنی وقف بورڈ کی عدم دلچسپی قابل گرفت ہے۔

ہم نے اپنے نوٹ میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ اگر عدالتی فیصلہ گرودوارہ کمیٹی کے حق میں ہوگیا تھا تو پھر چوری چھپے رات کی تاریکی میں تعمیر کیوں کی جا رہی تھی؟ریاض صاحب کی فراہم کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم دو کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اورضلع انتظامیہ کی کوشش کے باوجود گرودارہ کمیٹی کے بعض کارکنان غیرقانونی طور سے تعمیر پرمصررہے۔ اس سب کے باوجود یہ معاملہ ہرگز سکھ بنام مسلم فرقہ کا نہیں بلکہ گروسنگھ سبھا کے بعض کارکنان کی تقصیر اور اس کو روکنے کی پرتشددتدبیر کا ہے جن سے بچا جاسکتا تھا۔

یہ باتسہارنپور اور پورے ملک میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے حق میں ہوگی کہ ہمارے سکھ بھائی اور مسلمان ذمہ دار مل بیٹھ کر اس قضیہ کو حل کرلیں۔ یہ ایک اچھی مثال ہوگیکہ لنگرخانے کے متصل ایک مسجد بھی آباد رہے۔ایسا ہی ایک مسئلہ دہلی میں تب پیدا ہوا تھاجب گرودوارہ سیس گنج سے متصل تھانہ کی آراضی راجیو سرکار نے گرودواہ کودیدی ۔ اس آراضی سے ایک راستہ تاریخی سنہری مسجد کا زمانہ قدیم سے ہے۔ جب نمازی زیادہ ہوتے ہیں تو صف بندی اس کے صحن میں کرنی پڑتی ہے۔ شدید کشیدگی کے ماحول میں مولانا اخلاق حسین قاسمی ؒ نے سکھ ذمہ داروں سے بات چیت کی۔ معاملہ خوشدلی سے حل ہوگیا۔ آج بھی وہ راستہ بدستور موجود ہے۔ مسجد کے آس پاس پہلے سے زیادہ صفائی رہتی ہے اوربوقت ضرورت نماز کے لئے جگہ بھی نکل آتی ہے اور سکھ بھائی خوشدلی سے انتظام میں شریک ہوجاتے ہیں۔

ہندونہیں ،ہندستانی
موہن جی بھاگوت نے جب یہ کہا کہ سرزمین ہند کے سارے باشندے ہندو ہیں، تو انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔لیکنہمارا موقف بھی واضح ہے۔ ہم ہندو نہیں ہندستانی ہیں اور ہندستانی ہی رہیں گے۔ بھاگوت جی کے اس بیان کے بعد ٹی وی چینلس پر جو مباحثے ہوئے ان میں عدالت عالیہ جج صاحبان کے اس نظریہ کا حوالہ دیا گیا کہ ـ’ہندودھرم ‘مذہب نہیں ، بلکہ طرزحیات یا طرز معاشرت ہے‘۔ ہمارے نزدیک یہ حوالہ بے معنٰی ہے۔ جج صاحبان قانون کے ماہر ہوتے ہیں ۔ ہندو ازم کیا ہے اور کیا نہیں ، یہ قانونی سوال نہیں ۔یہ مذہب کے علماء کا دائرہ کار ہے اور وہ آج تک ہندوازم کی کوئی جامع تعریف وتشریح (definition) نہیں کرسکے ۔مولانا عبدالحمید نعمانی نے اپنے حالیہ مضمون ’’ہندوراشٹرا ……‘‘ میں اس پہلو پر علمی انداز میں بہت خوب گرفت کی ہے۔

یہ دعوا یوں بھی مبہم ہے کہ وہ فرقے جو ہندو کہلاتے ہیں کسی ایک طرزمعاشرت اور طرز حیات کے پابند نہیں۔ ہزاروں فرقے ہیں اورہرفرقہ کے عقائد، طریقہ عبادت، تہوار، رسم و رواج ، توہمات اور دیوی دیوتا جدا، جدا ہیں۔ بیاہ شادی کے طورطریقے،ملبوسات، کھانے پینے کی عادات اور ذوق جدا ،جداہیں۔ کوئی توکتا ،بلی، چوہا سب کچھ کھالیتا ہے کوئی انڈا تک کھانا گوارا نہیں کرتا۔

بعض خطوں میں خواتین سرسے پیر تک شائستہ لباس میں نظرآتی ہیں اور بعض قبائلی علاقوں میں نیم برہنہ رہتی ہیں۔ کوئی مورتی کو پوجتا ہے تو کوئی اس کو گناہ سمجھتا ہے۔ظاہرمیں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ ہم سوامی وویکانند کے کلین شیو کو ہندو چہرہ سمجھیں یا بھاگوت جی کی موچھوں کو ہندوکلچر کی علامت جانیں یا ان کے گورو جی کی داڑھی کو؟ غرض ہرکسی کا اپنا الگ ڈھنگ ہے اور سب ہندو ہیں۔ دراصل ہندودھرم مختلف و متضاد نظریات ، مراسم عبادات اور رسم و رواجات کے مبہم مجموعے کا نام ہے ۔ہاں کچھ چیزوں میں یکسانیت ضرور ہے ۔چنانچہ یہ کہنا کہ سبھی ہندستانیوں کی کلچر ایک ہے، غلط ہے۔

جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کا طرز حیات قطی جدا ہے۔ بقول عبدالعظیم صدیقی مرحوم، باتھ روم میں داخل ہوتے ہی کلچرکا فرق نظر آجاتا ہے۔ ایک جگہ ٹونٹی والا لوٹا اور بالٹی پر ڈونگا ملے گا۔ دوسری جگہ گول لٹیا یا ڈبہ ہوگا۔ ہم بلا لحاظ برادری و خاندان ایک ہی دسترخوان پر بلکہ ایک ہی طشت میں کھانے میں شریک ہوجاتے ہیں ۔ آپ کی رسوئی میں ہرایک کا آسن الگ اور تھالی الگ ہوتی ہے ۔ ہم پیشاب کرتے ہیں تو یہ اہتمام کرتے ہیں کہ کوئی قطرہ کپڑے پر نہ لگ جائے۔ان کی نزدیک’ موترپان‘ روا ہے۔ صفائی ہے توپاکی نہیں۔ ہمارے لئے پاکی بھی اہم ہے جس کا تصوردنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا۔

چنانچہ ہم مسلمان نہ تو اس کلچر کا حصہ ہیں جس کوہندو اپنی کلچر بتاتے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنا ایک صاف ستھرا نظریہ حیات ہے اورہمارے لئے بس وہی کافی ہے۔ ہرشخص کو اپنے ضمیر کے مطابق مذہبی نظریہ اختیار کرنے کی آزادی ہے۔ بیشک کچھ قدریں مشترک ہیں۔ یہ اس لئے ہندو مذاہب میں آفاقی تعلیمات کے اجزا شامل ہیں۔ وہی اقدار نقطہ اتحاد ہیں۔ ان میں ایک قدر اپنے وطن سے لگاؤ اور اس کے لئے قربانی کا جذبہ ہے، جس میں ہم اپنی مثال آپ ہیں۔

ہم احترام ہرمذہب کا کرتے ہیں۔ لیکن اس نظریہ ، اس فکر اور نظام کو مسترد کرتے ہیں، جس کی وکالت آرایس ایس کرتی ہے اور جس کا ایک نمونہ ہم نے سنہ 2002میں گجرات میں دیکھا ہے۔بھاگوت جی نے اس وقت یہ بات غالباً اس لئے کہی ہے کہ مودی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گررہا ہے۔کوشش یہ ہے دعووں کی عدم تکمیل اور کارکردگی میں پستی سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے۔

اردو کے یہ دوصحافی
گزشتہ دنوں کلکتہ میں جناب سیدعلی کی اور دہلی میں جناب عتیق صدیقی کی وفات ہمارے لئے بڑا صدمہ ہے۔ سید علی صاحب کہنہ مشق صحافی تھے اور ملک بھر کے اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ عتیق صدیقی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن اور دہلویت کی شان تھے۔ ان کے اخبار’الیوم‘ کا کیا کہنا! ہرشمارہ دیکھ کر ان کے حسن انتخاب پر طبیعت پھڑک اٹھتی تھی۔اب ایسی نستعلیق ہستیاں ناپید ہیں۔ اﷲ ہمارے ان دونوں بزرگ دوستوں کی مغفرت فرمائے اوران کے متعلقین کوصبرجمیل سے نوازے۔آمین۔

داعش کے خلاف مہم
غزہ پراسرائیلی مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے اسرائیل نواز میڈیا داعش (آئی ایس آئی ایس) کے خلاف نفرت انگیزمہم چھیڑ دی ہے۔ ان پر قتل وزناکاری کے الزام لگائے جارہے ہیں۔ افسوس یہ کہ بغداد کے نااہل حکمرانوں سے ہمدردی رکھنے والے ہمارے کچھ مسلمان بھائی بھی اس رو میں بہہ گئے ہیں اور غیرمصدقہ اطلاعات کو سوشل میڈیا سے پھیلانے میں ان کا ہاتھ بٹاکر اپنی عاقبت کو خراب کررہے ہیں۔ہندواپس آنے والی نرسوں نے ان کے انسانیت نواز رویہ کی تصدیق کی ہے۔ دوسری طرف امریکا نے پھر عراق میں بمباری شروع کردی ہے۔ حیرت کی بات ہے امریکا شام میں داعش کا حامی اورعراق میں مخالف ہے۔ اس کا مقصد صرف مسلم املاک کی تباہی اور مسلم دنیا میں عدم استحکام پھیلانا ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163452 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.