شام اور عراق تشدد: ایک تجزیاتی تحریر

مصر سے شام: مصر میں اخوان المسلمین کے صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد عبدالفتاح السیسی نے حکومتی سطح پر اخوانیوں اور باغیوں کو کچلنے کی مہم شروع کردی۔ اخوان کے کئی اہم افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ باغیوں کو بھی انتہائی فوجی کارروائیوں کے ذریعے دوبارہ اُبھرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔نتیجتاً عرب بہاریہ یا عرب انقلاب کے خوب صورت نعرے میں اسلامی ممالک پر جو سیاسی و معاشی بحران کے سائے منڈلارہے ہیں وہ کم از کم مصر سے چھٹ گئے اور اس باغیانہ روش نے شام میں سرد پڑرہی بغاوت میں دوبارہ شدت پیدا کردی۔شامی حکومت کے خلاف باغیوں نے تحریک تیز کردی۔امریکی ہتھیاروں سے مسلح باغیوں نے شام کو تاراج کرنا شروع کردیا۔ اولیائے کرام کے مزارات بموں سے مسمار کئے۔ شامی علمائے اہلِ سُنت کو شہید کیا اور ان سب دہشت گردی اور جرائم کا الزام میڈیا کے ذریعے شامی فوج کے سر ڈال دیا گیا۔ اس دوران شام میں صدارتی انتخاب ہوا جس میں بشارالاسد کا پھر اقتدار پر قبضہ ہوگیا۔دوبارہ عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد شامی صدر بشار الاسد نے بھی السیسی کی طرح انتہائی قدم اُٹھائے تو اس شورش نے عراق کا رُخ کرلیا۔

عراق میں شورش: عرب کے مردِ مجاہد صدام حسین کی شہادت کے بعد عراق میں امریکی کٹھ پُتلی حکومت کے وزیرِ اعظم نوری المالکی کے خلاف عام ناراضی تھی ۔عوام معاشی و سیاسی بحران اور بے روزگاری سے تنگ آچکے تھے اور دوسری طرف صدام حسین کے باقی ماندہ فوجیوں میں بھی امریکا حمایتی حکومت کے خلاف بغاوت کی چنگاری سُلگ رہی تھی۔ صدام حسین کی معزولی کے بعد سے ہی عراق شدید خانہ جنگی میں مبتلا ہوگیا تھا۔ امریکی اتحادی فوج کے خلاف وقتاً فوقتاً سرگرمیاں جاری تھی۔ مگر عراقی باشندوں اور صدام کی فوج امریکی اشاروں پر ناچنے والی نوری المالکی حکومت پربڑی قوت و شدت کے ساتھ حاوی ہونا چاہتے تھے۔

داعش(ISIS) کا وجود:دشمن کادشمن دوست ہوتا ہے۔شام کے باغیوں نے جب بشارالاسد کی فوجی کارروائیوں کی تاب نہ لاکر عراق کا رُخ کرنا شروع کیا تو عراقی باشندے اور صدام کی فوج نے ان کا استقبال کیا۔چوں کہ شامی باغیوں نے بشار کے خلاف مغرب پرستی کا الزام لگا کر بغاوت کی تھی ان کے اس وقت کے معلنہ عزائم میں سب سے نمایاں یہی عزم تھا کہ عرب ممالک کو مغرب یا صہیونی ممالک کے عمل دخل سے آزاد کیا جائے……عراق میں نوری المالکی کے مخالفین نے شامی باغیوں کی حمایت کردی۔اور اس حمایت کو میڈیا نے یہ کہہ کر پروپیگنڈا کیا کہ عراقی فوج نے شامی مجاہدین کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔مگر حقیقت یہ ہیکہ عراقی عوام اور صدام کی فوج جو عراقی فوج کے خلاف تھے انہوں نے باغیوں کی حمایت عراقی حکومت کے خلاف کی تھی۔شامی باغیوں نے اب بھی شام کے کچھ سرحدی علاقوں کو اپنے زیرِ تسلط رکھا ہے اور اب ان کا ہدف اس تسلط کو مزید وسیع کرتے ہوئے شام و عراق میں مشترکہ (اپنے نظریہ کے مطابق) اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس طرح ’’ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ (داعشISIS) کا وجود عمل میں آیا۔

