پا کستان کی قیمت

قا ر ئین ا کرام پا کستان ہم نے آ زا د ی حا صل کر نے کے لیئے حا صل کیا تھا۔ا ور لفظ آ زادی کے کئی معنی ذہن میں آ تے ہیں۔جن میں سے ا کثر لو گوں کا خیا ل ہے کہ وہ جسما نی طو ر پر آزاد ہیں تو گو یا وہ آ زادی حا صل کر چکے ہیں نہیں نہیں ہر گز نہیں آپ اس و قت تک آ زا دی کا تصو ر بھی نہی کر سکتے جب تک کہ آپ کے خیا لا ت آ پکی سو چ یا آ پکا تصور آ زاد نہ ہو میں تو کہتی ہوں آ زا دی کی جنگ تو ا بھی با قی ہے۔

یو ں تو ۱۴ ا گست ۱۹۴۷سے بچہ بچہ وا قف ہے کہ اس دن ہم نے آ زا د ملک حا صل کیا تھا جہا ں ہم کھل کر سا نس لے سکیں جہا ں ہماری عبا دات وسجدے آزاد ہو ں ہما را رہن سہن کھا نا پینا او ڑھنا پہننا حتیّ کہ مکمل طور پر ہما ری سوچ و خیا لات آ زاد ہو ں جب بر صغیر کے ر ہنے وا لے ہند وں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر د یا تو چند بزر گوں نے منصو بہ بنا یا کہ اپنا بو ر یا بستر لپیٹو ہم ا یک علیحدہ وطن بنا نے چلے ہیں جسکا خواب علامہ ا قبال نے د یکھا قیا دت قا ئد ا عظم نے سنبھا لی اور دو قو می نظر ئیے کا تصور سر سید احمد خا ن نے دے ڈا لا۔

مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جس مقصد کے لیئے ہم نے پا کستان حا صل کر نے کے لیئے بے در یغ قر با نیا ں دی تھیں کیا وہ حا صل ہو گئیں مشہور شا عر منیر نیا ز ی کے بقو ل
ا یک اور در یا کا سا منا تھا منیر مجھ کو
میں ا س در یا سے پا ر ا ترا تو میں نے د یکھا

ا یک در یا سے دو سرے در یا میں کو د جا نا عقلمندی تھی یا کہ حماقت آج بھی لوگ اس سوال کو لے کر ا س قدر بے یقینی کا شکار ہیں کہ خدا کی پناہ اسی بے یقینی پر علامہ اقبا ل فرما گئے ہیں کہ (غلا می سے بد تر ہے بے یقینی) لہذا میں تو یہ ہی کہو ں گی
کم ہو ں گے اس بساط پر ہم جیسے بد قمار
جو چا ل ہم چلے سو نہا ئیت بر ے چلے

آ ج اس ملک کو وجو د میں آ ئے ہو ئے سڑسٹھ سال بیت چکے ہیں مگر پا کستان کی حا لت آ پکے سا منے ہے بجلی کا بحران آ ٹے کا بحران دال چا ول کا بحران سی این جی کا بحران سو ئی گیس کی قلت اور کئی ا یسے بحرا ن جو نا قا بل بیان ہیں یہ سب عوا م کی بر دا شت سے با ہر ہو تا جا رہا ہے۔ مگر حکو مت کو ئی ٹھوس اور پا ئیدار حل اس مسئلے کا تلا ش نہیں کر رہی۔

پچھلے کئی بر سو ں سے بس ٹال مٹول سے ہی کام چل ر ہا ہے بجلی کی شدید لو ڈ شیڈنگ کی و جہ سے کا ر خا نے بند ہو نے سے لو گ بے روز گار ہو ر ہے ہیں لو گ خود کشیا ں کر نے پر مجبور ہیں۔ وا لد ین ا پنے بچے فرو خت کرنے پر مجبور ہیں آٹا چا ول ،گھی،تیل،گو شت، سبز ی غر ض روز مرہ کی کو ئی شے بھی اب عوام کی د سترس میں نہ ر ہی ۔

بعض ا شیا ء جو ملک میں د ستیا ب نہیں تھیں یہا ں پیدا نہیں ہو تیں اور ملک ا نھیں درآمد کر نے پر مجبور ہے ان کی قیمتوں میں عا لمی ا تار چڑ ھاؤ کے بدو لت ا ضافہ تو سمجھ میں آ سکتا ہے لیکن وہ چیزیں جو ہما رے ہا ں پیدا ہو تی ہیں جیسے پیاز مر چیں دا لیں چا ول آ ٹا و غیرہ ان کی قیمتوں میں بلا وجہ اور بلا جواز ا ضا فہ غر یب بے کس عوام کی سمجھ سے با ہر ہے اس میں بھی سیا سی کار فر ما ئی نظر آ تی ہے۔کچھ دل جلے ا پنی بھڑاس اس طر ح سے نکا لتے ہو ئے نظر آ تے ہیں ایک ایس ایم آ پکے پیش نظر ہے۔
میرا ٹی وی ہے جا پا نی
میرا اے سی ا نگلستانی
گھر میں بجلی ہے نہ پا نی
یا رو میں ہوں پا کستانی

