پیلے صحافی ، کالی صحافت یا کچھ اور ۔۔۔؟

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت حسن ؒ کہتے ہیں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے امیر المومنین میں دیہات کا رہنے والا ہوں اور مجھے بہت کام ہوتے ہیں ۔ اسلئے مجھے ایسے عمل بتائیں جن پر پوری طرح اعتماد کر سکوں اور جن کے ذریعے میں منزل مقصود یعنی اﷲ تک یا جنت تک پہنچ سکوں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اچھی طرح سمجھ لو اور اپنا ہاتھ مجھے دکھاؤ اس نے اپنا ہاتھ حضرت عمر ؓ کے ہاتھ میں دے دیا ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اﷲ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو ، نماز قائم کرو ، فرض زکوۃ ادا کرو ، حج اور عمرہ کرو اور (امیر کی)فرمانبرداری کرو ، لوگوں کے ظاہری اعمال اور حالات دیکھو ، ان کے پوشیدہ اور چھپے ہوئے اعمال اور حالات مت تلاش کرو ، ہر وہ کام کرو کہ جس کی خبر لوگوں میں پھیل جائے تو تمہیں نہ شرم نہ اٹھانی پڑے اور نہ رسوائی برداشت کرنی پڑے اور ہر اس کام سے بچو کہ جس کی خبر لوگوں میں پھیل جائے تو تمہیں شرم بھی اٹھانی پڑے اور رسوا بھی ہونا پڑے ۔ اس آدمی نے کہا کہ اے امیرالمومنین میں ان تمام باتوں پر عمل کروں گا اور جب اپنے رب سے ملوں گا تو کہہ دوں گا کہ عمر بن خطاب ؓ نے مجھے یہ کام بتائے تھے ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ان تمام کاموں کو لے جاؤ اور جب اپنے رب سے ملو تو جو دل چاہے کہہ دینا ۔

قارئین ! چند مختلف نوعیت کی باتیں آج کے کالم کا حصہ ہیں سب سے پہلے براہ راست بات کرتے چلیں ’’کشمیرلیکس‘‘کی اس خبر کے متعلق کہ جس کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں آزاد کشمیر بھر کے میڈیا کو بلیک میلر کہہ کر پکارا اور اس بات کا واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ وہ میڈیا کو ریاست جموں وکشمیر کا چوتھا ستون ہر گز نہیں سمجھتے ۔ سینہ گزٹ سے پھیلنے والی خبروں کے مطابق غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ جب وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے یہ بات کہی تو سابق وزیراعظم و موجودہ اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان بھی ان کے موقف کی تائید کرنے لگے اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں یہ دوسری کرامت سرزد ہوئی کہ حکومت اور اپوزیشن کسی ایشو پر ’’آخر ی چٹان‘‘بن کر متحد دکھائی دئیے ۔ یہاں پر آپ پڑھنے والے یہ معصوم سوال کریں گے کہ وہ پہلا موقعہ کون سا تھا کہ جب یہ دونوں اختلافات کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے اور ایک دوسرے کی پارٹیوں کو غدار اور بھارت کا ایجنٹ کہنے والے لوگ اکٹھے ہوگئے تھے تو ہم آپ کو یاد دلاتے جائیں کہ گزشتہ دنوں ہی آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں اراکین قانون ساز اسمبلی ، وزراء ، سپیکر ، صدر ، وزیراعظم سمیت سابق اراکین قانون ساز اسمبلی کی مراعات میں اضافے کا بل جب پیش کیا گیا تو ایسے اتحاد کا مظاہرہ میڈیا کی گناہگار آنکھوں نے دیکھا کہ جو پہلے کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔ خیر اچھی بات ہے کہ کسی بات پر تو ہمارے لیڈرز متحد دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ’’خبری پیلو‘‘ کا کہنا ہے کہ اگر سوچا جائے تو تمام اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں تو حقیقت منکشف ہو گی کہ کشمیری قوم کی آزادی اور خوشحالی کی خاطر لڑائی جھگڑے کروانے اور بظاہر خود بھی آپس میں بدست وگریبان ہونے والے ہر دور کے حکمران و اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے لوگ چند باتوں پر انتہائی متحد و متفق دکھائی دیتے ہیں کہ کس طریقہ سے اپنی تجوریاں بھری جائیں ، عوامی مسائل کا نام لے لے کر ریاستی وسائل کو لکشمی سمجھ کر لپیٹا جائے ، کس طریقہ سے اپنے سیاسی مخالف کی اخلاقی ، مالیاتی ، سیاسی کمزوری کو پکڑ کر اسے بلیک میل کیا جائے ، اگر وہ بلیک میل کرنے والا اپوزیشن میں بیٹھا ہے تو وہ کمزوری رکھنے والے حکمران سے زیادہ سے زیادہ مالیاتی مفاد کیسے حاصل کرے اور اگر وہ حکمران جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو وہ کس طریقہ سے’’ مذاکرات‘‘کرے کہ تحریک عدم اعتماد بھی ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ ہو جائے اور راوی کچھ عرصہ کیلئے ہی سہی لیکن کم از کم ’’چِین و چَین‘‘ کی بانسری بجاتا رہے اور اسی طرح ان تمام مرحلوں سے گزرنے کے بعد کشمیری قوم کی عملی حالت بتا رہی ہے کہ آزاد کشمیر کی حکمران بنچوں پر بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت اور اپوزیشن کی نشستوں پر تشریف رکھنے والی مستقبل و ماضی کی حکمران قیادت بھی کن کن باتوں پر متحد و متفق تھی ، ہے اور رہے گی ۔

