اگر پاکستان نہ بنتا؟ - حصہ دوئم

بڑے دکھ کی بات ہے کہ اعلیٰ پائے کے ادباء و شعراء کی اکثریت تحریکِ پاکستان سے الگ رہی۔یہ بڑے شعراء اور ادباء عموماً متعقل تھے اور فیشن کے طور پر قومی معاملات سے نفور‘ہندو گانٹھ کا پکا تھا کہ وہ اپنی ہر پارٹی‘ہر گروہ اور ہر پلیٹ فارم پر ہندو تھا۔ہندؤوں میں کیمونسٹ بھی تھے مگر ہندو مفادات کے باب میں وہ بھی فقط ہندو تھے‘ہندؤوں میں رائے بہادر اور سر بھی تھے مگر وہ بھی اپنی قومی امنگوں سے ہم آہنگ تھے‘خود ان کی اپنی قوم نے ان کو ہندو جاتی کے مفادات کا دشمن کبھی نہ جانا‘وہاں کانگرس اور مہا سبھائی معناً ایک تھے۔وہ سارے لیڈر قوم کے مشترک لیڈر تھے‘وہ مشرک تھے مگر عملاً وحدت پسند ‘ادھر مسلمان موحد تھے مگر تفرقہ ہی تفرقہ‘لہندا عملاً مشرک (قرآن نے امت میں تفرقہ پیدا کرنے والوں کو مشرک قرار دیا ہے)۔تحریکِ پاکستان پھیل کر فقط مسلم لیگ ہی کا مسئلہ نہیں رہ گئی تھی تاہم ہمارے علماء کبار کی بھاری اکثریت کو اس میں مسلمانوں کا مفاد نہیں بلکہ فساد نظر آتا تھا‘ایسا کیوں تھا؟

سب سے بڑا باعث تو یہ تھا کہ ان کے بلند بام علمی مناصب کے نصاب کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں نہ تاریخ اسلام سے نہ تاریخ ہند سے۔اپنی معاصرارد گرد کی تاریخ سے بھی ناآگاہ‘تاریخ سے بھی ناواقفیت‘جغرافئیے سے بھی لاعلم‘اپنے محل و قوع کا سرے سے ہی علم نہیں ۔۱۹۶۵ء کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کا طالبِ علم تھا۔میرے شہر فیصل آباد( لائل پور) کی سب سے بڑی جامع مسجد کے خطیب اعلیٰ اور مدرسہ کے سربراہ ( مسجد اورمدرسے کا نام بطور احترام مخفی رکھنے پرمعذرت) نے پوچھا کہ یہ ہٹلر کا وطن جرمل (جرمنی) کہاں ہے؟میں کیسے بتاتا ‘لہندا میں نے شہر کے ایک کتب خانے سے دنیا کا نقشہ خریدلیا اور مسجد سے ملحق مدرسے کی لائبریری کی دیوار کے ساتھ لٹکا دیا۔مدرسے کے سربراہ نے تمام معلمین اور سنئیر طلباء کو بلا لیا۔وہ سب لوگ مجھ سے بے حد محبت اور پیار کرتے تھے‘مسجد و مدرسہ کے تمام بزرگ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میں آج بھی ان کو اپنا مربی سمجھ کر ان کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں۔
مدرسہ کی تمام اہم شخصیات‘ اساتذہ اور طلباء نقشے کے سامنے دائرہ کی شکل میں بیٹھ گئے ۔میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ علماء اجل نقشے پر شمال اور جنوب نہیں بتا سکتے تھے۔جغرافیئے کا یہ عالم ‘تاریخ ہند سے بالکل ناواقف‘معاصر غیر اقوام کے دھندوں سے قطعاً بے نیاز یہ حضرات دینی علوم خصوصاً حدیث شریف اور فقہ میں طاق تھے‘منطق میں طرار اور صرف و نحو میں طیار․․․․․․․․!اس مدرسے کا علمی درجہ ملک بھر میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا‘اور اب بھی ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل آج بھی پاکستان کے ہر علاقے میں معزز علماء و فضلا اور اہل افتاء میں شامل ہیں اور کچھ تو آج پاکستان کی صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین اور وزارت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔اس عظیم درسگاہ کا نصاب اگر دیوبند شریف ہی کے مطابق تھا تو عیاں ہے کہ دیوبند شریف کے فارغ التحصیل حضرات شائد چند ایک کو چھوڑ کرحالات گردوپیش سے خواہ وہ معاشی تھے خواہ انتظامی تھے یا سیاسی ‘کس قدر آگاہ تھے؟اس کے باوصف اصرار تھا کہ مسلمان اپنے سارے فیصلے سیاسی امور سمیت‘فقط علماء حضرات کے حسبِ فرمان کریں۔

