امریکی "یو ایس ایڈ"پروگرام کے مقاصد

امریکی مالیاتی ادارے یو ایس ایڈ کے نام پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے پروپیگنڈا مسلسل کیا جارہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنے امدادی پروگرام کے ذریعے پاکستان میں توانائی کے شعبے کے ساتھ ساتھ زراعت، تعلیم میں حصہ دار اور معاون ہے۔، جس سے دنیا میں ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکہ ، پاکستان کی معاشی و تعلیمی بد حالی کو دور کرنے کیلئے شب و روز ڈالرز صرف کرنے میں مصروف ہے ۔جبکہ امرکی جنگ کی وجہ سے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچا ہے اس سے دنیا کو بے خبر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔یو ایس ایڈ پر وگرام کے حوالے سے سب سے بڑے اعتراضات میں ان پر واضح الزام عائد کیا جاتا ہے کہ امریکہ فرقہ وارانہ کشیدگیوں میں اضافے ، جگہ جگہ بم دہماکے اور انفرادی و شخصی آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی کے مراکز کے قیام و فروغ دے رہا ہے۔ ایرانی ابلاغ کی جانب سے گلگت بلتستان میں ہونے والی دہشت گردیوں اور علاقے کے بے انتہا قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے سبب الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ امریکہ اپنے عزائم کیلئے خطے میں انارکی کا سبب بن رہا ہے۔

یو ایس ایڈ پروگرام کا دائرہ کار صرف خیبر پختو خوا اور صرف چند مخصوص علاقوں کی حد تک محدود رکھنے کے سبب عوام میں ان خدشات کو تقویت ملی کہ یو ایس ایڈ پروگرام سے محض پاکستانی ابلاغ کو اشتہارات کی مد میں فائد پہنچ رہا ہے جب کہ زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں کیونکہ یو ایس ایڈ کا فائدہ پاکستانی عوام کو براہ راست نہیں پہنچ رہا۔اسکردو میں سد پارہ ڈیم سمیت زرعی ، دام پروری اور دیہی ترقی کے شعبوں میں امریکی امداد کے حوالے سے آئے روز قومی و علاقائی ابلاغ میں یو ایس ایڈ کے اشتہارات دئیے جارہے ہیں۔جبکہ یو ایس ایڈ کا ایسی تنظیموں کا رابطہ کرنا مقصود ہے جو امریکی حکومت کیلئے پس پردہ رہ کر یا ان کی دی جانے والی ہدایات کی روشنی میں کام کرسکے اور امریکہ کی رسائی خطے کے تمام قریوں اور کوچوں تک با آسانی ہوسکے۔اسی طریقہ کار کی بنا ء پر یو ایس ایڈ سنٹرل ایشا ء کے بعض ملکوں میں اپنا اثر و نفوذ ترقی کے نام پر کرچکی ہے۔خصوصا جمہوریہ آذربائیجان میں یو ایس ایڈ اور اس کی ذیلی تنظیمں عرصہ دراز سے سرگرم ہیں اس کا شاخسانہ تھا کہ اٹھانوے فیصد مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود آذربائیجان کے دارالحکومت "ہاکو"میں کھلم کھلا سرکاری سرپرستی میں"گے پریڈ"(ہم جنس پرستی مارچ)جیسے شرمناک اجتماعات ہوئے جبکہ اس سے قبل بھی اسلام آباد کے سفارتخانے میں امریکی امدادی اداروں،سی آئی اے کے ملکی و غیر ملکی ایجنٹس نے ڈالروں کے سائے میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع منعقد کرکے پاکستانی مسلمانوں کی مذہبی و ثقافتی غیرت کاپہلا امتحان لیا تھا۔