یہ کو ئی لطیفہ نہیں ہے جس پر ٹھٹھہ لگا لینے کے بعد آپ خوش ہو جا ئیں حقیقت میں تو یہ د نیا کے سا منے پا کستان کی تو ہین ہے حکمرا نوں پر تو جیسے سکتہ ہی طا ری ہے ان کے پاس تو قر با نیا ں دے کر گزر جا نے وا لو ں کے لئیے خرا ج تحسین کا وقت ہے ا ور نہ ہی ان سسکتے ہو ئے ا ٹھا رہ کرو ڑ ا نسا نوں پر جو پا نی کی بو ند بو ند کو ترس ر ہے ہیں بچے بھوک سے مر رہے ہیں بہنیں بے آ برو ہو ر ہیں ہیں ما ئیں ا پنے لخت جگر بیچنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔

ہر طرف سے صدا ئیں بلند ہو ر ہی ہیں کہا ں ہیں ہما ر ے ر کھوا لے کہا ں ہے وہ پا کستان جسے ا سلام کا قلعہ بننا تھا کہا ں ہے ا من کا گہوا رہ پا کستان یہ عوام کے ر کھوا لے عوام کے در میان پا نچ دس منٹ کے لیئے آ تے ہیں اور کیک کا ٹنے کی رسم کر کے چلے جا تے ہیں ان کے تو کا نو ں میں جیسے روئی ٹھو نسی ہو ئی ہو تی ہے جو کچھ سنا ئی د یتا ہے نہ د کھا ئی دیتا ہے۔اﷲتعا لی تو اپنی مخلوق پر اس قدر ظلم بر دا شت نہیں کر سکتا پھر یہ سا ری ا نسا نی محرو میا ں ہما رے ہی حصے میں کیو ں ہیں علا مہ ا قبا ل نے کیا خوب کہا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حا لت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ ا پنی حا لت کے بد لنے کا

کیا آپ نے کبھی سو چا ہے ان جا گیر داروں و ز یروں ،و ڈیر و ں کے کتو ں کی خوراک بھی تمہا ری خو راک سے لا کھ در جے بہتر ہے اور تم جیسے مجبورو محکوم ا نسانوں کو جسم کے ساتھ سا نس کا ر ستہ ا ستوار رکھنے وا لی ضرو ر یا ت ز ند گی بھی د ستیا ب نہیں-

عزیز عوام ان کی بحر کی مو جو ں میں اضطراب لا نے کے لیئے ا نھیں کسی طو فان سے آ شنا کر نا ضروری ہے ورنہ ہما رے اس محکوم اعزا ز کی بنیاد پر د نیا بھر میں ہمیں شنا خت کر نا مشکل نہ ہو گا کیا ضرو ری ہے کہ ہما ری شنا خت ا یک مجبورو محکوم کی ہی بنی رہے۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے عرض وطن
کتنی آ ہوں سے تیرا کلیجہ ٹھنڈا ہو گا

اس قدر قر با نیا ں د ینے کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں ا سلا می جمہو ر یت ق ئم ہو گی لیکن یہا ں پر تو ا لٹا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے با ر یا ں بند ھی ہو ئی ہیں اور اس چکر کے ختم ہو نے کے آ ثار دور دور تک نظر نہیں آ تے اب ا یک نظر د یکھ لیا جا ئے کہ بر صغیر کے مسلما نو ں نے پا کستان حا صل کر نے کی قیمت کیا ا دا کی ہے بر صغیر کی تقسیم کے نتیجے میں کروڑوں گھر بے روز گار ہوئے بے گھر ہوئے ۱۵لا کھ مسلمان قتل ہو ئے تقر یبا ۹۰۰۰۰ مسلمان بیٹیا ں بے آ برو کی گئیں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہما ری قیا دت کو کہ مسلما نوں کے ساتھ یہ کچھ ہو گاا گر ا ندا زہ نہیں تھا تو اس سے ز یا دہ بے بصیرت قیا دت کو ئی ہو ہی نہیں سکتی اور اگر ا ندا زہ تھا تو اس نے مسلمانوں کو اس آ فت سے نکا لنے کے لیئے کو ئی تد بیر کیو ں نہ کی ا یسی صو رت میں تسلیم کر نا پڑے گا کہ اس سے زیادہ نا اہل اور بے حمیت قیا دت کو ئی ہو ہی نہیں سکتی تھی پا کستان کے لیئے جو قیمت ادا کی گئی ہے اس قیمت پر تواگر پو را کرّہ ار ض بھی پا کستان بن رہا ہو تا تو ا یک غیر ت مند مسلمان ا سے قبول نہیں کر سکتا تھا کاش اس قیا دت کو کٹہر ے میں کھڑا کر کے پو چھا جا تا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ ہی ہے شا ہکار تیر ے ہنر کا

naila rani riasat ali
About the Author: naila rani riasat ali Read More Articles by naila rani riasat ali: 104 Articles with 150808 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.