میڈیا ۔۔۔۔ تیز دھار آلہ

آج کا دور بہت تیز اور ڈائنامک ہے اور ایک پل میں دنیا بھر سے ایک خبر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں یوں چٹکیاں بجاتے پہنچ جاتی ہے۔ اور اسی طرح لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کےلیے ذرائع ابلاغ کی جدید شکل کو میڈیا کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں میڈیا کا کردار بہت مختلف رہا ہے اور ہے۔ اگر ہم یورپ کی بات کریں تو وہاں میڈیا چیزوں کو بہت حد تک رپورٹ کرتا ہے جو کہ صحیح ہوتی ہے اور وہاں اگر کسی کو میڈیا سے کوئی شکایت ہو اور میڈیا کی کسی خبر کی وجہ سے وہ بدنام ہوا ہے یا پھر اس کی نیک نامی پر کوئی حرف آیا ہے تو وی کسی بھی چینل یا اخبار پر کیس فائل کرنے کا مجاز ہے۔دنیا میں چار بڑے گروپس ہیں جو میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں اور انہی چار گروپس سے باقی دنیا بھر کا میڈیا خبریں لیتا ہے ۔ چاہے وہ بی بی سی ہو یا پھر سی این این۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے میڈیا کو کارپوریٹ گروپ چلاتا ہے۔اور دنیا بھر میں ہر حکومت خاص طور پر امریکہ دنیا پر کنٹرول رکھنے کے لیے سب سے زیادہ رقم مختص کرتا ہے جو کہ پوری دنیا میں تقسیم کرتا ہے جس میں پاکستان بھی سرفہرست ہے۔ میڈیا کی جدید شکل میں حکومتوں کو گرانے بنانے، نیک نامی یا پھر کسی بھی شخص یا جماعت کو بدنام کرنے کے لیے اب میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اب میڈیا میں کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں میڈیا ایک سب سے انوکھی اور یونیک قسم کی شکل رکھتا ہے ۔بہت سے چینلز مختلفسیاسی جماعتوں سے پیسے لے کر دوسری جماعتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی میڈیا گروپ ایسی حرکت کرتا ہے اور کس ایک جماعت کے حق میں رپورٹنگ کرتا ہے یا پھر اس ٹی وی چینل یا اخبار کا کوئی کالم نویس اگر حکومت کے پے رول پر ہو تو وہ اس جماعت کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتا نظر آتا ہے۔کچھ روز قبل میں نے ایک ٹی وی چینل پر ایک نہایت ہی مدبر اور سینئر صحافی کو سنا جو ماڈل ٹائون واقعے پر اپنے اظہار خیال فرما رہے تھے کہ پنجاب حکومت بالکل بھی ذمہ دار نہیں ہے اور وزیر اعلی پنجاب بہت ہی شفاف آدمی ہیں۔ کسی کی تعریف کرنا بجا مگر خاص الفاظ کا چناو کر کے کسی جماعت کے سربراہ کی یوں تعریف کرنا ایک صحافی کو زیب نہیں دیتا۔لوگ پوچھتے ہیں اور سوچتے بھی ہیں کہ ملک میں اتنے اخبارات ہیں اور روز کالمز لکھے جاتے ہیں مگر معاشرے میں سدھار نہیں آتا ان کام نویسو ں کی تحریروں سے تو بات یہ ہے کہ جب کالم نویس حکومت کے پے رول پر ہوں اور خاص اور مخصوص سوچ کو لوگوں کے ذہنوں میں منتقل کرتے ہوں اور کروڑوں کماتے ہوں تو وہاں برکت اور تبدیلی کا کیا جواز ہے؟ بہت سے صحافی حضرات کو میں جانتا ہوں جن کے پاس انہتائی پرتعیش گاڑیاں ہیں اور ڈیلکس زندگی گزارتے ہیں۔ ان صحافیوں کا ایک مخصوص سٹائل ہوتا ہے اور عام لوگوں کی مجلسوں میں یہ لوگ شرکت نہیں کرتے۔