اب بھی ذرائع کے مطابق یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت بننے والی تنظیموں کو ملک کے بعض علاقوں میں مختلف پر کشش ناموں سے کلب قائم کرکے درپردہ ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی مذموم سازش جاری ہے۔ان مقاصد کا دراصل امریکی ایجنڈا ہے کہ اس طرح انھیں اپنے مفادات کیلئے کام کرنے والے با آسانی مل جاتے ہیں اور چند ڈالرز کے عوض ، جدید ترقی اور آزادی کے نام پر مملکت کی جڑیں کھوکھلا کرنے والے ، جو پہلے ہی معاشرے میں دینی احیا و اقدار کی رمق سے مایوس و بیزار بیٹھے ہیں انھیں استعمال کرکے مذموم مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں.ـ"فیری میسن" اور مختلف فاونڈیشن کے علاوہ ان کی ذیلی تنطیمں اپنے ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذریعے پہلے ہی خودڈالروں کی چمک دھمک کے آگے فروخت کرچکی ہیں۔ جبکہ تعلیم کے نام پر کچھ ایسے ادارے بھی امریکی کی پالیسیوں پر کام کر رہے ہیں جن کا مقصدنئی نسل کو جدید علوم کے نام پر اسلاف اور اکابرین اسلام کی جدوجہد سے نا واقف رکھا جائے۔

امریکہ کے بین لاقوامی ادارے یو ایس ایڈ ایسے افراد و ذیلی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔قابل ذکر با ت یہ ہے کہ اس ادارے نے پشاور میں ہیپلپ لائن کے اشتہار کیلئے بڑے بڑے بورڈز تو لگائے تھے جبکہ احتساب بیورو کی جانب سے بورڈ میں ہیلپ لائن کے بجائے "حرام خوری" جیسے بھاری بھر کم الفاظ کا ستعمال کیا گیا تھا۔مریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے دعوے کے مطابق خواتین کیلئے امریکی مالی اعانت کے پروگرام اینٹر پرینور پراجیکٹ کے تحت 2014ء تک پاکستان بھر سے دستکاری کرنے والی 26000خواتین کی صلاحتیں بہتر بنانے کا دعوی ابھی تک کہیں نظر نہیں آتا۔جبکہ یو ایس ایڈ کے اپنے بیان کے مطابق اس منصوبے کا مقصد اُن خواتین کو آمدن کے وسائل بڑھانے کیلئے تربیت اور عالمی منڈیوں کے رجحانات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے ۔ بیان میں دعوی کیا گیا کہ ان خواتین کا مقامی مالیاتی اداروں سے رابطہ بھی کروایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے قرضے حاصل کرسکیں ۔اب اس منصوبے کو کہاں اور کس کے حوالے کیا گیا ہے اس سے عام پاکستانی نا واقف ہے لیکن کروڑوں روپوں کے اشتہاروں میں بتا یا جا تا ہے کہ امریکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتا ہے،جبکہ پاکستانی عوام دیکھ رہی ہے کہ خطے میں امریکی جنگ کے سبب پاکستان بربادی کی راہ پر گامزن ہے۔

اسی طرح یوایس یڈ کے ڈائریکٹر ایلکس تھیئر نے توانائی کے شعبے میں تعاون کے حوالے سے پہلے شرائط عائد کردیں کہ بنیادی اصلاحات کے بغیر سرمایہ کاری نہیں ہوگی۔ امریکا اور عالمی ادارے اپنے احکامات کو اصلاحات کی اصطلاح کے پردے میں پیش کرنے کے عادی رہے ہیں اور عوام کو کبھی معلوم نہیں ہوپاتا کہ اصلاحات کیا کی گئیں۔ جبکہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ ، ایرا ن کے ساتھ توانائی اور بجلی کے خریداری کے معائدوں کا شدید مخالف ہے ، اس لئے توانائی کے شعبے میں امریکی تعاون مزید ایک گھساپٹا بیان اور عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ناکام کوشش ہے۔