میں اس وقت بھی سوچتا تھا اور آج بھی سوچتا ہوں‘اس وقت بھی اظہارِ خیال کرتا تھا اور آج بھی اظہارِ خیال کرتا ہوں کہ ہمارے علماء حضرات میں سے کتنے تھے جن کو مسجد اور مدرسے کی زندگی سے باہر کے امور کا تجربہ تھا‘ان میں سے کتنے تھے جن کو کسی معمولی ٹاؤن کمیٹی کے کاروبار کا بھی علم تھا؟کیا انہوں نے ہندو کے ساتھ مل کر کبھی کسی دفتر‘تجارتی حتیٰ کہ علمی ادارے میں بھی کام کیا تھا‘پھر لازم تھا کہ وہ اپنا کام کرتے جس میں وہ ماہر تھے۔قائد اعظمؒیا دیگر مسلم لیگی زعماء نے کب کہا کہ علماء حضرات کو عربی نہیں آتی‘یا وہ قرآن و حدیث کی عبارات کے معنی نہیں بیان کر سکتے‘ہاں!وہ یہ ضرور کہتے تھے کہ حضرات!جس کام کو آپ کو تجربہ نہیں‘اس میں آپ ماہرانہ رائے نہ دیں‘ہم آپ کے حلقہ علم مداخلت نہیں کرتے ‘ہم فتوے نہیں دیتے‘ہم درسِ حدیث کا دورہ نہیں کراتے‘اس کے اسلوب نہیں بتاتے‘یہ اس لئے کہ کسی کو بھی سارے کام نہیں کرنا ہوتے۔’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘۔لیکن علماء نے پھر بھی ہندوستان کے ہندومسلم مسئلے کا حق ان افراد کے سپرد نہیں کیا جو تجارت کے میدان میں‘بلدیات کے میدان میں‘قانون سازی کے میدان میں‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصابی اور علمی و تحقیقی میدان میں اور سیاست کے ہر میدان میں ہندو کے ساتھ کام کررہے تھے اور بخوبی جان رہے تھے کہ ہندو جہاں انگریزی استعمار سے نجات کا خواہاں ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ کوشاں ہے کہ مسلمانوں کا بہرطریق اس طرح کچومر نکال دے کہ جب انگریز سے آزادی حاصل ہو تو مسلمان من حیث الامت ان کیلئے دردِ سر نہ بن سکیں۔یہ امر بالکل واضح تھا لیکن مسجد اور مدرسے کے باہر جھانک کر جنہوں نے دیکھا ہی نہ تھا اور جن کا نصاب انہیں برادرانِ وطن کی تاریخ و تہذیب سے آگاہ ہونے ہی نہ دیتا تھا ‘وہ ہندو قوم کی اجتماعی نفسیات اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی نیتوں کو کیا جانتے؟

وہ مسلمان جو ہندو کو ہر میدان میں کار فرما دیکھ رہے تھے وہ بخوبی جان گئے کہ ہندو اپنے معاشرے میں کسی غیر ہندو معاشرے یا سوسائٹی کو ایک متحرک عنصر کی طرح موجود نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے ہندوستان میں آکر یہاں کے اصلی باشندوں کو تہس نہس کردیا ‘قطعاً اچھوت بلکہ چنڈال بنا کر رکھ دیا‘بدھ مت اور جین مت کے پیروؤں کو نابود کر دیا‘بدھ مت والوں نے تقریباًآٹھ سو سال بھارت کے کبھی بیشتر اور کبھی کمتر حصے پر حکومت کی مگر جب برہمنی نظام دوبارہ مسلط ہوا تو بدھ مت والوں کو ختم کر دیا گیا‘وہ کروڑں تھے مگر محو محض ہو کر رہ گئے۔ وہ آج بھی چین میں ہیں‘جاپان میں ہیں‘ویت نام‘کمبوڈیا‘سری لنکا اور برما میں ہیں مگر وہاں نہیں ہیں جو ان کا اصلی وطن تھا‘جہاں انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی‘جہاں کا عوامی مذہب بدھ دھرم بن گیا تھا‘لیکن ہمارے علماء کی اکثریت کو اس بات کا علم نہ تھا اور نہ ہی اس سے غرض۔وہ کہتے تھے پہلے انگریز کو نکالو‘بعد میں ہندو سے نمٹ لیں گے لیکن ہندو شناس اہلِ نظر اور امت کے مستقبل کو ہندو ذہن کے آئینے میں دیکھ لینے والے اہلِ اخلاص نے رفتہ رفتہ یہ طے کر لیا کہ ہندو اگر دو محاذوں پر لڑ رہا ہے ‘یعنی انگریزوں کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف تو ہمیں بھی دونوں محاذوں پر یعنی انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف لڑنا ہو گا۔ہندو بھی اتنا دشمن ہے جتنا انگریز‘لہندا یہ اہتمام ابھی سے شروع ہو جانا چاہئے کہ جب انگریز جائے تو ہندو قوم مسلمانوں کو من حیث الامت مغلوب نہ کر لے۔چنانچہ علامہ اقبالؒ اور مولانا حسرت موہانی نے بہت پہلے یہ امر واضح کر دیا ‘پھر مولانا محمد علی جوہرؒ کانگرس سے جدا ہوگئے۔شوکت علیؒ بھی مولانا ظفر علی بھی‘مولوی تمیز الدین بھی‘سردار عبدالرب نشتر بھی‘خان عبدالقیوم بھی‘اور مولانا محمد اکرم بھی۔وعلیٰ ہذاالقیاس‘قائد اعظمؒ تو ۱۹۲۳ء میں کانگرس کو پہچان کر الگ ہوگئے تھے۔

