لازم ہے قیدی رہا ہوں

 جب بھی کوئی حکمران کسی دوسرے علاقے پر چڑھائی کرتا ہے تو فتح کے بعد جو بھی مال اس کے ہاتھ آتا، اسے مال غنیمت کہتے تھے ۔ اسلام میں غنیمت کے مال کو حاصل کرنے اور پھر تقسیم کرنے کے بھی اصول بتائے گئے ہیں ۔ ان مالِ غنیمت میں اسلحہ ، دولت اور قیدی بھی ہوتے تھے۔جن میں مردوں کو غلام اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیا جاتا یا پھر فروخت کردیا جاتا۔

جنگ مریسیع میں بنو مصطلق کو شکست ہوئی تو مسلمانوں کو مال غنیمت میں دو ہزار اونٹ ، پانچ ہزار بکریاں اور چھ سو قیدی ملے ، جن میں حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالی عنہا بھی تھیں اور مال غنیمت کی تقسیم میں آپ ایک انصاری ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں ، جنھوں نے اس شرط پر آپ کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا کہ آپ کچھ رقم ادا کریں۔آپ کی پہلی شادی اپنے قبیلے کے ایک نوجوان مسافح بن صفوان سے ہوئی تھی جو مسلمانوں اور بنی مصطلق کے درمیان جنگ میں مارے گئے اور حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالی عنہا کنیز (قیدی) بنا لی گئیں ، اسیری میں ہی حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالہ عنہا ، آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے امداد کی درخواست کی ، حضور ﷺ نے رقم ادا کردی اور آپ سے نکاح کیلئے کہا ۔ آپ نے منظور کرلیا اور ۵ ھ (۶۲۶ ء) میں آپ ، رسول ﷺ کی عقد میں آگئیں ، رسول اﷲ ﷺ نے آپ کا نام برہ سے تبدیل کرکے جویریہ رضی اﷲ تعالی عنہا رکھا۔جب حضور ﷺ نے آپ رضی اﷲ تعالی عنہا سے نکاح کرلیا تو دیگر صحابہ اکرام رضوان اﷲ اجمعین، جن کے تسلط میں بنی مصطلق کے دیگر اسیران تھے انہوں نے محض اس وجہ سے ان کو آزاد کردیا کہ اب یہ قبیلے والے حضور ﷺ کے سسرالی ہیں اور ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ان کو غلام اور لونڈی( قیدی) بنا کر رکھیں۔

تاریخ اسلام میں شہر بانو کا بھی ذکر ملتا ہے ، شہر بانو ایک ایرانی قیدی لڑکی تھیں ، یہ ایران کے بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں ۔ خلیفہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے دور میں عربوں کیساتھ جنگوں میں یہ قیدی ہوگئی تھیں۔ مال غنیمت اور قیدیوں کے ساتھ انھیں ایران سے مدینہ لایا گیا ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کے مشورہ سے ان کے احترام کو قائم رکھا اور انھیں حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کے بیٹے امام حسین رضی اﷲ تعالی عنہ کو دے دیا گیا جنہوں نے ان سے شادی کرلی اور ان کی کوکھ سے امام زین العابدین پیدا ہوئے۔ بعض روایات کیمطابق اس شادی میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالی عنہ نے شادی کروانے میں اہم کردار ادا کیا -

جنگوں میں گرفتار افراد کو جنگی قیدی کہا جاتا ہے ۔بکہ سیاسی قیدی ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جسے جیل میں صرف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں ڈالا گیا ہو یا محبوس کیا گیا ہو۔عام طور پر ضلعی عدالتیں ، ملزمان کو کچھ دنوں کیلئے جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھیجتی ہیں لیکن یہ کچھ دن بعض اوقات سالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہی ہوتا۔ ہمارے یہاں ایک اصطلاح لاپتہ افراد کی بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جنھیں بھوت قیدی بھی کہا جاتا ہے۔، مختلف حکومتیں ، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ایسے افراد کو اپنی تحویل میں رکھتی ہیں جن کے گرفتاری سے متعلق اقرار نہیں کیا جاتا اور یہ نہیں بتایا جاتا کہ ایسے قیدی کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں ۔ جبکہ مطلوب افراد کے رشتے داروں کو بھی حراست میں لیا جاتا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھوت قیدیوں میں غیر قانونی طور پر پکڑے جانیوالے معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔جیسے خالد شیخ جوامریکہ کے مطابق دہشت گردی کے منصوبہ ساز کے طور پر امریکی قیدی بنے تو ان کے دو بچے جن کی عمر سات اور نو برس تھی ، انھیں بھی امریکی حراست میں اس لئے لیا گیا تاکہ ان کے حوالے سے خالد شیخ پر تفتیش کے دوران دباؤ ڈالا جائے۔ ویسے یہ عمل ہماری پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کرتے ہیں۔

معروف مفسر امام محمد المالکی القرطبی ، تفسیر قرطبی کی جلد ۵ میں فرماتے ہیں کہ"مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں کو رہا کراوئیں ، خواہ وہ قتال کے ذریعے ہو یا مال و دولت خرچ کرنے کے ذریعے ، پھر اس کیلئے مال خرچ کرنا زیادہ واجب ہے کیونکہ اموال ، جانوں سے کمتر نہیں۔"