قارئین ! ہم یہاں پر صرف تنقید کے پتھر پھینکنے کیلئے آج کا کالم تحریر نہیں کر رہے بلکہ ہم وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان سے’’ شدید‘‘ قسم کی ہمدردی کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں کہ آخر میڈیا سے تعلق رکھنے والے وہ کون سے صحافی ہیں کہ جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے ان کی خدائی کو چیلنج کر دیا ۔ یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان و آزاد کشمیر میں جس طرح کا سیاسی کلچر موجود ہے وہاں ہر چیز کی طرح میڈیا کو بھی ’’مینجManage‘‘کرنے کیلئے حکومتی جماعت ایک اچھا خاصا تگڑا بجٹ مخصوص کرتی ہے اور فارن ٹورز سے لیکر اشتہارات اور ’’عیدی وزکوۃ‘‘ کی شکل میں صحافیوں کے دل اور قلم میں نرمی پیداکرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے ۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے وسائل کی کمی کا رونا روتے ہوئے ’’سرمایہ کاری کرنے والے ٹھیکیداروں‘‘کی مدد سے میڈیا پر انوسٹمنٹ کرتے ہیں اور مختلف میڈیا ہاؤسز پر رسہ کشی کی یہ گیم چلتی رہتی ہے عوام اس تمام کھیل میں لان ٹینس کی گیم کی طرح دائیں بائیں گردنیں گھما کر دیکھتے رہتے ہیں اور آخر میں تھک ہار کر روز و شب کی محنت میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ یہاں ہم اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان سے انتہائی ادب سے یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید تو چلئے مخصوص وجوہات کی بناء پر کبھی میڈیا پرآتش بن کر برس پڑتے ہیں اور کبھی ’’مخصوص صحافیوں‘‘ابر کرم بن کر برس جاتے ہیں آخر آپ کو ایسا کیا ہوا کہ آپ نے بھی وزیراعظم کی پیروی کرتے ہوئے تمام صحافیوں اور تمام میڈیا کو ان القابات سے یاد کر ڈالا جن سے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے یاد کیا ۔ یہاں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے بھی ہم التماس کریں گے کہ مہربانی فرما کر وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام ’’ناہنجار ، گستاخ ، پیلے ، کالے یعنی بلیک میلر‘‘صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے نام منظر عام پر لے آئیں کہ جو اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ریاست کی سب سے بڑی نشست پر تشریف رکھنے والے وزیراعظم کو بلیک میل کرنے کی حرکت کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اگرچہ ماضی قریب میں ایک میڈیا ہاؤس کے متعلق پوری قوم کو بتایا گیا کہ یہ غدار اور وطن فروش قسم کے لوگ ہیں اور قومی سلامتی کیلئے ایک رسک بن چکے ہیں اس لئے مملکت خداداد پاکستان و آزاد کشمیر میں اس میڈیا ہاؤس پر بندش قوم کے وسیع تر مفاد میں انتہائی ضروری ہے اب وہ میڈیا ہاؤس مختلف بندشوں کا سامنا کر رہا ہے لیکن یہاں پر ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت سمیت پوری دنیا کے انتہائی لغو اور فحاشی سے بھرپور تین درجن سے زائد ٹی وی چینلز جو پاکستان کی نظریاتی اساس کو جڑ سے اکھاڑ رہے ہیں انہیں تو ’’لینڈنگ رائٹس ‘‘نہ ہونے کے باوجود بیس کروڑ پاکستانی عوام تک پہنچایا جا رہا ہے اور کوئی بھی قومی ادارہ اس کا کسی بھی قسم کا نوٹس نہیں لے رہا جبکہ یہ آگ ہر گھر کے اندر ’’غیرت و اخلاق‘‘ کا جنازہ اٹھا کر بھسم کر رہی ہے ۔ یہاں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ہم دست بستہ یہ گزارش بھی کرینگے کہ کہیں بقول شاعر ان کے ساتھ ایسی صورتحال تو پیش نہیں آرہی کہ جس کے مطابق
’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ‘‘

