محتلف طرح کے نظام - قسط 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جمہوریت اور ووٹینگ کے رائج سسٹم میں اکثریت کے فیصلہ کی راۓ کو حق جانا جاتا ہے، چاہے اصلا وہ راۓ حق پر ہو یا باطل پر. كیا اکثریت حق کی دلیل ہے؟ آۓ دیکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں اللہ عزوجل ہم سے قرآن میں کیا فرماتا ہے، قرآن کی آیات اور ان کا مفہوم:

وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ

"اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے"

(سورۃ حود:17)

وَإِنَّ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

"اکثر لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں"

(سورۃ یونس 92)

لَا يُخْلِفُ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

"اکثر لوگ علم نہیں رکھتے

(سورۃ روم:6)

وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَشْكُرُ‌ونَ

"اکثر لوگ شکر نہیں کرتے

(سورۃ یوسف:38)

وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ يَجْهَلُونَ

"اکثر لوگ جاہل ھیں"

(سورۃ انعام 111)

وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَ‌هُمْ لَفَاسِقِينَ

"اکثر لوگ نافرمان ہیں"

(سورۃ اعراف:102)

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ‌ مَن فِي الْأَرْ‌ضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ

"اگر آپ نے اکثر (گمراہ) لوگوں کی بات مان لی تو وہ آپ کو اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے"

(سورۃ انعام 116)

لحاظہ ان آیات سے ثابت ہوا کہ کثرت میں ہونا ہمیشہ حق کی دلیل نہیں ھوا کرتا.

الشیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ جمہوریت کی تاریخ کو اسطرح بتلاتے ہیں، مفہوم:

جمہوریت کا تعلق اسلام سے نہیں بلکۂ یہ اسلام سے اجنبی طریقہ ہے بلکہ یہ تو یورپ کے کفار کا طریقہ ہے. جمہوریت کا مطلب ہے عوام کے ذریعہ عوام پر حکومت. عیسائی لوگ ایسے وقت میں رہے جب ان پر انکے چرچ، حکام اور بادشاہوں نے ظلم کیا تو انہوں نے بغاوت کی جیسا کہ ہمارے فیلسطینی بھائیوں نے یہودیوں کے خلاف کیا. تو انہوں نے بغاوت کی اور بادشاہوں اور گرجا کا حکم ماننے سے انکار کر دیا. انہوں نے بغاوت کی ظلم سے مگر کس طرف بغاوت کی؟ انہوں نے آدمی کی حکومت سے آدمی کی حکومت کی طرف بغاوت کی، جیسا کہ گرم زمین کی مدد لی جاۓ، آگ کے مقابلہ میں. تو انہوں نے کہا کہ لوگ اپنے اوپر خود حکومت کریں گے اور مکمل آزادی سے بہر مند ہوں گے، یعنی انہوں نے اللہ عزوجل اور اللہ عزوجل کے قانون کو لاگو کرنے کی طرف بغاوت نہیں کی، بلکہ انہوں نے ظلم سے خروج کیا اپنے ہی انسانوں کے بناۓ ہوۓ قانون کی طرف. انسان جو کہ جہل اور ظلم کا مرکب ہے الا یہ کہ وہ جس کو اللہ عزوجل نے ان صفات سے محفوظ رکھا ہو. تو جمہوریت اپنی بنیاد، خصوصیات و قواعد سے مسلمانوں سے نہیں نکلی، کیونکہ یہ اللہ عزوجل پر ایمان کو نظر انداز کرتی ہے، کیونکہ اللہ عزوجل پر ایمان کا مطلب ہے اللہ عزوجل کے قانون اور احکام پر ایمان، پس جمہوریت اللہ عزوجل کے دین سے نہیں، نہ ہی اسکا تعلق انصاف سے ہے.

بلکہ جمہوریت تو ایک طریقہ کار ہے اور بے ترتیبی (کی وجہ). کیونکہ اسکا عمومی اطلاق ہر فرد کی آزادی پر ہے، اس آزادی میں مذہب کی آزادی بھی ہے، یعنی اسمیں کوئ شخص مسلمان یہودی، عسیائ ہو کر رہ سکتا ہے یا کچھ عرصے بعد اپنا مذہب بدل لے، اسپر مرتد ہونے کا فتوی نہیں لگے گا. (گویا) جمہوریت قول کی آزادی، مذہب کی آزادی، سفر کی آزادی، تمام وہ آزادیاں جو بے ترتیبی متعین کرتی ہیں ماسوائے اسلام کی دی ہوئ آزادی کے جمہوریت کی مزید تفصیل اور الشیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ کے مزید قول کا عربی متن سننے کے لیے اس ویب سائیٹ پر جائیں:

https://www.youtube.com/watch?v=8Utlgbqf-18

سعودی عرب کے جلیل القدر عالم، الشیخ صالح بن فوزان بن عبداللہ الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا، مفہوم:

کیا ایسے انتخبات میں شمولیت اور ووٹ دیا جاسکتا ہے جو (مغربی) جمہوریت پر مشتمل ہوں اور جس سے انسانی قوانین لاگو ہوں؟

آپ حفظہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:

یہ طریقہ اور عمل مسلمانوں کا نہیں، مسلمانوں کا طریقہ تو یہ ہے کہ اہل علم علماء اس شخص کو منتخب کریں جو حاکم بننے کا اہل ہو اور اس طرح وہ حاکم بنے. اور پھر لوگ(عام عوام) علماء کے فیصلے کا ساتھ دیں جو اہل علم اور قاضیوں نے کیا ہو، اور (عوام) اتباع کریں (یعنی اس حاکم کی بیعت کر لیں) یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کا ووٹ ہو، یہ تو غربی (مغرب کا) طریقہ ہے، اسلام کا نہیں. شیخنا (حفظہ اللہ) کے قول کا عربی متن سنیے:

https://www.youtube.com/watch?v=vOSdUnuUXbY

علامہ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ سے ووٹ ڈالنے کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا:

"نہیں ڈالنا چاہیے."

اسی طرح الشیخ عبید ابن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ کی راۓ دیکھیں:


https://www.youtube.com/watch?v=EJnthMzd2jw

الشیخ البانی، الشیخ احمد ابن یحیی النجمی رحمہما اللہ ،الشیخ عبدالعزیر البرائ وغیرہ کے نزدیک بھی عصر حاضر کا جمہوری ووٹ ڈالنا صحیح نہیں، واللہ اعلم. گویا معلوم ہوا کہ جب جمہوریت قرآن والسنۃ اور فہم علماء کے مطابق اصلا صحیح نہیں تو ایسی جمہوریت کے لیے لانگ مارچ کرنا سنامی مارچ کرنا یا کسی اور طرح کا کے مارچ کرنے سے کچھ حاصل نہیں بلکہ وقت اور انرجی کا ظیاع ہے. بلکہ اس سورت حال سے دیشت گرد عناصر فائدہ اٹھا کر عوام کے جم غفیر میں دہشت گردی بھی کر سکتے ہیں. اللہ عزوجل ایسے عناصر سے ہمیں محفوظ رکھے، آمین. ان شاء اگلے ارٹکل میں ھم کچھ بات انقلاب کی کریں گے اور ساتھ ہی شرعی انقلاب یا شرعی تبدیلی کا طریقہ بھی بیان کریں گے.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 415542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.