عوام کی موت

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 3 مارچ 7 مارچ بھٹو کوئیک مارچ کی صدا ،بینظیر بھٹو کے خلاف جماعت کے لاتعداد لانگ مارچ ، ملین مارچ ، نواز شریف کے پرویز مشرف کے خلاف مارچ پر مارچ اور اب انقلاب مارچ ، آزادی مارچ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں عیسوی کیلینڈر میں مارچ کے مہینے کے علاوہ بھی مارچ آتا ہے سیاستدانوں کے مارچ میں اصل مارچ پاسٹ نظروں سے اوجھل ضرور ہو جاتا ہے مگر کہیں گم نہیں ہوتا اقتدار سے محروم سیاستداں عوام اور حکومت کا لاکھ برا چاہیں لیکن برائی چھوٹی بڑی برائی کے چکر میں اپنا آپ ہی کھودیتی ہے ، سیاستدانوں کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ، یہاں ہم اپنی رائے دے کر چھوٹا منہ بڑی بات کا الزام اپنے سر نہیں لے سکتے ، یہاں بھی ہم ایک بیورو کریٹ کم سیاستداں ، سیاستدان کم بیوروکریٹ کے الفاظ میں ہی سیاستدانوں کی تعریف بیان کریں گے قدرت اللہ شہاب ، سرخ فیتہ میں لکھتے ہیں ( پہلے یہ خیال تھا کہ سیاست دان شاید اگالدان کی قسم کا کوئی ظروف ہو گا لیکن اب یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے ، دراصل وہ ساربان ، کوچوان اور پہلوان کے زمرہ میں شامل تھے جس طرح ساربان اور کوچوان اونٹ ، گھوڑے ، گدھے یا خچر کی نکیل تھامتے تھے ۔ اسی طرح سیاستدان عوام کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ پہلوانوں کی طرح دنگل فرمانا بھی آپ کا شیوہ تھا ، گھوڑ دوڑ کی طرح سیاستدان سیاستدانوں کی دوڑ بھی ایک دلچسپ تماشہ ہوا کرتی تھی یہ بات نہیں کہ خدانخواستہ سیاست دان خود دوڑ لگاتے تھے ، بلکہ وہ تو بس عوام کو دوڑانے پر ہی اکتفا کرتے تھے ۔ ہاں البتہ دنگلوں میں وہ خود بہ نفس نفیس اکھاڑوں میں اترا کرتے تھے اور بڑے گھمساں کا رن پڑتا تھا ، کھبی قوم سیاستدان کی گردن پر اور کبھی سیاستدان قوم کی گردن پر ۔ ووٹ ایک قسم کا ہتھیار تھا جو ایسے موقعوں پر استعمال کیا جاتا تھا ، ووٹ کی ساخت اس بوٹ کی سی تھی جو اس زمانے میں پاوں میں پہنا جاتا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی دنگلوں میں یہ دونوں یکساں چلتے تھے ۔ سیاستدانوں کا ایک مشغلہ بیان بازی تھا ۔ یہ اصل میں پتنگ بازی ، بٹیر بازی کی قسم کا ایک فن تھا جس میں کبھی کبھی باتوں ہی باتوں اور کھیل ہی کھیل میں ہاتھا پائی تک نوبت آجاتی تھی اور بڑے زوروں کی سر پھٹول ہوا کرتی تھی جس وقت سیاستداں دنگا فساد میں مصروف نہ ہوں تو وہ سر راہ کیچڑ اور پگڑیاں اچھال کر اپنا جی بہلایا کرتے تھے ۔ سیاستدان فکر معاش سے آزاد ہوتے تھے بنی اسرائیل کے بعد یہ ہی ایک قوم تھی جس پر آسمان سے من و سلوی نازل ہوتا تھا ۔ )

من و سلوی تو آج بھی سیاستدانوں پر نازل ہو رہا ہے ان کی چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے وہ اپنے مفاد کی صلیب پر عوام کو مصلوب کیے ہوئے ہیں ، انہیں پاکستاں کی بقاکی پرواہ ہے نہ پاکستان کی تعمیر کی ، وہ آزادی جشن آزادی کی حرمت سے آگاہ ہیں نہ انسانی جان کی قیمت اور حرمت سے عام آدمی کے ہاتھوں پولس کے سپاہی کا قتل ہو یا وردی کے ہاتھ سے چلائی ہوئی گولی سے عوام کا سینہ چھلنی ہو ہر دو صورتوں میں عوام کی موت ہے لیکن کیا کوئی ایسا رستہ ہے کہ عوام کو مرنے سے بچایا جا سکے ؟
ملکہ افروز روہیلہ
About the Author: ملکہ افروز روہیلہ Read More Articles by ملکہ افروز روہیلہ: 11 Articles with 7626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.