امریکہ زندہ باد اسرائیل مُردہ باد

بعض عقل کے اندھوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنی کم علمی کے باعث یہ نعرہ بڑے زور و شور سے لگاتے نظر آتے ہیں کہ یہودی مُردہ باد اور نصارٰی زندہ باد یعنی دوسرے لفظوں میں امریکہ زندہ باد اور اسرائیل مُردہ باد اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے معاذ اللہ ثُمَ معاذ اللہ قرآن مجید فُرقان حمید کی سورہ المائدہ کی آیت نمر ۸۲ کو بڑی ڈھٹائی کیساتھ پیش کر دیتے ہیں جبکہ اگر اُن امریکی ایجنٹوں سے آپ اس آیہ مُبارکہ کا شان نُزُول پوچھیں گے تو وہ آپ کے سامنے آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آئیں گے اور تاویلیں پیش کرنا شروع کردیں گے لیکن چونکہ ہمارے یہاں لوگوں کی قرآن فہمی کی عادت نہ ہونے کے برابر ہے اِس لئے سیدھے سادھے مسلمان اُن امریکی ایجنٹوں کی ہا ں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں ۔

اِسی واسطے اگرچہ کہ طبیعت ناساز ہے یہ کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں اللہ عزوجل اپنے مدنی محبوب کے صدقے میری اِس کاوش کو قُبُول فرمائے میں نے سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۸۲ اور اِسکا شان نُزول تحریر کر دیا ہے اور ساتھ ہی قرآن مجید کی چند دوسری آیات بھی تحریر کردی ہیں جو نصارٰی اور یہود کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں آپ اِن کا مطالعہ بغور کیجئے گا تاکہ کل اگر خدانخواستہ کوئی امریکی پٹھو آپکے سامنے اِن آیاتِ مُبارکہ کو پیش کرے تو آپکو اِس کا پس منظر معلوم ہو کہ یہ تمام عیسائیوں کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ اُن نصاریٰ کے حق میں نازل ہوئی ہے جو سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کے پردہ فرمانے کے بعد تمام خرافات سے بچتے رہے اور تمام انبیئا کے سرور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ظہور کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )پر ایمان لے آئے
وما توفیقی الا با اللہ

ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے (سورہ المائدہ آیت۸۲)

تفسیر نورالعرفان
اس آیت میں ان کی مدح ہے جو زمانہ اقدس تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین پر رہے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت معلوم ہونے پر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لے آئے ۔