داعش کے کارنامے: شامی سرحد اور اس سے متصل عراق کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد داعش نے باقاعدہ اپنی حکومت کو خلافتِ اسلامیہ قرار دے کر اپنے سرغنہ ابو بکرالبغدادی کو خلیفہ بنادیا اور پوری دنیا کو اپنی اطاعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔ طاقت اور اقتدار کے نشے میں چُور ان شدت پسندوں کی اصلیت اس وقت سامنے آنے لگی جب انہوں نے مزاراتِ انبیاء و اولیاء کو مسمار کرنا شروع کردیا۔ داعش کے قیام سے پہلے بھی ان باغیانہ افکار و خیالات والے تکفیری دہشت گردوں نے مصر، لیبیا اور شام میں متعدد اور مشاہیر بزرگانِ دین کے مزارات کی بے حرمتی کی۔سیکڑوں علما و مشائخِ اہلِ سُنّت اور ہزاروں مسلمانوں کی شہادت کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔مصر اور لیبیا میں شورش کے دوران ان باغیوں نے جب مزاراتِ صحابہ و اولیاء پر بم اور میزائل داغنے شروع کیے تو مصر کے مفتیِ اعظم شیخ علی جمعہ اور متعدد علمائے ازہر نے ان بد بختانہ کارروائیوں کے خلاف باقاعدہ فتوے صادر کیے اور مزاراتِ صحابہ و اولیاکے تحفظ کو مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دیا۔مگر اسلام کی حقیقی روح سے بے بہرہ ان شدت پسندوں نے اپنی سفاکی اور درندگی جاری رکھی۔یہاں تک کہ عراق میں داعش کے قیام کے پہلے ہی ہفتے میں اﷲ کے نبی حضرت یونس علیہ السلام کے مزارِمبارک کو بلڈوزرکے ذریعے مسمار کردیا گیا، کہا جاتا ہے کہ سید الاولیا حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اﷲ کے مزار کی بھی بے حرمتی کی گئی۔ اسی طرح کئی اکابر اولیاے اسلام کے مزارات کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ جب یہ دہشت گرد ٹولہ جس ملکِ شام میں مزارات کی بے حرمتی کرکے امریکہ و یہود نوازی کا ثبوت دے رہا تھااسی ملک کے مشہور شہر دمشق کے مشہور ’’صوفی قبرستان‘‘ میں تصوف اور صوفیہ کے شدید مخالف شدت پسند وہابی فرقے کے امام شیخ ابنِ تیمیہ اور ان کے شاگرد ابنِ کثیر کے پختہ بنے ہوئے مزارات انہیں نظر نہیں آئے یا ان دہشت گردوں کو ان کی مسلکی و فکری ’’عقیدت‘‘ نے ان کے ’’آستانوں‘‘ پر چڑھائی کرنے کی اجازت نہیں دی……!!!

میڈیا کاکارنامہ: مصر میں تحریر اسکوئر سے شروع ہونے والے ’’عرب بہاریہ‘‘ یا ’’انقلابِ عرب‘‘ کے ساتھ ہی پوری دنیا میں یہودی اور سعودی نوازالیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں اس انقلاب سے متاثرممالک سے متعلق مختلف اور عجیب و غریب خبریں آنے لگیں۔ مگر تما م خبروں میں اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا کہ انقلاب کے زیرِ اثر ممالک کی فوجیں باغیوں کے خلاف کیمیائی اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرکے باغیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے باشندوں کا بھی قتل عام کررہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہودی نواز میڈیا نے ان وہابی دہشت گردوں کی حمایت کا یہاں تک حق ادا کیا کہ بزرگانِ دین کے مزارات کی بے حرمتی کا الزام بھی مصر،لیبیا، شام اور عراق کی فوجوں کے سرڈال دیا۔ وہ تو بھلا ہو یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے عزائم کو عام کرنے اور دنیا پر اپنا رعب جمانے کے لیے ان دہشت گردوں نے جو ویڈیوز اور پیغامات اَپ لوڈ کیے ان سے یہودی میڈیا کی مکاری اور ان دہشت گردوں کی بے وقوفی اُجاگر ہوگئی کہ یہودی میڈیا ان کے گناہوں کا الزام ان کے دشمنوں کے سر ڈال رہا تھا اور یہ بے وقوف خود اقرارِ جرم ہی نہیں ثبوت بھی فراہم کررہے تھے۔اسی طرح العربیہ ٹی وی ڈاٹ نیٹ ، الجزیرہ اور مصر و شام کی سرکاری ویب سائٹس کے ذریعے اصل اور مستند خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔

