سانحہ ماڈل ٹاون اور ……وزیر اعلی پنجاب کا بیان حلفی

سانحہ ماڈل ٹاون لاہور کی جوڈیشل انکوائری کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کے روبرو جمع کرائے گے اپنے بیان حلفی میں وزیر اعلی پنجاب جناب میاں شہباز شریف نے تسلیم کیا ہے کہ ادارہ منہاج القران کے راستے میں قائم رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے جس اجلاس میں منظوری دی گئی تھی ۔اس اجلاس کی صدارت رانا ثناء اﷲ نے کی تھی اور منظوری بھی انہوں نے ہی دی تھی۔وزیر اعلی کے بیان کے مطابق انہیں اس اجلاس کے بارے میں انکے پرنسپل سکریٹری توقیر شاہ نے بتایا تھا۔وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے بیان حلفی میں مذید کہا ہے کہ اس وقوعہ کے وقت وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقریب حلف وفاداری کے لیے گورنر ہاوس میں موجود تھے کہ اس دوران ٹیلی ویژن کے ذریعہ انہیں معلوم ہوا کہ ماڈل ٹاون میں پولیس اور ادارہ منہاج القران کے کارکن آمنے سامنے ہیں۔جس پر انہوں ( شہباز شریف ) نے پولیس کو وہاں سے فوری ہٹانے کی ہدایت کی ……گورنر ہاوس سے وہ ماڈل ٹاون گے جہاں ایک غیر ملکی وفد سے ملاقات کی تو وہاں معلوم ہوا کہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ شہباز شریف جو کہ اس وقت غیر اعلانیہ طور پر ڈپٹی پرائم منسٹر کے فرائض بھی ادا کر رہے ہیں،کے بیان سے درج ذیل سوالات جنم لیتے ہیں۔

وزیر اعلی شہباز شریف کا بیان حلفی بڑی اہمیت کا حامل ہے،اور حیران کن بھی…… یہاں سوال اٹھتا ہے اور اٹھنا بھی چاہئیے کہ وزیر اعلی اور وہ بھی شہباز شریف کے وزیر اعلٰی ہوتے ہوئے اور اوپر سے وہ لاہور میں بھی تشریف فرما ہوں…… کیا کسی صوبائی وزیر کو چاہے وہ کوئی بھی ہو رانا ثنا اﷲ ہو یا زید بکر ہو……وہ اس قدر اہمیت کے حامل فیصلہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے؟ اور فیصلہ بھی پاکستان کے دل لاہور کے دل ماڈل تاون سے متعلق ہو…… یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وزیر اعلی کے پرنسپل سکریٹری توقیر شاہ کے علم میں یہ بات تھی کہ 16جون کو ایک اجلاس ہوا ہے۔جس میں ادارہ منہاج القران کی طرف جانے والے راستوں میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو پھر توقیر شاہ اور رانا ثنا اﷲ نے انہیں اندھیرے اور لا علمی میں کیوں رکھا ؟

جب وزیر اعلی صاحب کو گورنر ہاؤس لاہور میں معلوم ہوگیا کہ لاہور میں ان کے رہائشی علاقے میں پولیس اور عوام آمنے سامنے کھڑے ہوئے ہیں ۔اور انہوں نے پولیس انتظامیہ کو وہاں سے چلے جانے کے احکامات بھی دئیے مگر ان پر عمل نہ کیا گیا بلکہ الٹا پولیس نے طاقت کا استعمال کیا جس سے ہلاکتیں ہوئیں ہیں ، اور پولیس ایکشن سے حالات مذید خراب ہو رہے ہیں۔تو اتنی سنگین صورت حال کے باوجود انہوں نے موقعہ پر پہنچنا کیونکر گوارہ نہ کیا ؟ شورش زدہ علاقے میں جانے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے موقعہ پر جانے کی بجائے انہوں نے ایک غیر ملکیوں کے وفد سے ملاقات کرنے کو کیوں ترجیح دینا پسند کیا؟اور وہ بھی ماڈل ٹاون میں ہی۔

اگر ان کے قابل اعتماد اور قابل بھروسہ پرنسپل سکریٹری توقیر شاہ نے انہیں اتنے بڑے فیصلہ سے آگاہ نہیں کیا تو انہوں نے رانا ثنا اﷲ کو تو وزارت سے ’’ کک آؤٹ‘‘ کردیا ہے لیکن وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث وہ توقیر شاہ کے خلاف کسی تادیبی کارروائی سے گریز کرتے آ رہے ہیں؟ ویسے کامن سینس کی بات ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ صوبے کے سربراہ کو اندھیرے میں رکھ کر کیا جائے۔ مجھے تو دال میں کچھ کالا کالا نظر آتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ادارہ منہاج القران کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کو وزیر اعلی خود مانیٹر کر رہے تھے؟
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144221 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.