شانِ نُزول : ابتدائے اسلام میں جب کُفّارِ قریش نے مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیں تو اصحابِ کرام میں سے گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حضور کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، ان مہاجرین کے اسماء یہ
(۱) حضرت عثمان غنی اور ان کی زوجہ طاہرہ (۲) حضرت رقیہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور (۳) حضرت زبیر (۴) حضرت عبداللہ بن مسعود (۵) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (۶) حضرت ابوحذیفہ اور ان کی زوجہ (۷) حضرت سہلہ بنتِ سہیل اور (۸) حضرت مصعب بن عمیر (۹) حضرت ابو سلمہ اور ان کی بی بی(۱۰) حضرت اُمِّ سلمہ بنتِ اُمیّہ (۱۱) حضرت عثمان بن مظعون (۱۲) حضرت عامر بن ربیعہ اور ان کی بی بی (۱۳) حضرت لیلیٰ بنتِ ابی خثیمہ (۱۴) حضرت حاطب بن عمرو (۱۵) حضرت سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہم یہ حضرات نبوّت کے پانچویں سال ماہِ رجب میں بحری سفر کر کے حبشہ پہنچے، اس ہجرت کو ہجرتِ اُولٰی کہتے ہیں، ان کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب گئے پھر اور مسلمان روانہ ہوتے رہے یہاں تک کہ بچّوں اور عورتوں کے علاوہ مہاجرین کی تعداد بیاسی مَردوں تک پہنچ گئی، جب قریش کو اس ہجرت کا علم ہوا تو انہوں نے ایک جماعت تحفہ تحائف لے کر نجاشی بادشاہ کے پاس بھیجی، ان لوگوں نے دربارِ شاہی میں باریابی حاصل کر کے بادشاہ سے کہا کہ ہمارے مُلک میں ایک شخص نے نبوّت کا دعوٰی کیا ہے اور لوگوں کو نادان بنا ڈالا ہے ان کی جماعت جو آپ کے مُلک میں آئی ہے وہ یہاں فساد انگیزی کرے گی اور آپ کی رعایا کو باغی بنائے گی، ہم آپ کو خبر دینے کے لئے آئے ہیں اور ہماری قوم درخواست کرتی ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالہ کیجئے، نجاشی بادشاہ نے کہا ہم ان لوگوں سے گفتگو کر لیں، یہ کہہ کر مسلمانوں کو طلب کیا اور ان سے دریافت کیا کہ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے حق میں کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ حضرت جعفر بن ابی طالب نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃُ اللہ و روحُ اﷲ ہیں اور حضرت مریم کنواری پاک ہیں، یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی کا ٹکڑا اُّٹھا کر کہا خدا کی قَسم تمہارے آقا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام میں اتنا بھی نہیں بڑھایا جتنی یہ لکڑی یعنی حضور کا ارشادِ کلام عیسیٰ علیہ السلام کے بالکل مطابق ہے۔ یہ دیکھ کر مشرکینِ مکّہ کے چہرے اُتر گئے پھر نجاشی نے قرآن شریف سننے کی خواہش کی، حضرت جعفر نے سورۂ مریم تلاوت کی اس وقت دربار میں نصرانی عالِم اور درویش موجود تھے قرآنِ کریم سُن کر بے اختیار رونے لگے اور نجاشی نے مسلمانوں سے کہا تمہارے لئے میری قلمرو میں کوئی خطرہ نہیں۔ مشرکینِ مکّہ ناکام پھرے اور مسلمان نجاشی کے پاس بہت عزّت و آسائش کے ساتھ رہے اور فضلِ الٰہی سے نجاشی کو دولتِ ایمان کا شرف حاصل ہوا۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ۔

مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ علم اور ترکِ تکبُّر بہت کام آنے والی چیزیں ہیں اور اُن کی بدولت ہدایت نصیب ہوتی ہے

اب وہ آیاتِ مُبارکہ جو مُذمت میں نازل ہوئیں

اور اگر وہ ایمان لاتے اللہ اور ان نبی پر اور اس پر جو ان کی طرف اترا تو کافروں سے دوستی نہ کرتے مگر اُن میں تو بہتیرے فاسق ہیں
سورہ المائدہ آیت ۸۱

اور ہرگز تم سے یہود اور نصاریٰ راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو تم فرما دو کہ اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے اور (اے سننے والے کسے باشد) اگر تو ان کی خواہشوں کا پیرو ہوا بعد اس کے کہ تجھے علم آچکا تو اللہ سے تیرا کوئی بچانے والانہ ہوگا اور نہ مددگار
سورہ البقرہ ۱۲۰ آیت

یہ خطاب امت محمدیہ کو ہے کہ جب تم نے جان لیا کہ سید انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے پاس حق و ہدایت لائے تو تم ہر گز کفار کی خواہشوں کا اتباع نہ کرنا اگر ایسا کیا تو تمہیں کوئی عذاب الہی سے بچانے والا نہیں ۔(خازن

اور کتابی بولے یہودی یا نصرانی ہوجاؤ راہ پاؤ گے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیم کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے (سورہ البقرہ آیت )۱۳۵

اس میں یہود و نصاریٰ وغیرہ پر تعریض ہے کہ تم مشرک ہو اس لئے ملت ابراہیم پر ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو وہ باطل ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو خطاب فرمایا جاتا ہے۔ کہ وہ ان یہودو نصاریٰ سے یہ کہ دیں '' قُوْلُوْۤآ اٰمَنَّا اَ لْاٰیَۃَ''۔