میڈیا کے کارناموں کے سیاہ باب کا ایک ورق یہ بھی ہے کہ شہید صدام حسین اور معمر قذافی مرحوم کی شخصیات کو غلط پروپیگنڈوں کے ذریعے مسخ کرکے پیش کیا گیا۔بلا شبہہ یہ بات درست ہے کہ دونوں کی طبیعت اقتدار کے ابتدائی دور میں رنگین مزاج اور آمرانہ تھی۔ مگر وقت اور حالات نے انہیں اسلام اور مسلمانوں کے لیے اُٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کردیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ صدام حسین نے جب مسلم مسائل کی جانب توجہ دینی شروع کی، عرب قومیت کے مزعومہ خَول سے نکل کر ’’قومیتِ اسلام‘‘ اور اﷲ کے نام پر حلف لینا شروع کیا تو ایک امریکی اخبار نے صدام حسین کے بارے میں لکھا تھا"He is telling like a Molvi"(وہ ایک مولوی کی طرح بات کرنے لگا ہے)…… صدام حسین کے اس بدلے ہوئے مزاج اور عزم نے صہیونیوں کی نیندیں حرام کردی تھی انہیں خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر عرب قومیت کے خَول میں جکڑے عرب حکمرانوں کی حمیتِ دینی صدام حسین کی طرح بے دار ہوگئی تو وہ دن دور نہیں جب اسرائیل کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اسی لیے میڈیا میں صدام حسین کو ایک ڈکٹیٹر اور ظالم وعیاش حکمراں بتایا جانے لگااور کیمیائی ہتھیار کو بہانا بناکر عراق کو تاراج کردیا گیا اور عالمِ اسلام میں نئے جوش اور عزمِ آہنی لے کراُبھرنے والے ایک لیڈر کو شہید کردیا گیا۔پھر بھی یہ معمہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ہے کہ آخر ایک عیاش بادشاہ کیمیائی ہتھیار سے اسرائیل پر حملہ کیوں کرے گا؟؟؟

جب تک کسی ملک کا لیڈر دنیا اور مغرب کے طرز پر سوچے اور عمل کرے تو وہ دنیا کا اچھا لیڈر تصور کیا جاتا ہے اور جہاں سے اس نے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں صدائیں بلند کرنی شروع کی اس سے ’’شرافت‘‘اور ’’امن پسندی‘‘ کا سرٹیفیکٹ چھین لیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوا لیبیا کے صدر معمر قذافی کے ساتھ۔ اس کی پوری زندگی جس عیش و طرب میں گزری اس کی الگ داستان ہے۔ مگر جب اس بے باک لیڈر نے اقوامِ متحدہ میں اپنی پہل فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں کی تو یہود نواز ممالک کے نمائندوں نے اقوامِ متحدہ سے واک آؤٹ کردیا ۔ اور وہی تقریر قذافی کی اقوامِ متحدہ میں آخری تقریر بن گئی اور اس کی پُر سکون زندگی کا تتمہ بھی۔اب اس کے خلاف میڈیا میدان میں آیا۔ کیا اردو اور کیا غیر اردو ہرطرح کے میڈیا نے اسے ایک بد مزاج ، ظالم اور عیاش حکمراں کے طور پر پیش کیا۔ اس کی حکومت کی آمریت کو تو سامنے لایا گیا مگر اقوامِ متحدہ کی طرف سے لیبیا پر جو بے شمار سماجی و معاشی پابندیاں لگائی گئی تھیں اس تعلق سے کسی نے بھی کچھ بتانے کی زحمت گوارہ نہ کی۔

