تحفظ پاکستان بل اور انتظامیہ

تحفظ پاکستان کا بل بالآخر منظور ہو گیا ،جس کے تحت گریڈ 15کے آفیسر کو مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا آرڈر دینے کا حق دیا گیا ہے۔اہلکار کسی بھی مشکوک شخص کو گرفتار کر سکیں گے۔ ورنٹ کے بغیر کسی بھی جگہ کی تلاشی لی جا سکے گی ،موبائل فون کے رابطوں کو بھی بطور شہادت پیش کیا جا سکے گا۔یہ قانون ابتدائی طور پر دو سال کے لئے نافذ العمل ہو گا،حالات کو دیکھتے ہوئے میعاد میں توسیع کی جا سکتی ہے۔یہپاکستان کی تاریخ کا سب سے سخت قانون ہو گا۔

جمہوری حکومت میں ایسے قانون نافذ کرنا قدر مشکل ہوتا ہے لیکن جب ملک میں پچاس ہزار سے زیادہ نا حق جانیں دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئی ہوں ، اربوں روپے کے اثاثے تباہ اور دہشتگردی کے ماحول کی وجہ سے معیشت تباہ ہو چکی ہو ، کسی کی جان و مال محفوظ نہ ہو،اس وقت ملکی بقاء اور امن کے پیش نظر سخت قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ قدم حکومت نے اس وقت اٹھایا،جب ملک میں دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ جاری ہے اور اس کا ردِ عمل بھی سامنے آ سکتا ہے،اس کی روک تھام کے لئے ایسے قانون کی ضرورت تھی لیکن عوام کے خدشات اپنی جگہ ہیں کہ حکومت جب بھی کوئی فیصلہ کرتی ہے، اس میں دور اندیشی نظر نہیں آتی۔حکومت نے پولیس کی آسانی کے لئے جب بھی قوانین بنائے تاکہ وہ اپنے فرائض کو احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں ۔انہوں نے ہمیشہ اُس کا غلط استعمال کیا ۔کسی بے گناہ کو سزا پولیس کے تعاون کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں،جس میں پولیس گردی نے اپنا عروج دکھایا اور ان کے پیٹی بھائیوں نے انہیں بچایا۔پولیس نے کئی موقعوں پر بربریت کے ریکارڈ توڑے ہیں ۔ جسم پروردی پہننے کے بعد دوسروں کو حقیر جانتے ہیں۔اخلاقیات سے گری ہوئی حرکات کی جاتیں ہیں۔اس وجہ سے جہاں پولیس کا ادارہ بدنام ہوتا ہے ،وہاں عوام حکومت سے بھی بدظن ہو جاتی ہے۔

ملک میں بھیانک پولیس کلچر پروان چڑ چکا ہے،ایک 15ویں گریڈ کا آفیسر کی تربیت اس قابل نہیں کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ کن حالات میں گولی کا آڈر دینا چاہئے۔یہ شریف شہریوں کو تو تنگ کر سکتے ہیں مگر بدمعاشوں ،راہ زنوں ،ڈاکوں اور دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ایسے بے شمار کیسسز منظر عام پر آئے ،جس میں پولیس نے نا حق لوگوں کی جان لی یا ملوث پائے گئے ،ان کے خلاف کارروائی بھی ہوئی مگر کچھ عرصے بعد وہ اپنے عہدے پر براجماں نظر آئے اور پہلے سے زیادہ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے۔
اس کی ایک وجہ عدالتی نظام کا درست نہ ہونا ہے۔جس کی وجہ سے ایسے قوانین کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تفتیشی آفیسرز شہادتیں اکھٹی کرنے میں کوتاہی کر تے ہیں ۔ججز تاریخوں پر تاریخیں دیتے ہیں ، وکلاء غلط ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ ججزاپنے ریمارکس کے ذریعے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔ سامنے کھڑے لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں ۔ججز کے ریمارکس سے صاف اظہار ہو جاتا ہے کہ یہ کس جانب سوچ رہے ہیں۔کیا عدالت میں بیٹھے ججز کا انداز ایسا ہونا چاہئے؟کیا عدالت میں کرپشن نام کی چیز نہیں ؟انہیں عدالتوں کی وجہ سے اصل مجرم آزاد معاشرے میں گھوم رہے ہیں اور یہ درندہ صفت بھیڑیے بڑے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں ۔جنہیں سزا دینی چاہئے وہ دھندناتے پھر رہے ہیں ۔ملک سے پہلے سے موجود قوانین پر عملدر آمد ہو تو نئے قوانین بنانے کی ضرورت نہ پڑے۔

اس میں دورائے نہیں کہ دہشتگردی کے خلاف فوج کا آپریشن نا گزیر ہو چکا تھالیکن اس کے ردِ عمل کے لئے سب سے پہلے تیاری کرنا اتنا ہی ضروری تھی ۔کیونکہ اس سے زیادہ تر عام شہری متاثر ہوں گے۔اس کا بوجھ انتظامیہ پر آئے گا۔اس لئے پولیس اختیارات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ،یہ سوچے بنا کہ یہ اس قابل ہیں کہ ان پر بڑے فیصلوں کا بوجھ ڈالا جا سکے۔ہماری پولیس کے 15 ویں گریڈ کے آفیسر اس اہلیت کا نہیں کہ وہ کسی کی جان لینے کا آڈر دے سکے۔اس قانون سے 10فیصد دہشتگرد اور 90فیصد عام شہریوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔بے گناہ لوگوں کی جانیں جا سکتیں ہیں،مقتدر طبقہ اس بل کی آڑ میں اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے میں آزاد ہو جائے گا ۔اس لئے جہاں اس قانون کے صحیح استعمال کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے وہیں حکومت کو بھی اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے پہلے سے ہر ممکن اقدام کی ضرورت ہے،کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ پولیس نے ایسے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے ، اس محکمے میں متعدد اصلاحات اور تنخواہوں کے اسکیل بہتر کرنے کے باوجود اس کی بدگرین بدعنوانی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔عدالتوں میں کمزور مقدمات پیش کر کے پولیس ملزموں کو بری کرا لیتی ہے۔یہ ایک عام شریف شہری کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔یہ اقدام کافی نہیں کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال ہو تو جوڈیشنل انکوائری کا حکم دینے والے کو عدالتی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاں تفتیشی اور عدالتیں جو پہلے درست سمت میں ہوتیں تو آج ملک و قوم کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

قوموں کی زندگیوں میں اس طرح کے بحران آتے ہیں لیکن زندہ قومیں ایسے موقع پر اپنی تمام دلچسپیاں چھوڑ کراور اختلافات بھلا کر اپنے وطن کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں ۔حکومت فیصلہ تو کر لیتی ہے لیکن اس کے نتائج کو سنبھال نہیں پاتی۔

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 19 Articles with 13139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.