اور وہ جنہوں نے دعوٰی کیا کہ ہم نصارٰی ہیں ہم نے ان سے عہد لیا تو وہ بھلا بیٹھے بڑا حصہ اُن نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں تو ہم نے اُن کے آپس میں قیامت کے دن تک بَیراور بغض ڈال دیا اور عنقریب اللہ انہیں بتادے گا جو کچھ کرتے تھے
(سورہ المائدہ آیت ۱۴)

اور یہودی اور نصرانی بولے کہ ہم اﷲ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں تم فرما دو پھر تمہیں کیوں تمہارے گناہوں پر عذاب فرماتا ہے بلکہ تم آدمی ہو اس کی مخلوقات سے جسے چاہے بخشتا ہے اور جسے چاہے سزا دیتا ہے اور اللہ ہی کے لئے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور اُن کے درمیان کی اور اُسی کی طرف پھرنا ہے
سورہ المائدہ آیت ۱۸

شانِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اہلِ کتاب آئے اور انہوں نے دین کے معاملہ میں آپ سے گفتگو شروع کی، آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور اللہ کی نافرمانی کرنے سے اس کے عذاب کا خوف دلایا تو وہ کہنے لگے کہ اے محمّد آپ ہمیں کیا ڈراتے ہیں ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کے اس دعوے کا بُطلان ظاہر فرمایا گیا۔

اے ایمان والو یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا
سورہ المائدہ آیت ۵۱

مسئلہ : اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی ان کی مدد کرنا، ان سے مدد چاہنا، ان کے ساتھ مَحبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نُزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو۔

شانِ نُزول : یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت صحابی اور عبداللہ بن اُ بَی بن سلول کے حق میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہود میں میرے بہت کثیر التعداد دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں، اب میں ان کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ و رسول کے سوا میرے دل میں اور کسی کی مَحبت کی گنجائش نہیں، اس پر عبداللہ بن اُ بَی نے کہا کہ میں تو یہود کی دوستی سے بیزاری نہیں کر سکتا، مجھے پیش آنے والے حوادث کا اندیشہ ہے اور مجھے ان کے ساتھ رسم و رواہ رکھنی ضرور ہے، حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ یہود کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے، عبادہ کا یہ کام نہیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (خازن)

اس سے معلوم ہوا کہ کافِر کوئی بھی ہوں ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں '' اَلْکُفْرُ مِلَّۃ وَّاحِدَۃ'' ۔ (مدارک)
اس میں بہت شدّت و تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور ہر مخالفِ دینِ اسلام سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے ۔ (مدارک و خازن)
جو کافِروں سے دوستی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کا کاتب نصرانی تھا، حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ نصرانی سے کیا واسطہ؟ تم نے یہ آیت نہیں سنی '' یٰآَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ ، الایۃ '' انہوں نے عرض کیا اس کا دین اس کے ساتھ مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے، امیر المومنین نے فرمایا کہ اللہ نے انہیں ذلیل کیا تم انہیں عزّت نہ دو، اللہ نے انہیں دور کیا تم انہیں قریب نہ کرو حضرت ابو موسیٰ نے عرض کیا کہ بغیر اس کے حکومتِ بصرہ کا کام چلانا دشوار ہے یعنی اس ضرورت سے مجبوری اس کو رکھا ہے کہ اس قابلیّت کا دوسرا آدمی مسلمانوں میں نہیں ملتا، اس پر حضرت امیر المومنین نے فرمایا نصرانی مر گیا والسلام یعنی فرض کرو کہ وہ مر گیا اس وقت جو انتظام کرو گے وہی اب کرو اور اس سے ہرگز کام نہ لو یہ آخری بات ہے ۔ (خازن)

اب تم انہیں دیکھو گے جن کے دلوں میں آزار ہے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر کوئی گردش آجائے تو نزدیک ہے کہ اللہ فتح لائے یا اپنی طرف سے کوئی حکم پھر اس پر جو اپنے دلوں میں چھپایا تھا پچھتاَتے رہ جائیں اور
(سورہ المائدہ آیت ۵۲)
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1062933 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More