لیبیا کے معاشی و سیاسی بحران کو بہانہ بناکر دہشت گردوں نے ’’جہاد‘‘ کے نام پر بغاوت کردی اوران سرپھروں کی مکمل حمایت میڈیا نے کی۔ مگر ان عاقبت نہ اندیشوں کو شایدیہ بھی نہیں پتا کہ جہاد مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ کفار و مشرکین کے خلاف کچھ شرائط کے پائے جانے کے بعد مخصوص جنگی و جہادی پابندیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔لیکن جہاد کے نام پر جو جنگی و شرعی جرائم کا رتکاب کرکے اسلامی عبادت ( جہاد) کی غلط تصویر ان دہشت گردوں نے پیش کی اس جرم میں عالمی میڈیا بھی ان کے ساتھ برابر شریک ہے۔

مغرب کی خاموش حمایت کیوں؟: مغربی ممالک بالخصوص امریکہ دنیا میں قتل و غارت گری کا مجرم اور دہشت گرد ہے۔مگر ان کی دہشت گردی قیامِ امن یا دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہوتی ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے جسے اب ہر ذی شعور سمجھنے لگا ہے۔لیکن ایک اور غور طلب بات ہے کہ امریکی چودھراہٹ کا معیار اور نکتۂ نظر کیا ہے؟ یقینا ان کا مقصد اسلامی دنیا کا امن و سکون برباد کرنا اور انہیں خانہ جنگی میں مبتلا رکھنا ہی ہے تاکہ اسلامی دنیا کی شیرازہ بندی نہ ہو اور اسرائیل ہر طرح کے خطروں سے محفوظ رہے۔ یہی طریقہ انہوں نے افغانستان میں اپنایا۔افغانستان میں روس کو شکست دے کر اسلامی نظام قائم کرنے والے اکثرمجاہدین شیخ حقانی نقشبندی کے سلسلۂ مریدین سے تھے، وہ صوفی ازم کے پیروکار مسلمان تھے۔ انہیں ختم کرنے کے لیے افغانستان میں پاکستانی وہابی طالبان کی امداد امریکہ نے کی۔ اس بات کا اعتراف امریکی وزیر ہیلری کلنٹن نے ایک مقام میں خود کیا ہے جس کی ویڈیو کلپ ہم نے خوددیکھی ہے۔پھر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کا بہانہ بناکرطالبان اور القاعدہ کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا۔ (انہیں اس سے غرض نہیں کہ افغانستان میں طالبان کیا کررہے تھے بلکہ انہیں اپنے سینٹر پر حملے کا بدلہ لینا تھا یا دوسرے لفظوں میں سینٹر کی تباہی سے جو نقصان ہوا اس سے کئی زیادہ منافع افغانستان میں موجود معدنیات اور جڑی بوٹیوں سے حاصل کرنا تھا۔ اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔حالیہ خبروں کے مطابق امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے جو بیٹری کی پاور بڑھانے کے لیے وہ اشیاء مہیا کرواتا ہے جس کا سب سے بڑا خزانہ افغانستان میں ہے۔ )

افغانستان کو تاراج کرکے افغانیوں کو طالبان کے بھروسے چھوڑکر امریکہ اپنی فوج واپس بلا رہا ہے۔اگر امریکہ کا مقصد افغانستان کو طالبان کے مظالم سے پاک کرنا تھا تو اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا؟ افغانستان اور پاکستانی سرحد میں طالبان کے ذریعے مساجد اور درگاہوں پر جو خود کش حملے ہوئے اس کی ذمہ داری بھی طالبان کے ساتھ امریکہ کے سر جاتی ہے۔اسی طرح مصر ، لیبیا، شام اور عراق میں انقلاب کے نام پر باغیوں نے جو قتل و غارت گری مچا رکھی ہے اس پر مغرب کی خاموش حمایت کئی طرح کے سوالات قائم کرتی ہے۔

شوشل میڈیا کے دور میں ضمیر فروش میڈیا کی قلعی کُھل رہی ہے۔ جہاں میڈیا عرب ممالک میں شورش برپا کرنے والوں کو بے یار و مددگار، مظلوم اور نِہتّے بنا کر پیش کررہا ہے وہیں شوشل میڈیا ان شدت پسند باغیوں کی درندہ صفت اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ٹیموں کودکھا کر مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش کو بے نقاب کررہا ہے۔اب تو یہ خبریں بھی تصدیق کے ساتھ آرہی ہیں کہ شام و عراق میں مسلمانوں کو بے دریغ قتل کرنے والے نام نہاد مجاہدین کو جدید ترین کیمیائی ہتھیار امریکہ نے مہیاکروائے۔ جب کہ امریکی لیڈران کی طرف سے وضاحت آئی کہ مذکورہ ہتھیار امریکہ نے سعودی عرب کو فروخت کیے تھے۔ کیا مطلب شام و عراق میں ان تکفیری دہشت گردوں کو ہتھیار سعودی کے ذریعے امریکہ سپلائے کر رہاہے۔

