زکاۃ : قرآن واحادیث کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِم فِعْلَ الخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئَ الزَّکٰوۃِ وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ۝۷۳ (انبیا)
ترجمہ: ہم نے انبیاومرسلین کونیک اعمال کرنے ، نماز قائم کرنے اور زکاۃ اداکرنے کا حکم دیااوروہ ہماری ہی عبادت کرنے والے تھے ۔
اورحضرت اسمٰعیل علیہ الصلاۃ والسلام کاذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
وَکَانَ یَأْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِندَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا۝۵۵ (مریم )
ترجمہ:وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور اپنے رب کے نزدیک محبو ب تھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی نماز کے ساتھ زکاۃکی ادائیگی کا حکم دیاگیاتھا،جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے: قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۝۳۰ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا۝۳۱(مریم )
ترجمہ: میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ،نبوت سے سرفراز کیا، میں جہاں کہیں بھی رہامجھے بابرکت رکھا اور جب تک میں زندہ رہوں اس وقت تک مجھے نماز اور زکاۃ اداکرنے کی وصیت فرمائی ۔
دوسرے احکام کے ساتھ بنی اسرائیل کوبھی نماز اورزکاۃ کا حکم دیاگیاتھاجس کا ذکر اللہ تعالیٰ یوں فرماتاہے:
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۝۴۳(بقرہ)
ترجمہ: نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو ۔
ایک دوسرے مقام پر بنی اسرائیل کو متوجہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِی وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۱۲(مائدہ )
ترجمہ: اگر تم نےنماز قائم کی، زکاۃ ادا کی ،میرے رسولوں پر ایمان لائے، ان کی مدد کی اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیا تو یقیناً میں تمہارے گناہوں کوبخش دوں گا اور تمھیںایسی جنت میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔
ان تمام آیات سے واضح ہوتاہے کہ زکاۃ ایک ایسی عبادت ہے جو ہم امت محمدیہ سے پہلے ، پچھلی امتوںپر بھی فرض تھی اور اس کا ادا کرنااللہ کی رضا کا سبب اور قربت الٰہی کا اہم ذریعہ ماناجاتاتھا۔
چنانچہ زکاۃ کا یہ نظام اللہ تعالیٰ نے دین محمدی میں بھی قائم رکھا،بلکہ دین کے بنیادی ستونوںمیں اسے ایک اہم ستون قراردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلٰى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ , وَإِقَامِ الصَّلَاةِ , وَإِيْتَاءِ الزَّكَاةِ , وَحَجِّ الْبَيْتِ ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ۔ (بخاری ،کتاب الایمان )
ترجمہ:اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں :
۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں ۔
۲۔ نماز قائم کرنا ۔ ۳۔ زکاۃ ادا کرنا ۔ ۴۔ حج کرنا ۔ ۵۔ رمضان کے روزے رکھنا ۔
قرآن مجید میں جہاں کہیںبھی نماز قائم کرنے کا حکم آیا ہے ،وہاں زکاۃ اداکرنے کابھی حکم ہے ۔اس کے علاوہ متعدد مقامات پر أَقِیْمُواالصَّلَاۃَ کے ساتھ وَاٰتُواالزَّکوٰۃَ آیا ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ اسلام میں جس قدر نمازکی اہمیت ہے ، اسی قدرزکاۃ کی بھی اہمیت ہے ، ان دونوں کے درمیان عمل میں اس طورپرفرق کرناکہ کوئی نماز ادا کرے اور زکاۃ نہ ادا کرے ،اسی طرح کوئی زکاۃ اداکرے لیکن نماز قائم نہ کرے توایساکرناایک مسلمان کو دینداری سے دورکرتا ہے اوراسے فاسق وفاجرکی فہرست میں لاکھڑاکرتا ہے، کیوں کہ جس طرح نمازکاترک کرنا اور اس کا انکارکرنا بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے ، اسی طرح زکاۃ کاترک کرنااوراس کی ادائیگی سے انکار بھی ایک مسلمان کو کفر سے قریب کردیتا ہے ۔
ورنہ کیا وجہ تھی کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکاۃ اورنمازکے درمیان فرق کرنے والوں سے یہ فرماتے ہوئے جہادکیاکہ:وَاللهِ !لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ،فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُوْنِي عَنَاقًا كَانُوْا يُؤَدُّوْنَهَا إِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلٰى مَنْعِهَا ۔(بخاری ،کتاب الزکاۃ)
