تشویشناک ملکی صورت حال....کون کیا کہتا ہے....!!

مختلف محب وطن سیاسی حلقوں کی جانب سے ملک میں پیدا بے یقینی و تصادم کی کیفت پر قابو پانے کی سر توڑ کوششوں کے باوجود بدقسمتی سے ملک کے سیاسی افق پر روز بروز افراتفری، انتشار، لاقانونیت اور بدامنی کے گہرے سیاہ بادل امنڈتے چلے آ رہے ہیں اور عوام کی روز مرہ مشکلات میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ یوم آزادی 14 اگست کو ایک طرف حکومت کی جانب سے مختلف النوع تقریبات کے اہتمام کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ دوسری جانب حکومت مخالف ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے اسی روز اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے حکومت کے خاتمے کی تیاریاں بھی تیز کر دی ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب اور تحریک انصاف کے آزادی مارچ کو اکٹھا کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ان مارچوں کو پرامن رکھنے کے دعوﺅں کے ساتھ انتقام، بدلے اور جانیں لینے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، طاہر القادری کی جانب سے انقلاب لائے بغیر جانے والوں کی بھی جان لینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان نعروں سے جہاں ایک طرف حکومت کی تشویش بڑھ رہی ہے، وہیں دوسری جانب عوام میں بھی بے چینی کا بڑھنا فطری امر ہے۔ موجودہ حالات میں یوم آزادی کا منظر نامہ بھیانک صورت میں سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طاہر القادری کا احتجاج فوجی بغاوت پر منتج ہوسکتا ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمزکا کہنا ہے کہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجازت نہ دینے پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیراعظم نواز شریف سے ناراض ہیں، جبکہ طاہر القادری اور فوج کے درمیان قریبی تعلقات کی اطلاعات نے عوام میں یہ خدشات پیدا کردیے ہیں کہ قادری کا احتجاج ملک کو فوجی بغاوت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ عمران خان نے بھی اپنے دھرنے کی ناکامی کی صورت میں فوجی مداخلت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوج آئی تو اس کی ذمہ داری نواز شریف پر ہوگی۔ امریکی اخبار کے مطابق پنجاب بھر میں پولیس اور نواز شریف کے مخالفین کے درمیان پر تشدد جھڑپوں میں کئی پولیس اہلکاروں کی اموات ہوئیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ ان پر تشدد کارروائیوں کا مقصد منصوبہ بندی کے تحت نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں اور جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دیے جانے کے خطرات موجود ہیں۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے عمران خان اور طاہر القادری کو خبردار کیا ہے کہ افراتفری کی سیاست سے گریز کریں، ورنہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچے کے ذمہ دار وہ ہوں گے۔ ملک میں جمہوریت بڑی قربانیوں اور جد و جہد کے بعد آئی ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات، احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ملک میں پھیلائی گئی افراتفری کے پیچھے سابق صدر مشرف کے دوستوں کا ہاتھ ہے۔ سارا ڈرامہ صرف اس لیے کیا جا رہا ہے، کیونکہ حکومت نے سابق صدر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے پیچھے خفیہ قوتیں موجود ہیں۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ملک میں سارا ڈرامہ پرویز مشرف کی رہائی کے لیے رچایا جا رہا ہے اور وہی طاقتیں دباﺅ ڈال رہی ہیں، جو قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی نہیں چاہتیں۔ پرویز مشرف کی رہائی کے لیے وزیر اعظم محمد نواز شریف پر شدید دباﺅ ہے۔

