سب کرسی کے ہیں دیوانے

عمران خاں کی موجودہ کال جس میں واضح ارادہ ہے ان کا چودہ اگست کا اسلام آباد کا دھرنا موجودہ حکومت اور ان کے مؤقف کے مطابق بادشاہت کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ بلا شبہ موجودہ حکومت جسے دس پندرہ وزراء چلا رہے ہیں کوئی ایک بھی وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جسے وہ فخریہ اٹھارہ کروڑ عوام کے سامنے پیش کر کے اپنا اعتماد قائم کرنے یا کریڈٹ لینے کا مستحق ثابت کر سکیں۔ اس پس منظر میں عوام اور بطور خاص نوجوان طبقہ بلا شبہ عمران کی کال پر ان کے ہم خیال و ہم نوا ہونگے۔ شروع شروع میں صرف چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے پر کسی مجاز اتھارٹی نے ان کے اصرار پر کان نہ دھرا۔ اس مطالبے کو سال گزار گیا۔

بعض حقائق سامنے آئے کہ کئی جگہ ووٹوں کی اصل تعداد سے بھی بڑھ کر ووٹ پڑے تو لوگ ششدر رہ گئے کہ کیسا کالا جادو تھا۔ عمران فرشتہ نہ سہی انسانی سوچ اور دماغ تو رکھتا ہے اور عوام بھیڑیں سہی منمنا تو سکتی ہیں۔ اور اب ان بھیڑوں کی آواز میں میں سے تُو تُو میں بدلی سنائی دے رہی ہے اسی لیے حکمران ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے دروازوں پر دستک دے کر عمران کی للکار سے نمٹنے کے جتن کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن PTI کسی غیر آئینی طریق کار کے حق میں نہیں اور یہی بات اسے مولانا طاہر القادری کے رویے سے ممتاز کرتی ہے۔

عمران خان کے مطالبات درست ہیں۔ انتخابات میں گھپلے ہوئے ہیں، ہمارا انتخابی نظام درست نہیں ہے، اس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ انگوٹھوں کی جانچ پڑتال، معیاری سیاہی اور سب سے بڑھ کر مشین کے ذریعے ووٹنگ، گو وڈیروں، جاگیرداروں کا رعب، دبدبہ تو ہوگا مگر پھر بھی خاصا بہتر نظام ہوجائے گا۔

حکومت کی مشکل یہ بھی ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا جو سخت گیر موقف ہے اس کی کیسے حمایت کی جائے۔ کیونکہ ابھی تک عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری میں سے کسی نے بھی کوئی ایسی سیاسی لچک کا مظاہر ہ نہیں کیا، جو فوری طور پر مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے میں مدد دے سکے۔ وہ سیاسی قوتیں جو عمران خان سے ملی ہیں انھیں عمران خان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے ابھی تک وہ کچھ نہیں مل سکا، جو ان کی خواہش تھی۔ عمران خان کے برعکس ڈاکٹر طاہر القادری نے تو حکومت سے مفاہمت کے تمام تر دروازے بند کیے ہوئے ہیں، ان کے بقول حکومت سے کسی بھی طور پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ اب جب کہ حکومت نے حتمی طورپر ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف کریک ڈاون کا فیصلہ کر کے انتظامی اقدامات شروع کر دیے ہیں تو ان سے مفاہمت کا راستہ عملی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ عمران خان اپنے موقف میں کس حد تک سیاسی لچک کا مظاہر ہ کرتے ہیں، یہ عمل خود حکومت کی سیاسی لچک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جہاں دونوں بڑے فریقین کو اپنے اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو طے کرنا ہو گا۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایک طرف وفاقی حکومت نے اگست کے پورا مہینہ میں اسلام آباد سمیت ملک بھر میں جشن آزادی کی تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، اور دوسری طرف اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں کو ، جو براہ راست وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں ، عملا ً بلاک کر دیا ہے، بلکہ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج بھی طلب کر لی ہے ۔

چودہ اگست ابھی چار دن کے فاصلے پر ہے حالات بدلنے لگیں تو گھنٹے نہیں منٹ لگتے ہیں اور امید ہے گھبرائے ہوئے میاں نواز شریف آخری لمحوں میں عمران خاں سے جو کہ ایک Fighter ہے کچھ مان کر اسے منا لیں گے اور دونوں کی ساکھ وقتی طور پر بچ جائے جمہوری طرز حکومت میں ہمیشہ ایسی گنجائش ہوتی ہے-

جب اتفاق ہے کہ ماڈل ٹاون جس کی شناخت کسی زمانے میں شریف خاندان کی رہائش گاہیں اور ان کی تعمیر کردہ اتفاق مسجد تھی ،17 جون 2014 ء کے سانحہ کے بعد آج اس کی پہچان ڈاکٹر طاہر القادری کا ایک سادہ سا مکان اور ان کا تعلیمی ادارہ منہاج القران ہے-

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ابھی مذاکرات کی ٹیبل پر ہے، لیکن اس کے برعکس انتظامی عمل سے بھی معاملات ڈیل کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ادارہ مہناج القران اوراس کے اردگردکے علاقہ کو جس انداز سے کنٹینروں سے سیل کر دیا گیا ہے، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ لاہور میں رینجرز کی طلبی، موٹر سائیکلوں کو جبری بنیادوں پر بند کرنا، پٹرول کی عدم ترسیل، کارکنوں کی گرفتاری، موبائل سروس کی بندش، اسلام آباد جانے والے تمام راستوں کو بند کرنے کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی پریشانی کا کھیل بھی عروج پر ہے۔ ایک بات حکومت کو سمجھنی ہوگی کہ انتظامی اقدامات کا سب سے بڑا اثر خود حکومت پر پڑے گا۔

ایک طرف وفاقی حکومت نے اگست کے پورا مہینہ میں اسلام آباد سمیت ملک بھر میں جشن آزادی کی تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، اور دوسری طرف اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں کو ، جو براہ راست وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں ، عملا ً بلاک کر دیا ہے، بلکہ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج بھی طلب کر لی ہے ۔

ماسوائے پاکستان کے ساری دنیا میں کنٹینرز کا استعمال سامان کی درآمد و برآمد کے لیے ہوتا ہے لیکن ہم ایک پینتھ دو کاج کے ماہر ہونے کی وجہ سے کنٹینروں سے عوام کا آمد و رفت کا حق غصب کرنے کا کام بھی لیتے ہیں۔ ہر پولیس اسٹیشن کے فرائض میں اب یہ اضافہ کر دیا گیا ہے کہ جب بھی CCPO کا حکم آئے وہ ایکسپورٹ کے مال سے لدا کنٹینر بھی تھانے کی تحویل میں لے لیں۔

یعنی ان سیاست دانوں کو نہ کوئی فکر ہے نہ یہ بھوک سے مر رہے ہیں تو یہ عیش ہی کریں گے۔ لہٰذا یہ سیاست، سیاست کھیلتے ہیں۔ بڑا مشہور شعر ہے
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
 
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 257366 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More