ترجمہ:واللہ!میں اس سے ضرورقتال کروں گاجس نے نماز اورزکاۃ کی ادائیگی میںفرق کیا،کیونکہ جس طرح نماز جسمانی عبادت ہے اسی طرح زکاۃ بھی مالی عبادت ہے، اگر کسی نے زکاۃ میں ایک رسی بھی روک لی جس کووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اداکرتاتھا تو میں ا س شخص سے قتال کروںگا۔
اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید کرکے اجتماعی طورپر یہ فیصلہ کردیا کہ اعتقادی اعتبارسےزکاۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والادین اسلام سے نکل جاتاہے ۔
زکاۃدینے والوں پر اللہ کی خاص رحمت
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَأَکْتُبُہَا لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَالَّذِینَ ہُمْ بِآیَاتِنَا یُؤْمِنُونَ۝۱۵۶ (اعراف)
ترجمہ:میری رحمت تمام چیزوں کو شامل ہے ، پس میں اس خاص رحمت کوتقویٰ اختیار کرنے والے ، زکاۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے کے نام لکھ دوں گا۔
یوں تودنیامیں ہرشخص پراللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہوتا ہے،خواہ وہ نیک ہویا بداورسبھی اس رحمت سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کی بارش ان متقیوں پرہوگی جو زکاۃ ادا کرتے ہیں۔
مزید اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِوَ لِلهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ۝۴۱ (حج)
ترجمہ:یہ وہ اہل حق ہیں کہ اگر ہم اُنھیں زمین میں اقتدار دے دیں تووہ نماز قائم کریںگے، زکاۃ ادا کریںگے ، لوگوں کوبھلائی کا حکم دیں گےانھیںبرائی سے روکیں گےاوراللہ ہی تمام اعمال کا اجرعطافرمائے گا ۔
زکاۃ کی برکت
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ مَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَافِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۝۳۹ (روم)
ترجمہ: جو کچھ مال تم سودکے طورپرلوگوںکودیتے ہو،تاکہ وہ لوگوں کے مال میں اضافہ کرے تو یہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو زکاۃتم دیتے ہو،اس سے تمہارا مقصود اﷲکی رضا ہو تووہ مال اﷲتعالیٰ کے پاس بڑھتارہے گا۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
یَمحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُربِی الصَّدَقٰت ۝۲۷۶ (بقرہ)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔
ان دونوں آیات میں سود اور زکاۃ کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے کہ سود سے بظا ہر مال بڑھتا ہے لیکن اﷲ کے نزدیک ایسے مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں، اس کے برعکس جو زکاۃ محض اﷲتعالیٰ کی رضاکے لیے دی جاتی ہےاس میں ایک خاص برکت ہوتی ہے۔
مزید یہ بات بھی سمجھ میںآتی ہے کہ زکاۃ یا جو مال بھی فی سبیل اﷲ دیا جائے، جیسے صدقات نافلہ اورہدیہ وغیرہ اس سے مقصود محض اﷲ تعالیٰ کی رضا ہونی چاہیے،دنیا نہیں،مثلاً: اگرکوئی کسی کو ہدیہ دے تووہ یہ امید نہ رکھے کہ اُسے بھی بدلے میںہدیہ ملے گا ،یااگرزکاۃ دےتو اس کی نیت یہ نہ ہوکہ وہ زکاۃ اداکرکےکسی پراحسان کررہاہے ، بلکہ اس کا شائبہ بھی نہ ہو۔
زکاۃ اورطہارت مال
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا ۝۱۰۳ (توبہ)
ترجمہ:اے محبوب! ان کے اموال سے زکاۃ اورصدقہ لیں تاکہ آپ ان کوپاک کرسکیں اور ان کا تزکیہ کرسکیں ۔
ایک دوسری حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
إِنَّ اللهَ لَمْ يَفْرِضِ الزَّكَاةَ، إِلَّا لِيُطَيِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ۔(ابو داؤد ،حقوق المال )
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اسی لیے فرض کیا ہے کہ وہ تمہارے باقی مال کو پاک کر دے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ و صدقہ نکالنے سے طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اوریہ طہارت دوطرح کی ہوسکتی ہیں :
۱۔حرام اورناجائز مال سےطہارت،وہ اس طرح کہ کبھی بھول چوک یا انجانے میںحلال کمائی میں حرام وناجائز مال مل جاتا ہے اوراس کی خبر نہیں ہوپاتی،یاغرباومساکین کی حق تلفی ہوجاتی ہے،چنانچہ زکاۃ اداکرنے سے وہ نقص دوراور مال پاک ہوجاتاہے اور پھر پاکیزگی کے ساتھ ساتھ برکتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔
