بندر اور استرا

ملکی سیاسی صورتحال دھندلاہٹ کا شکار ہے۔ کینیڈین بابا جی ایک بار پھر انقلاب کا ڈرامہ شروع کرنا ہی چاہتے ہیں۔ عمران خان بھی انتخابی دھاندلی کے الزامات کی آڑ لے کر نظام کو تلپٹ کرنے کے لئے کمر کس چکے ہیں۔ اگرچہ ایسا ہونے کے امکانات تو بہت کم ہیں مگر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے لئے سیاسی عناصر کے علاوہ غیر سیاسی لوگ بھی سر گرم ہیں۔ ڈاکٹر ارسلان افتخار،اپنی اور اپنے والد کی ذات پر عمران خان کے حملوں کے جواب میں انہیں نا اہل قرار دلانے کے لئے آئین کی شق62، 63کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ان حالات میں،جب ملک گوں نا گوں مسائل کا شکار ہے، اس طرح کی متنازع شقوں کوالیکشن کمیشن یا عدالت کے ذریعے لاگو کرانے کی کوشش ملک کو خوفناک مسائل کے بھنور میں دھکیلنے کا باعث بن سکتی ہے۔اگر آرٹیکل62، 63کو ان کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے تو غالب امکان ہے کہ ایک بھی رکن پارلیمنٹ اپنی رکنیت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ تاریخ گواہ ہے ہر دور میں آمرانہ قوتیں جمہوری اداروں کو انگوٹھے کے نیچے رکھنے اورمن مانیاں کے لئے اس طرح کی خوفناک شقیں آئین میں داخل کرتی رہی ہیں۔یہ آرٹیکلز بھی جنرل ضیاء الحق کی گھٹا ٹوپ آمریت کی پیداوار ہیں۔ نہ جانے کیوں گزشتہ ادوار میں بننے والی حکومتوں نے پارلیمنٹ کے وجود کے لئے زہر ہلاہل کی حیثیت رکھنے والی ان شقوں کے خاتمے کے لئے آئین میں ترمیم نہیں کی حالانکہ آئینی ترامیم کے لئے ماضی میں متحارب سیاسی قوتوں کے درمیان بے مثال تعاون دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

آمرانہ دورکے قوانین اور آئینی ترامیم کا خاتمہ نہ ہونے کی وجہ شاید وہ روایتی خوف ہے جو ہر دور میں کمزور سیاسی قوتوں کو لاحق رہا ہے کہ اسلام کی سطحی تشریح کی بنیاد پر بننے والے قوانین اور شقوں کو چھیڑا گیا تو قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اس خوف کی بنیادی وجہ بھی آمرانہ قوتوں کی جانب سے اسلام کے نام پر پھیلائی جانے والی وہ انتہا پسندی ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرتی رویے برداشت کے کلچر سے نا آشنا ہو چکے ہیں اور لوگوں کی اکثریت عقل و منطق کی بات سننے کی روادار نہیں ہے۔آئین کے آرٹیکل 62، 63پر عمل درآمد کا واویلا کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آمروں کے ادوار میں بننے وا لے ڈ ریکونین قوانین نے لوگوں کی زندگیوں میں ہمیشہ زہر ہی گھولا ہے۔ ایوب خان کے ایبڈو، پروڈا، پیڈو اور اس جیسے کئی اور قوانین، ضیاء الحق کا حدود آرڈیننس اور آئین میں آرٹیکل62، 63کا 'دخول'، پرویز مشرف کارکن اسمبلی بننے کے لئے بی اے کی ڈگری کی شرط لاگو کرنا اور اس قماش کے کئی اورظالمانہ ضابطوں نے ہمیشہ ان لوگوں کا راستہ ہموار کیا ہے جنہوں نے اقتدار میں آ کرایسے ایسے گل کھلائے جن کو دیکھ کر الامان والحفیظ پڑھنے کو دل کرتا ہے۔سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست نے صالح اور پاکباز معاشرے کے قیام کے لئے کون سے ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے مستفید ہو کر ہر فرد اپنے کردار کو ان شقوں میں بیان کردہ خصوصیات کے مطابق ڈھال سکے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قعر مذلت میں ڈوبے معاشرے اوراقتدار کی ہوس میں مبتلا غیر عادل حکمرانوں کی زیر سرپرستی چلنے والی ریاستیں کبھی بھی صالح اور پاکباز قوم تشکیل نہیں دے سکتیں۔ ایسی صورت میں کینیڈین بابا جی کی طرف سے آرٹیکل62، 63کے نفاذ کا مطالبہ اور ارسلان افتخار کی طرف سے عمران خان کو نا اہل قرار دلانے کی کارروائی قرین عقل محسوس نہیں ہوتی۔