اور اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان سے بھی ہم پوچھنا چاہیں گے کہ حضور آپ نے آخر وزیراعظم کی ہاں میں ہاں کیوں ملائی اور تمام صحافیوں کو ایک ہی صف میں کیوں کھڑا کر ڈالا یہاں بقول غالب ہم یہ کہتے چلیں
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ ’’تو کیا ہے ‘‘
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ؟
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے ؟
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف ِ بدآموی ء عدو کیا ہے ؟
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے ؟
جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے ؟
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے ؟
وہ چیز جس کیلئے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادہ گلفام و مشکبو کیا ہے ؟
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دوچار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے ؟
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ؟
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبر و کیا ہے؟

یہاں پر یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ماضی میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید مختلف اوقات میں صحافیوں کو اپنے غصے کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن ان کی عمر اور صحت کے تقاضے کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ جب ہمیں یہ بات سمجھ آ گئی تو ہم نے ان کی آتش نوائی کا برا منانا چھوڑ دیا لیکن قانون ساز اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر جب انہوں نے یہ الفاظ انتہائی مخصوص انداز میں میڈیا کے متعلق استعمال کیے ہیں تو یقینا اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہو گی یا پھر بیک گراؤنڈ میں بہت سی سٹوریاں بھی ہو سکتی ہیں اس کہانی یا کہانیوں کا منظر عام پر آنا اب آزاد کشمیر کے ان صحافیوں کی عزت کیلئے انتہائی ضروری ہے جو پرائم منسٹر ہاؤس سے آنے والی ’’عیدی‘‘ یا تو لیتے ہی نہیں ہیں اور یا پھر انہیں ’’محروم‘‘ کر دیا جاتا ہے ، حقائق کا منظر عام پر آنا ان اخبارات اور میڈیا ہاؤسز کیلئے بھی انتہائی اہم ہے کہ جو صحافت کے پردے میں ’’رئیل سٹیٹ مافیا‘‘بن کر کروڑ پتی یا ارب پتی نہیں بنے اور نہ ہی بننا چاہتے ہیں اور پوری سوسائٹی کیلئے اس لئے ضروری ہے کہ اچھے لوگوں اور برے لوگوں میں کم ازکم ایک حد فاصل تو قائم کر دی جائے تاکہ سوسائٹی یہ جان سکے کہ مظلوموں کے حقوق کا دفاع کرنے والے میڈیا کے مجاہد کون ہیں اور حکمرانوں یا اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھنے والے سیاسی قائدین کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں بلیک میل کر کے لکشمی کمانے والے ’’کالے پیلے صحافی‘‘ کون ہیں ۔ یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ ہم نے اس حوالہ سے آزاد کشمیر کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی پر سابق صدر کشمیر پریس کلب میرپور و موجود صدر آزاد جموں وکشمیر یونین آف جرنلسٹس محمد امین بٹ کا ایک خصوصی انٹرویو اس موضوع پر ریکارڈ کیا کہ آخرکیوں حکمران و اپوزیشن جماعت کے قائدین آزادکشمیر کے میڈیا کو ہم زبان ہو کر ’’بلیک میلر‘‘کہنے پر مجبور ہو گئے ۔ محمد امین بٹ نے اس حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجیداور اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان انتہائی ذمہ دارشخصیات ہیں اور ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ انہوں نے آخر کیوں آزاد کشمیر کے تمام میڈیا اور صحافی برادری کو ان القابات سے یاد کر دیا جس سے کوئی بھی شریف آدمی شدید نفرت کرتا ہے ۔ اگر واقعی کچھ صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو بلیک میل کیا ہے تو ان کے نام سب کے سامنے لائے جائیں تاکہ وہ صحافی جو انتہائی دیانتداری کے ساتھ اس مجاہدانہ پیشہ کے ساتھ وابستہ ہیں ان کی توہین نہ ہو ۔ محمد امین بٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب کشمیرپریس کلب میرپور کی حالت بھی سب کے سامنے ہے کہ تیس سے زائد صحافیوں کو غیر فعال کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا اس پر یہ تمام لوگ عدالت میں چلے گئے ، دوسری طرف بغیر کسی وجہ کے غیر آئینی انداز میں کچھ صحافیوں کی رکنیت کو معطل کرنے کی غیر آئینی حرکت کی گئی جس کا کوئی بھی قانونی جواز نہیں ہے اور دوسری جانب دوسرے گروپ کی جانب سے بھی صحافیوں کے پہلے گروپ کے متعلق عدالت میں انتہائی سنگین الزامات کے تحت کیس کیا گیا یہ تمام حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ میڈیا کو بھی اپنی اصلاح کرنا ہو گی ۔ سینئر صحافیوں کو جونیئر ز کے ساتھ شفقت کا سلوک کرنا ہو گا اور جونیئرصحافیوں کو سینئرز کی عزت کرنا ہو گی اور تمام کے تمام ایشوز کو آخر کار پریس کلب کے فورم پر آکر ہی حل کرنا ہوگا ۔