علمائے دین کی بھاری اکثریت اتنی سی بات کو نہ سمجھ سکی ‘چلیں یونہی سہی‘البتہ آج کے پاکستانی عوام یہ پوچھنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ ہندو کی ہاں میں ہاں ملانے والے ‘لہندا انگریزی جمہوریت کے متوالے علمائے دین نے جب یہ دیکھا کہ امت کی بھاری اکثریت نے تحریکِ پاکستان کو اپنا لیا ہے تو کیا اپنی جمہوریت پسندی کے اصول کی روشنی میں ان کو مسلمانانِ بر عظیم کی مرضی قبول کر لینی چاہئے تھی یا نہیں؟آج بھی ان علماء کا وہی گروہ پر شکوہ اور اسی طرح دیوبند کے باہر کے دین پسند حلقوں کے وابستگان‘جو ہر نظام پر خواہ وہ نظام شوریٰ ہی کیوں نہ ہو‘مغربی جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں‘مسلمانانِ بر عظیم کے اس واضح جمہوری فیصلے کو قبول کرنے پر کیوں تیار نہیں ․․․․․․․․․!اگر علماء کی سیاست ہارتی ہے تو پھر ان کو ہرانے والی جمہوریت مردود․․․․․․․․․․․امریکہ کو ہر جمہوریت پسند ہے ماسوا ئے اس جمہوریت کے جس کے ذریعے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے برسرِ اقتدار آنے کا خدشہ ہو یعنی اپنی اپنی اصول پسندی اور اس کے معیار ․․․․․․․․الجزائر میں ہم یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں۔

مسلمانانِ بر صغیر نے بہ خلوص خاطر دینی جہاد کیا تھا۔مسلمانوں کیلئے ایک وطن حاصل کرنے کی خاطر اور الحمد ﷲ کہ مسلمان عوام کی اکثریت کثیرہ کا پاکستان پر ایمان قائم ہے۔یہ الگ بات ہے کہ سیکولر علماء یعنی گاندھی اور نہرہ کے پیروکارہندو ناشناس حضرات اور ان جیسے دیگر متکبر علماء نے اس تحریک کو فراڈ قرار دیا تھا اور قائد اعظمؒ کو فراڈِاعظم کا خطاب دیا تھا اور ان بزرگوں کی عالی قدر اولادبھی یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتی کہ ہم پاکستان کے بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے‘مصداق من صادر کوالدہ فما ظلم(جو اپنے باپ پر گیا اس نے کوئی زیادتی نہیں کی)۔مگر کیا وہ مسلمانانِ بر عظیم کی جدوجہد کوجمہوری نقطہ نظر سے بھی سر آنکھوں پر نہیں رکھتے؟یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ ہندو کا جمہوری فیصلہ قبول مگر مسلمانوں کا جمہوری فیصلہ مردود!