بجا کہ موجودہ جمہوری نظام جمہوریت کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں اور نہ ہی اس نظام کے تحت بننے والی حکومتوں نے پاکستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا کیا ہے مگر ایک بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ مثالی جمہوریت کی طرف جانے والا راستہ ان تمام مراحل سے گزر کر جاتا ہے جن سے پاکستان میں چلنے والی جمہوریت اس وقت گزر رہی ہے۔لہذا وہ تمام لوگ جو ہر وقت آرٹیکل 62، 63کے نفاذ کا راگ الاپتے رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ ایسے متنازع قوانین کے عمل پذیر ہونے کی ضد چھوڑ دیں جن کے بروئے کار آنے کے بعدتا قیام قیامت چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا فرد نہیں مل سکے گا جو ان ظالمانہ شقوں کی حقیقی روح پر پورا اتر سکے۔ سر راہ ایک اور سوال بھی صاحبان فہم کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے عرض کئے دیتا ہوں آرٹیکل62، 63کے نفاذ کا مطالبہ ہمیشہ ارکان پارلیمنٹ کے لئے ہی کیوں کیا جاتا ہے حالانکہ ملک کے بہت ہی اہم معاملات نوکر شاہی(انتظامیہ) کی منشاء کے مطابق انجام پاتے ہیں اور عدلیہ کو بھی تو ریاست کا بنیادی ستون تصورکیا جاتا ہے مگر ان اداروں کے حوالے سے کبھی ان شقوں کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔اگر ریاست کا انتظام و انصرام چلانے والوں کے لئے نیک، پرہیز گار،متقی، ایماندار، اسلامی تعلیمات کا مناسب علم رکھنا، اچھے کردار کا حامل ہونا، بنیادی اسلامی فرائض کا بجا لانا، گناہوں سے بچنا وغیرہ لازمی ہے تو ریاست کے باقی دونوں ستون اور ان کے ذیلی اداروں کو چلانے والے افراد کی اہلیت کو بھی ان آرٹیکلز کی روشنی میں پرکھا جانا چاہئے۔ڈاکٹرطاہرالقادری جن اداروں کے کندھوں پربیٹھ کرہردور میں اقتدار کی غلام گردشوں کی سیرکرنے کے خواہشمند رہے ہیں انہوں نے ان اداروں کے لئے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا حالانکہ یہ لوگ پاکستان کی آدھی زندگی کو بن بلائے مہمان بن کر بسر کر چکے ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری قابل احترام شخصیت ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد دو سالہ زبان بندی کے عرصے سے گزر رہے ہیں اسی لئے عمران خان کو ان کے خلاف الزام تراشی سے گریز کرنا چاہئے ۔جہاں تک معاملہ ارسلان افتخار کا ہے وہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے لوگوں کی طرف سے ان پر اور اپنے والد پر عائد کردہ الزامات کی وجہ سے انتہائی غم و غصے میں ہیں جو کہ فطری بات ہے۔ وہ یقینی طور پر تحریک انصاف کے سربراہ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں حق بجانب ہیں مگر جس بات کو بنیاد بنا کروہ عمران خان کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرانا چاہتے ہیں وہ انتہائی خوفناک پنڈورہ باکس کھولنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک دفعہ ارکان اسمبلی کو ان مردہ شقوں کے تحت نا اہل قرار دلانے کی غلط ریت پڑ گئی تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ ارسلان افتخار کو یہ بھی سوچنا چاہئے جن غیر جمہوری قوتوں کے سامنے حرف انکار بلند کر کے ان کے والد نے ہیرو کا درجہ حاصل کیا تھا ان کا یہ عمل ان قوتوں کے عزائم کی تکمیل کے لئے سنگ میل بن سکتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 62، 63کی بنیاد پر انقلاب کا نعرہ لگانے والے حضرت شیخ الاسلام کا معاملہ مختلف ہے ۔ ان کے واویلا کرنے سے ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے جس سے پارلیمنٹ کی توقیر پر کوئی حرف آتا ہو۔ اگر ڈاکٹر ارسلان کی عمران خان کے خلاف کارروائی کی بنیاد پر ان شقوں پر عمل در آمد شروع ہو گیا تو یہ بندرکے ہاتھ میں استرا دینے کے مترادف ہو گااور اگربندر کے ہاتھ میں ایک مرتبہ استراآگیا تو پھر کوئی بھی اس استرے کی تیز دھار سے نہیں بچ سکے گا حتیٰ کہ وہ بھی جو استرے کو بندر کے ہاتھ میں دینے کی غلطی کاارتکاب کریں گے۔
Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 7298 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.