قارئین ! یہاں پر کالم کے اختتام میں ہم چند سطروں میں مہنگائی کے طوفان بدتمیزی کے متعلق بھی کچھ باتیں کریں گے جس نے خلق خدا اور غریب عوام کو روٹی تک سے محروم کر دیا ہے ہم نے آزاد کشمیر ریڈیو ایف ایم 93میرپور کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں مہنگائی ، پرائس کنٹرول اور ذخیرہ اندوزی کے متعلق ایک خصوصی مذاکرہ سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی ہدایت پر رکھا ۔ راجہ حبیب اﷲ خان نے بحیثیت ایکسپرٹ شرکت کی جبکہ آزاد کشمیر کے مقبول ترین روزناموں میں سے ایک روزنامہ شاہین کے چیف ایڈیٹر چوہدری خالد ، وزیر حکومت عبدالماجد خان اور آزاد کشمیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر راجہ سجاد نے کھل کر گفتگو کی ۔ چوہدری خالد کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں بالعموم اور میرپور میں بالخصوص مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام شدید پریشانی میں مبتلا ہیں ۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں ظاہری طور پر چھاپے تو مار رہی ہیں اور چھوٹے موٹے دکانداروں کو چھوٹے موٹے جرمانے بھی کیے جا رہے ہیں لیکن مسائل کی اصل جڑ کو کوئی بھی نہیں پکڑ رہا ۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کسی کو بھی نہیں ہے اور مارکیٹ کوکنٹرول کرنے والے اصل لوگ یہی ہیں ہول سیلرز اور بڑے بڑے سٹاکسٹ مارکیٹ کو کس طریقہ سے اپنی منافع خوری کیلئے روزانہ کی بنیادوں پر استعمال کر رہے ہیں اس پر کسی کی بھی نگاہ نہیں ہے ۔ میرپور کی ضلعی انتظامیہ کی کوششیں اور نیک خواہشات اپنی جگہ لیکن جب تک آہنی ہاتھوں کے ساتھ اس مسئلہ کو کنٹرول نہیں کیا جائیگا تب تک مسائل حل نہیں ہونگے ۔ میڈیا اور صحافی برادری روزانہ کی بنیادوں پر تمام حقائق سب کے سامنے رکھ رہے ہیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ۔ ہم اپنا مجاہدانہ کردار ادا کرنا جاری رکھیں گے ۔ اسی طرح وزیر حکومت عبدالماجد خان نے گفتگو کے دوران بتایا کہ پنجاب کی مارکیٹس کی نسبت آزاد کشمیر میں اشیاء خوردونوش کی مہنگائی یا زیادہ قیمتوں کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کے کرائے بہت بڑھ چکے ہیں اور اسی طرح اشیاء خوردونوش میں سے کسی ایک چیز میں بھی آزاد کشمیر خود کفیل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر ایک کنزیومر مارکیٹ کی طرح اپنی ضرورت کی تمام چیزیں پاکستان کے مختلف صوبوں سے منگواتا ہے ۔ اس سب کے باوجودآزاد کشمیر کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ز کو ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ ناجائز منافع خوری کو روکنے کیلئے انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے اور آج سے ہم تمام ڈپٹی کمشنرز کو یہ ہدایات دے رہے ہیں کہ بڑے ہول سیلرز اور سٹاکسٹ اگر ناجائز منافع خوری میں ملوث ہیں تو ان پر ہاتھ ڈالا جائے ۔ راجہ سجاد ایڈووکیٹ نے تمام صورتحال پر مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آزاد کشمیر عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دعوے و اعلانات تو کیے جاتے ہیں لیکن مسائل کے خاتمے کیلئے کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا رہا ۔