ایک اور بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ یہاں اس ملک پاکستان میں جس آدمی کے پاس کالا پیسہ ہے اور جو اس نے ناجائز ذرائع سے کمایا ہے اور اب ارب پتی بن چکا ہے وہ ایک چینل کھولتا ہے اور ملک کے سب سے مہنگے اور اعلی پایہ کے صحافی جو تحریروں پر ملکہ رکھتےہیں ان کو اپنے پاس نوکری پر رکھتے ہیں اور ان سب سے زیادہ تنخؤاہ اور دوسری مراعا ت دیتے ہیں تاکہ اگرپولیس ،ایف آئی اے ان پر ان کے ناجائز منافع کی صورت میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے تو یہی صحآفی حضرات ان کی حفاظت کریں اور حکومت وقت کے خلاف پوری طاقت سے پروپوگینڈا کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگ ہی اس ملک میں حکومت سے بھی زیادہ حکومت کرتے ہیں اور حکومت سے بھی زیادہ طاقتور ہوتےہیں۔ جب جیو نیوز کا معاملہ اٹھا تو اسی حکومت کے تین اہم وزرا جن میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب بھی شامل تھے دبئی روانہ ہوئے میر شکیل الرحمان سے ملنے۔ایک اور پہلو میڈیا کا جو کہ بہت ہی خوفناک اور خطرناک بھی ہے وہ یہ ہے کہ اب میڈیا کو پاکستان میں مذہب کے خلاف بھی استعمال کیا جانے لگا ہے اور یہ سب کچھ 2003 کے بعد سے شروع ہوا جب سابق صدر مشرف نے روشن خیالی کے نام پر شروع کیا۔ ضیا الحق کے دور میں اسلامنائزیشن کا بہت چرچا ہوا اور مجاہدین کو پیسہ دے کر بنایا گیا۔ اور مشرف کے دور کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں جہاد جیسے متبرک اور پاک جزبے کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا اور آہستہ آہستہ ہماری نصاب کی کتابوں سے ہمارا مذہب ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت نکال دیا گیا اور آج اپکو نہ تو قائداعظم محمد علی جناح کا پہلے صفحہ پر نظر آتا ہے اور نہ ہی ہمیں مذہب کے حوالے سے جدت نظر آتی ہے جو کہ ہونی چاہئے نتیجتہ ہماری نسل اب ہمارے خلفا راشدین اور ہمارے مذہب کے بارے میں لاعلم ہوتی جا رہی ہے۔یہاں سے میڈیا کا صحیح رول شروع ہوا۔ جیو جیسے چینل نے پاکستان میں ڈرامے بنائے جن میں نسبتا پہلے سے کم لباس پہنے لڑکیاں نظر آنے لگیں ۔ پہلے کبھی کسی ڈرامے میں میاں بیوی بھی آپس میں اکٹھے ہاتھ پکڑے نظر نہیں آتے تھے مگر آج کے ڈراموں میں بات اس سے بھی آگے پہنچ گئی ہے۔ پہلے دوپٹہ کا استعمال بہت تھا خبرنامہ مین بھی اور ڈراموں میں بھی مگر اب دوپٹہ رمضانن کے مہینے میں بھی نظر نہں آتا۔یہ سب آہستہ آہستہ میڈیا کے ذریعے کیا گیا۔نئی نسل کو بگاڑا گیا۔ کبھی جب ہمارے نسل کے پسندیدہ ہیرو شکیل، فردوس جمال، عابد علی، خالدہ ریاست ہوتے تھے وہ اب کترینہ کیف کے علاوہ کسی کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ہمیں سمجھنا ہو گا یہ میڈیا اب ایک مافیا بن چکا ہے جو کہیں بھی کبھی بھی کچھ بھی دکھا سکتا ہے اور ہمیں اور ہمارے قوم کو اس کو ماننا بھی ہوگا۔ چاہے وہ ڈراموں میں دکھائی جانے والی فحاشی یا پھر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالی جانے والی سوچ ہو سب ہی اب میڈیا کے لیے آسان ہو گیا ہے۔
Waqas khalil
About the Author: Waqas khalil Read More Articles by Waqas khalil: 42 Articles with 35011 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.