ملک کے سیاسی حلقوں نے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، عمران خان اور طاہرالقادری ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک کا منظر نامہ انتہائی خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو نقصان پہنچانے والے کسی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔ نہیں چاہتے کہ پاکستان کا ہر چوراہا کربلا بن جائے۔ کچھ لوگ جلتی پر تیل ڈالنا چاہتے ہیں، جسے ناکام بنانا ہوگا۔ کچھ لوگ تماشا لگا کر مارکیٹ میں جگہ بنانے کے چکر میں ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ طاہر القادری کے مطالبات غیرجمہوری ہیں، غیرجمہوری تبدیلی کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ وزیر مملکت پانی و بجلی چودھری عابد شیر علی کہتے ہیں کہ فوج کو متنازع بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، حکومت کسی کو احتجاج کے لیے اسلام آباد آنے سے نہیں روکے گی، لیکن کسی کو امن و امان تباہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ کسی بھی قسم کے تشدد سے دور رہنا چاہیے، اگر کوئی برا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ حکومت نہیں، بلکہ عمران خان اور طاہرالقادری ہوں گے۔ نواز شرف کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ قومی وطن پارٹی و سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاﺅ نے کہا ہے کہ جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں، اب بھی وقت ہے کہ 14 اگست سے پہلے پہلے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کیا جائے، جمہوریت اور نظام کے بقاءکے لیے دونوں طرف سے لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت برقرار اور مضبوط ہونی چاہیے، کیونکہ اس میں ہم سب کی بقا ہے، جمہوریت کو نقصان پہنچا تو اس سے جمہوری قوتوں اور پاکستان کو بھی نقصان پہنچے گا۔ مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما امتیاز شیخ کا کہنا ہے کہ ملک میں انقلاب جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے ہی آسکتا ہے، حکومت کو ختم کرنا ہے تو اس کا آئینی راستہ ہے، سازش کے تحت جمہوریت کو ڈیل ریل کیا جا رہا ہے۔

موجودہ حالات میں جمہوریت کو لاحق خطرات کے پیش نظر قومی اسمبلی نے جمہوریت کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کی ہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاو ¿س میں ہوا۔ ترقی اور منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کی جانب سے جمہوریت کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کے حق میں پیش کی گئی قرارداد کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ”ہم قوم کو یوم آزادی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔“ ”ہم قائداعظم کے وژن کے مطابق ووٹ کے ذریعے قائم ہونے والے ملک میں جمہوریت کا تحفظ کریں گے اور آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔“ ”حکومت ملک میں جمہوری اداروں کی بالادستی کے لیے کام کر رہی ہے اور ملکی سلامتی اور بقاءجمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔“ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ سے بادشاہت کے خلاف رہے ہیں۔ اگر کسی طاقت نے پارلیمنٹ اور ہمارے مینڈیٹ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ”فتوٰی دیتا ہوں آئین کو چھیڑنے والے کے خلاف بغاوت جائز ہے، جو آئین اور جمہوریت کا مخالف ہے، میں اس کے خلاف لڑوں گا اور جو بھی آئین اور جمہوری نظام کو تسلیم کرتا ہے، ہم اس کے ساتھ ہیں۔“ انھوں نے کہا کہ عمران خان ایوان میں آ کر بات کریں، وہ ایوان میں اچھے لگتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مراد سعید کا کہنا تھا کہ اگر جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کی گئی تو اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہو گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ملکی حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں، لانگ مارچ اور انقلاب مارچ ہوتا ہے یا حکومت روک دیتی ہے، دونوں صورتوں میں یہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچ کے حوالے سے جارحانہ عزائم واضح ہیں۔ طاہر القادری جوش کا زیادہ مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے پاس کبھی قومی اسمبلی کی ایک نشست ہوا کرتی تھی، اب وہ بھی نہیں ہے،وہ ایک غیر جمہوری لیڈر ہیں، وہ مروجہ جمہوریت کا پودا ہی اکھاڑنے کے درپے ہیں۔ عمران خان کے پاس لوز کرنے کے لیے کافی کچھ ہے۔ ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی اور خیبر پی کے میں حکومت ہے، اگر وہ بھی غیر جمہوری طاہر القادری کی طرح اقدام کریں گے تو اس سے ان کو سیاسی طور پر نقصان سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے، کیونکہ طاہر القادری کا امیج معاشرے میں بہتر نہیں ہے، اگر عمران خان بھی ان طرح کے اقدامات کریں گے تو ان کا امیج بھی معاشرے میں اسی طرح ہوسکتا ہے۔ موجودہ حالات کی وجہ سے ملک کو نقصان ہورہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ بھی گر گئی ہے، ملک کی تجارتی سرگرمیوں کو بھی دھچکا پہنچا ہے۔ ان بگڑتے ہوئے حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن خصوصاً احتجاجی مارچوں اور دھرنوں پر بضد پارٹیاں ملک کو بچانے کی فکر کریں اور اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں۔ ملک مستحکم ہوگا تو یہاں سیاست ہوگی، جمہوریت ہوگی اور انتخابات بھی ہوں گے۔ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو ضد اور انا کو ترک کرتے ہوئے اور ٹکراﺅ سے بچتے ہوئے مسائل کے سیاسی حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638081 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.