قارئین ! یہ تمام گفتگو اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اگر عوام اپنے حقوق سمجھ کر انہیں حاصل کرنے کیلئے جدوجہد شروع کر دیں تو کسی کی یہ مجال و جرات نہیں ہے کہ وہ ان کے مطالبات ماننے سے کنارہ کشی کرے اور اسی طرح اگر حکمران اپنے فرائض جان جائیں اور دل سے ایمان لے آئیں کہ ایک دن خالق کائنات اﷲ بزرگ و برتر کے سامنے پیش ہو کر انہوں نے تمام رعیت کا جواب دینا ہے تو یقینا وہ بھی بکھرے ہوئے ایک ہجوم کو قوم بنا سکتے ہیں ۔

آخرمیں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
جیل کے افسر نے نئے قیدی سے پوچھا
’’تم یہاں کیوں لائے گئے ہو‘‘
قیدی نے معصومیت سے جواب دیا
’’جی حافظے کی کمزوری کی وجہ سے ‘‘
جیل کے افسر نے چونک کر پوچھا
’’حافظے کی کمزوری، کیا مطلب‘‘
قیدی نے جواب دیا
’’دراصل میں چوری کرتے ہوئے کہ بھول گیا تھا کہ اس گھر کے قریب تھانہ بھی ہے ‘‘

قارئین !اس لطیفہ کی روشنی میں چند سوالات اور پیدا ہوتے ہیں کہ آیا چوری کرنے والے مختلف سیاستدانوں کی چوریاں پکڑنے والے صحافی غلطی سے موقع پر موجود تھے یا حکمرانوں اور سیاستدانوں کو یہ علم نہیں تھا کہ ’’میڈیاکا تھانہ ‘‘ ہر وقت ان کی مختلف چیزوں پر نظر رکھتا ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ چوری کرنے والے ڈاکوؤں اور چوروں سے مل جانے والے چوکیداروں کو اخلاق و شرافت کی زبان استعمال کرتے ہوئے کس نام سے یاد کیا جاسکتا ہے اور ایسی گندی مچھلیوں سے صحافت کے پاکیزہ تالاب کو پاک کرنے کیلئے کس نوعیت کا ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کرنا ہوگا ۔ یہ تمام فیصلے کرنا اس سوسائٹی کی بقاء کیلئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ اگر میڈیا کو بیمار عضو قرار دیکر ریاست کے جسم سے کاٹ کر جدا کر دیا گیا تو یقین جانئے کہ مظلوموں کا دفاع کرنے کیلئے کل کوئی بھی آواز نہیں اٹھے گی اور رسہ گیر ، بدمعاش ، بلیک میلرز ، بلیک منی اور ہیروئن کے پیسے سے سیاست کرنے والوں ، پلاٹ مافیا سمیت مختلف مافیاز کی سرپرستی کرنے والے کن ٹٹوں کو سیاست میں آنے سے نہ تو کوئی روک سکے گا اور نہ ہی کوئی بے نقاب کر سکے گا ۔ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اسے سنجیدہ انداز میں ڈیل کیا جائے ۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336268 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More