داعش کا سربراہ :شروع سے اب تک میڈیا داعش کو ’’سُنّی جنگجو‘‘ بتا رہا ہے۔اور عراق میں تشدد کو شیعہ سُنی کا نام دے کر دنیا کو گمراہ کر رہا ہے۔لیکن جیسے جیسے خبریں آرہی ہیں حقیقت بے نقاب ہورہی ہے۔ جب عراق کے شہر موصل پر داعش نے صدام حسین کے فوجیوں کی مدد سے قبضہ کیا تو موصل کی جس جامع مسجد سے نام نہاد خلیفہ نے اپنا پہلا ویڈیوپیغام نشر کیا اسی جامع مسجد کے سُنّی امام جو کہ ایک عالمِ دین بھی تھے انہیں شہید کرنے کے بعد ابوبکر البغدادی نے اس مسجد پر قبضہ کیا تھا۔ اکیس منٹ کے اپنے پہلے ویڈیومیں البغدادی کے خطبۂ جمعہ اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی کو بھی بتایا گیا جس میں ہم یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ اس نے نماز میں ہاتھ سینے پر باندھا تھا، سورۂ فاتحہ کے بعد آمین بالجہر کہا اور رفع الیدین کیا۔یعنی مکمل سلفی وہابی طریقے پر نماز پڑھی۔اس ویڈیو میں البغدادی نے جو گھڑی پہن رکھی تھی اس نے بہت سارے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔مغربی بانڈ کمپنی کی قیمتی گھڑی نے مغرب سے بر سرِ پیکار جنگوؤں کے سربراہ کے تعلق سے کئی سوالات کھڑے کردیے۔اسی دوران انکشافات کرنے والی دنیا کی سب سے معروف و مشہور ویب سائٹ وِکی لیکس نے انکشاف بھی کردیا کہ داعش کاسرغنہ ابوبکر البغدادی یہودیوں کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کا تربیت یافتہ ہے۔

وکی لیکس کے انکشاف کے بعد اور اپنے اقتدار کے پہلے ہفتے میں داعش کے ذریعے تین سَو سے زائد سُنّی علما و مشائخ کو شہید کیے جانے اور مزارات کی بے حرمتی کی وجہ سے صدام حسین کی فوج’’نقشبندی آرمی‘‘ کے سربراہ شیخ ابراہیم الدوری نے داعش کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کااعلان کردیا۔داعش کی جانب سے یرغمال کی گئیں ہندستانی نرسوں کو صدام حسین کی فوج نے بحفاظت آزاد کیا۔( مگر میڈیا اور ان نرسوں نے انہیں داعش کے جنگجو بتایا)۔اِدھرایران اور سعودی عرب نے بھی اپنی سرحدوں پر پہرا بڑھا دیا۔مصر میں اخوان المسلمون کی اکثر حمایت کرنے والے سلفی علما بالخصوص مشہور غیر مقلد اسکالرشیخ یوسف القرضاوی نے بھی داعش کے خلاف بیان دے دیا۔ نتیجتاً شام و عراق میں داعش کے خلاف چوطرفہ محاذ کُھلا ہے۔اور یہ تکفیری دہشت گرد امریکی ہتھیاروں کی مدد سے اسلامی ممالک میں خونِ مسلم کی ہولی کھیل رہے ہیں۔