دوسری جگہ تحریر میں فرماتے ہیں ْہمارے علماء کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو رہا کروانا واجب ہے اگرچہ ایک درہم بھی باقی نہ بچے، علامہ ان خویز مند ادر فرماتے ہیں کہ قیدیوں کو چھڑانا واجب ہے۔ اس سلسلے میں کئی آثار منقول ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خود قیدی چھڑائے اور مسلمانوں کو قیدی چھڑوانے کا حکم دیا۔ مسلمان ہمیشہ اسی پر عمل کرتے رہے ہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے ۔ بیت المال سے قیدیوں کا فدیہ دیکر ان کو رہا کروانا واجب ہے ۔ اگر بیت المال نہ ہو تو یہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔ البتہ کچھ لوگ اس فرض کو پورا کرلیں گے تو باقی لوگ گناہ سے بچ جائیں گے۔(تفسیر قرطبی، جلد دوئم)

صحیح بخاری شریف میں حدیث نمبر ۴۳۷۳ میں ہے کہ "حضرت ابو موسی اشعری رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ، بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو رہا کراؤ۔"

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ"قیدیوں کو چھڑانا بڑے واجبات میں سے ہے اور اس سلسلے میں وقف شدہ اور دیگر مال کو خرچ کرنا بہترین نیکیوں میں سے ہے۔(فتاوی ابن تیمیہ ۲۸./۶۳۵)۔اس مرحلے پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مختلف جرائم میں گرفتار ، ملزموں کو قید سے چھڑانا ، کہاں کا انصاف ہے ۔ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں لاتعداد ایسے قیدی موجود ہیں جو اپنے جرم کی سزا تو کاٹ چکے ہیں لیکن معمولی جرمانوں یا دیت کی رقم نہ ہونے سبب ، رہائی نہیں پاتے ۔ پاکستان میں مخصوص تہواروں میں سنگین جرائم کے بجائے معمولی جرائم کے نوعیت کے ملزمان کو معافیاں بھی دیں جاتیں ہیں جن میں جیل سپریٹنڈنٹ، آجی جیل جیل خانہ جات کے پاس بھی ایک ماہ کی معافی اختیار ہوتاہے لیکن گزشتہ سال سے اب تک کسی بھی تہوار بشمول عیدین، یوم آزادی ، سمیت خاص ایام میں سزا یافتہ قیدیوں کو معافیاں نہیں دیں گئیں جس کے سبب بھی سینکڑوں قیدی اسیر ہیں۔ ماہ رمضان میں زکوۃ کے مد میں ایسے قیدیوں کو بھی رہا کروایا جاسکتا ہے جو صرف معمولی جرمانوں کی عدم ادائیگی کے سبب جیل میں قید اپنے اہل خانہ ، بال بچوں سے دور ہیں۔عمومی طور پر ایسے قیدی ناکردہ گناہ میں بے گناہ گرفتار ہوتے ہیں اور معمولی نوعیت کے ان مقدمات میں قبول داری کرکے جلد از جلد گھر جانا چاہتے ہیں۔صاحب حیثیت افراد قیدیوں کو رہا کروانے کیلئے جیل حکام سے براہ راست بھی رابطہ کرسکتے ہیں اور کسی کی معاونت کے بغیر اﷲ تعالی کی رضا کیلئے اس اہم کام کو سر انجام دے سکتے ہیں۔

ان کے اس عمل سے ایسے قیدیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو استطاعت نہ رکھنے کے سبب طویل عرصے سے قید ہوتے ہیں اور صلہ رحمی کے نتیجے میں رہائی کے بعد معاشرے کا اہم حصہ بن کر ، اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر کسی قسم کا ردعمل نہیں کرتے اور دوبارہ جرم کے راستے پر گامزن نہیں ہوتے ۔ کیونکہ یہی دیکھاجاتا ہے کہ جب معاشرہ ایسے افراد کو قبول نہیں کرتا تو ، ردعمل اور مایوسی کے دور میں اس کا رجحان جرائم کی جانب ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک ، پر نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوکر معاشرے میں مزید بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔اگر ان کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے ، اور حکومت ، جیل مینوئل اور آئین کے تحت دئیے اختیارات کی بنیاد پر مخصوص قیدیوں کیلئے معافی کا اعلان کریں اور ایسے قیدیوں کو بیت المال کے ذریعے جرمانہ ادا کرکے رہا کروائیں تو یقینی طور پر اس کے نتائج معاشرے میں مثبت نکلیں گے۔

ماہ رمضان تو ویسے ہی نیکی کمانے کا مہینہ ہے ، اس میں خاص طور پر مرد ، عورت ، بچے قیدیوں کی آزادی کیلئے کام کرکے سرخرو ہوا جاسکتا ہے اور بکھرے ہوئے خاندانوں میں خوشیاں لوٹائی جاسکتی ہیں حکومت بھی قانون کے مطابق قیدیوں کو رہائی دے
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661634 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.