۲۔ گناہوں سے اور برے اخلاق سے طہارت ،وہ اس طرح کہ عام طورپر مال کی محبت انسان کو خود غرض ، ظالم ، متکبر ،بخیل اوربددیانت بنادیتی ہے، جب کہ زکاۃ اداکرنے سے مال کی محبت میں کمی آتی ہے اور انسان کے اندر ہمدردی، رحم دلی، بھائی چارہ، ایثار اوراخلاص و احسان جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں،پھر جب بندہ یہ سوچ کر زکاۃ اداکرتاہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو یقیناً اس کی برائیاں بھی اچھائیوں سے بدل جاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
اِنَّ الحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ۝۱۱۴ (ہود)
ترجمہ: بلاشبہ نیکیاں ، گناہوں کو دور کر دیتی ہیں ۔
زکاۃ ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کمی واقع ہوتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے مال میںاضافہ ہوتا ہے ،بلکہ بعض دفعہ تو ظاہری طورپربھی اضافہ ہوتاہے کہ زکاۃ اداکرنے والوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے اور کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ باطنی برکت حاصل ہوتی ہے ،جیسے زکاۃ دینے والوںکو خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملتی ہے اوراس کی وجہ سےاُسے اللہ تعالیٰ کا فضل ملتارہتاہے۔
اُس کی تائیدقرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍوَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ۝۲۶۱ (بقرہ)
ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی سی ہے جس نےسات بالیاں اگائیں ،جس کےہربالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ،مزیداضافہ فرما دیتا ہے ۔
زکاۃ اداکرنے کے ظاہری اورباطنی فائدے تو ہمیں دنیاہی میں حاصل ہوجاتے ہیں لیکن اس کے اخروی فائدے بھی ہیں جوبروز قیامت زکاۃدینے والے کو حاصل ہوں گے، بشرطیکہ زکاۃ؛ اخلاص کے ساتھ ،محض اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے اداکی گئی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَا يَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، إِلَّا أَخَذَهَا اللهُ بِيَمِيْنِهِ، فَيُرَبِّيْهَا كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهٗ، أَوْ قَلُوْصَهٗ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ، أَوْ أَعْظَمَ۔( مسلم ،کتاب الزکاۃ)
ترجمہ:جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے ، پھر اسے بڑھاتا ہے جیسے تم میںسے کوئی بچھڑاپالتا ہے ، یہاں تک کہ صدقہ کیا ہوا کھجور ، پہاڑ کی طرح یا اس سے بھی بڑھ جاتا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ۔( مسلم ،کتاب البر )
ترجمہ:صدقہ دینے سے مال کم نہیںہوتا ۔
ایک دوسری حدیث پاک میں ہے:
دَاوُوْا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ ، وَحَصِّنُوْا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ ، وَأَعَدُّوْا لِلْبَلاَءِ الدُّعَاءَ۔(سنن بیہقی،کتاب الجنائز)
ترجمہ: اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو ،اپنے مالوں کو زکاۃ کے ذریعے بچاؤاور مصیبت کو دعا سے دورکرو۔
ایک مرتبہ حضورمسجد کعبہ میں حطیم میں تشریف فرما تھے، کسی شخص نے تذکرہ کیا کہ فلاں،فلاں آدمیوں کا بڑا نقصان ہو گیا، سمندر کی موج نے ان کامال ضائع کر دیا،آپ نےفرمایا:
مَاتَلْفُ مَالٌ فِی بَرٍّ وَلَا بَحْرٍإِلاَّ بِحَبْسِ الزَّکَاۃِ۔ (معجم اوسط للطبرانی)
ترجمہ:جنگل ہو یا سمندر کسی جگہ بھی جو مال ضائع ہوتا ہے وہ زکاۃ نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے۔
اس طرح زکاۃ کا ایک فائدہ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی برکت سے مال ہر قسم کے نقصان سے بچارہتا ہے۔
آج ہم مال کی حفاظت کے لیے بے شمار تدبیریں اپناتے ہیں لیکن زکاۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیںدیتے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زکاۃ ادا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف مال کی حفاظت فرماتاہے بلکہ اس مال میں بے شمار برکتیں بھی عطا فرماتاہے۔(مدیر ماہنامہ خضرراہ الہ آباد)
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52455 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More