موجودہ حالات اور غزہ: اِدھراسلامی ممالک خانہ جنگی میں مبتلا ہیں اور اُدھر اسرائیل نے نہتّے فلسطینیوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کوئی نئی نہیں ہے بلکہ گزشتہ نصف صدی سے وقتاً فوقتاً جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور حقوقِ انسانیت کے نام نہاد علم بردار خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں جس انداز میں فلسطینیوں پر حملہ کیا جارہا ہے شاید ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔فلسطین کی غزہ پٹی جہاں ایک ہزار مربع کلومیٹر پر پانچ ہزار سے زائد افراد آباد ہیں وہاں اسرائیلی بمبار طیارے مسلسل ایک عشرے سے دن رات آگ برسا رہے ہیں۔ تین سو سے زائد فلسطینیوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور ہزاروں زخمی ہیں، مالی نقصان کا ندازہ نہیں کیا جاسکتا۔اس مرتبہ اسرائیل عام فلسطینیوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ اکثر بچے شہید ہورہے ہیں۔ماؤں کی گود اُجڑ رہی ہے، باپ اپنے بُڑھاپے کے سہاروں سے محروم ہورہے ہیں، بہنیں اپنے بھائیوں اور بھائی اپنی بہنوں سے محروم ہورہے ہیں۔ مگر اہلِ غزہ کو اپنے پیاروں کے جُدا ہونے سے زیادہ ’’فلسطین کے وارثوں ‘‘کو کھونے کا دُکھ ہے۔کیوں کہ اس مرتبہ اسرائیلی جارحیت کا مقصد فلسطین کی کوکھ کو اُجاڑنا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذریعے مستقبل کی مزاحمت کو کم زور کرنا اور غزہ کے ساتھ فلسطین کو کچل کر ’’عظیم اسرائیل ( The Greater Israel)‘‘ کے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہے۔

اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم ممالک کو خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا ہے اور موقع پاکر فلسطین پر حملہ کیا گیا ۔ فضائی حملہ تو نصف صدی سے کیا جاتا رہا ہے مگر اس مرتبہ زمینی چڑھائی اسرائیل کے ناپاک عزائم کی طرف پیش قدمی کا اشارہ دے رہی ہے۔فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت اور درندگی کے خلاف اقوامِ عالم کیوں آواز نہیں اُٹھارہے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ صہیونی عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ مگر مسلم بالخصوص عرب ممالک کی خاموشی یقینا قابلِ مذمت بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔

عرب ممالک کے سربراہان اگر یہ سوچ کر فلسطین کے حق کی بات نہیں کررہے ہیں کہ یہ فلسطینیوں کا مسئلہ ہے ہمارے ملک کا نہیں تو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسرائیل کے ’’عظیم اسرائیل‘‘ کے منصوبہ کے مجوزہ نقشے میں صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ متعدد عرب ممالک کے ساتھ ساتھ حجازِ مقدس بھی شامل ہے۔اگر اسرائیل نے اہلِ غزہ کو شکست دے دی تو وہ آگے بڑھے گا اور دوسرے اسلامی ملکوں پر چڑھائی کرے گا۔آج نہیں تو کل دیگر عرب ممالک کی بھی باری آئے گی مگر پہلے غزہ کا معرکہ انہیں سَر کرنا پڑے گا۔جس کے لیے نصف صدی سے اسرائیل کوشش میں ہے مگر ہم سلامِ تہنیت و عقیدت پیش کرتے ہیں غزہ کے شہیدوں اورمجاہدین کو کہ انہوں نے اسرائیلی ناپاک عزائم کے سامنے اپنی قربانیوں، ایثار اور اخلاص کی سیسہ پلائی ہوئی نا قابلِ تسخیر دیوار کھڑی کررکھی ہے جسے گِرانا یا عبور کرنا اب تک صہیونی درندوں کو نصیب نہیں ہوا۔ اﷲ آپ کو اس کا بہترین صلہ دے، آپ کے حوصلوں کو مہمیزدے، قوت و شوکت میں برکت دے ، پردۂ غیب سے آپ کی امداد و اعانت کرے اور آپ کے عزم و حوصلہ، ایثار و قربانی اور اخلا ص سے کچھ حصہ خوابِ غفلت میں پڑے عربوں کو عطاکرے تاکہ ارضِ مقدس کی آزادی و بازیابی کے لیے قوم ایک جُٹ ہوجائے۔آمین ! بجاہٖ سیدالمرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
ایک بار ارضِ مقدس سے فلسطین میں آ
راستہ تکتی ہے پھر مسجدِ اقصیٰ تیرا
 
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 122327 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.