خود کو دین کا پاسبان اور اسلام کے محافظ اور داعی جاننے والوں نے ۱۹۴۵ء اور ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں کیا رویہ اختیار کیا تھا؟یہی ناں کہ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ مسلم لیگ جیتے یا کوئی اور پارٹی‘پاکستان معرض، وجود میں آتا ہے یا کہ نہیں‘ہم کو تو خدمتِ اسلام سے غرض ہے۔ہم خدمتِ اسلام کے مؤقف پر قائم ہیں‘وہ لوگ بری طرح ناکام رہے۔آج بھی ان عالی شان حضرات اہلِ ایمان کا مؤقف یہی ہے کہ مسلم لیگ جیتے یا ہارے‘ہمیں غرض نہیں کسی وطن دشمن سیاسی پارٹی کو فتح حاصل ہو‘ہماری بلا سے‘یہودی اور برہمن اور امریکن مقاصد کو تقویت نصیب ہو‘بیشک ہوتی رہے‘ہم خدمتِ اسلام کے مؤقف پر قائم ہیں۔ہمارا مؤقف درست ہے اور وہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے اس رؤیے نے پاکستان پر یہودی‘قادیانی اور برہمنی گرفت مضبوط تر کر دی ہے۔
صاحبِ گنبدِ خضریٰ میں فریادی بن کر آیا ہوں
تاج وتخت ختمِ نبوت بیچ دیا دینداروں نے

یہ ہیں وہ لوگ جو یہ منحوس استفسار کرتے ہیں کہ پاکستان نہ بنتا تو کس طرح کا واضح فائدہ میسر آسکتا تھا۔دینی‘اخلاقی‘سیاسی اور معاشی وغیرہ وغیرہ اعتبارات سے۔ایسے لوگوں کو اب اہلِ قادیان کی جماعت بھی بطور معاون مل گئی ہے‘کراچی کی ایک لسانی جماعت بھی جس کا خودساختہ قائد بھارتی اور اسرائیلی ایجنٹ جو بھارت جا کر قائد اعظمؒ اور علامہ اقبال ؒ کو پاکستان کی دھرتی کو مطعون کرتا ہے اور ہر صاحبِ اقتدار پارٹی کے ساتھ حکومت کے مزے بھی لیتا ہے۔اس جماعت کا ہر فرد تاویل کا بادشاہ ہے اور آج ایسی جماعتوں کے سب ہی افراد چھوٹے بڑے‘مذکر و مونث‘پاکستان کے خلاف عقلی دلیلوں کے انبار لگا رہے ہیں۔وہ بڑی جلدی میں ہیں شائد ایسی موافق حکومت پھر میسر نہ آئے یا شائد ایسی مہربان اور ہمنوا حکومت تا دیر نہ رہے۔

ہندو نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ہندو سربراہوں کے چیلوں نے بھی اس مملکِ خداداد کو تسلیم نہیں کیا۔یورپی اور مسیحی قومیں خصوصاً انگریز اس بر عظیم میں اسلام کے نام پر کسی مملکت کا ظہور قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ان کے پروردہ قادیانی حضرات اور روحانی صاحب بہادر ان کا تا حال یہی حال ہے ۔کیا جس طرح تحریکِ پاکستان کے دوران میں علماء کبار ہندو اور انگریز کا خصوصاً ماؤنٹ بیٹن اور ایٹلی کی حکومت کا رویہ نہ سمجھ سکے‘آج بھی اسی طرح غافل ہیں یا دانستہ سیکولر ازم کے پرستا ر ہیں‘یہ منحوس سوال کہ’’ اگر پاکستان نہ بنتا تو آیا ہم اس اعتبار سے اچھے رہتے ‘‘اٹھا ہی کیوں؟پاکستانی عوام اس سوال کو ان کے ایمان کے خلاف آوازہً مبارزت سمجھتے ہیں‘ایسے سوال کو وہ اپنی توہین گردانتے ہیں‘لہندا انہوں نے ایسے سیکولر عناصر کو جو محراب و منبر اور کرسی و دفاتر کی زینت ہیں‘پائے استحقار سے ٹھکرا دیا ہے۔اہلِ پاکستان کی اکثریت کثیرہ کا پاکستان پر بھرپور ایمان تھا اور وہ ایمان قائم ہے اور قیامت تک یہ ایمان قائم رہے گا انشاء اﷲ۔علمائے سوء نے اور دین کے ان علمبرداروں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بھی مسلمانوں کا دل دکھایا تھا اور آج بھی انہوں نے وہی اذیت کاری دہرائی ہے۔
خدا توفیق کیش کفر بخشد دیں پناہاں را

ہاں اس وقت اور اس وقت میں فرق ہے‘تحریکِ پاکستان کے دوران میں امت کو ایک قد آور قائد میسر تھا‘جس کی بصیرت ‘اخلاص‘ذہانت اور سب سے بڑھ کر امانت داری پر مسلمانانِ ہند کو بھرپور اعتماد تھا اور آج ایسا کوئی مرکزی فرد جو نظر گاہِ اعتماد بن سکے موجود نہیں۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.