کیونکہ امریکہ نے تو عالمی پابندیوں کی دہمکیاں دیں ہوئی ہیں۔اگر امریکی ادارے شمسی توانائی کے ذریعے بجلی تیار کرنے میں اپنے اداروں کاتعاون دے تو ممکن ہے کہ پاکستان میں اس کا مثبت اثر پڑے لیکن امریکی حکومت اور اداروں پر قابض تیل اور گیس کے وسائل پر قبضہ رکھنے والی جنگی مافیا ایسی تجاویز پر کبھی عمل کی اجازت پاکستان کے لئے فراہم نہیں کرنا چائیں گے۔اسی طرح سیف اور یو ایس ایڈ کے زیر اہتمام سمال گرانٹس کے حوالے سے پراجیکٹ منیجر مس بشری انصاری کی جانب سے ایک تقریب میں پریز نٹیشن پیش کی گئی ، جس میں بقول اسٹاک ایکسچینج کے منیجنگ ڈائریکٹر آفتاب احمد چودھری نے امید ظاہر کی کہ جنوبی ایشا ء ممالک کی سٹاک مارکیٹوں تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے جس سے یورپی یونین کے سٹاک مارکیٹوں سے باہمی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں ، ان سرمایہ داروں کو کو یقین تھا کہ سیف پراجیکٹ کو اس گرانٹس سے بڑی تقویت ملے گی ۔یہاں بھی صرف امید کا اظہار کیا جس طرح ماضی میں سیکرٹری پانی و بجلی امتیاز قاضی نے سینت کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ دیا مر بھا شا ڈیم کے حوالے سے امریکی مالیاتی یو ایس ایڈ ، اسلامی ترقیاتی بنک اور اسلامی ترقیاتی بنک اس منصوبے کیلئے فنڈز فراہم کریں گے۔جب اراکان نے کہا کہ حکومت سے کہا کہ ایران سے گیس اور تیل خریدے اور تجارتی تعلقات کو فروغ دے اگر بجلی کی قلت 5000میگا واٹ ہے تو پھر 12، 12گھنٹے کی کوڈ شیڈنگ کیوں کی جاتی ہے۔یہ ریمارکس 07جولائی2011کو دئیے گئے تھے ۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی ترجیحات میں پاکستانی بیورو کریسی کس قدر ملوث ہے جیسے قریبی ممالک سے زیادہ امریکہ کی خشنودی عزیز ہے۔یو ایس ایڈ پروگرام صرف نظروں کی ڈھول ہے جو آنکھیں ملنے سے غائب ہوجاتی ہیں۔بظاہر امریکی ادارہ برائے بین القوامی ترقی و امداد USAIDنے دعوی کیا ہے کہ "ٹریننگ فار پاکستان پراجیکٹ"کے ڈریعے پاکستان کے نجی اور غیر نجی اداروں سے تعلق رکھنے والے 8نمائندو ں کو فنڈ دیا جنہوں نے on-farmeayer mamagementکے آبی وسائل کے استعمال اور ان کی مہارت کی ٹریننگ دی ، انھوں نے پاکستانی کسانوں کو آن فارم ایری گیشن تیکنک کو اپنانے پر زور دیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ2010ء میں یو ایس ایڈ کے عہدے داروں ڈینیئل پی ایلٹ مین اور چالز ڈی زمرمن پر مشتمل دو رکنی وفد نے چیئرمین نیب (سابق چیئرمین) جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شال کو غیر سرکاری تنطٰموں کی طرف سے کیری لوگر امداد کی رقم میں خرد برد اورچ استعمال کے بارے میں قابل ذکر شکایات سے آگاہ کیا لیکن اہم بات یہ ہے کہ خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق جن غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں بھی شکایات درج کرائی تھی ان میں امریکی شہری بھی شامل ہیں۔اب دبئی میں جاری دو روزہ پاک امریکہ سرمایہ کاری میں یو ایس ایڈ نے ابراج گروپ اور جے ایسا یکویٹی منجمنٹ جے ساتھ ملکر پاکستان میں نجی سرمایہ کاری مساوی شرکت کی بنیاد پر دو نئے فنڈز کا اآغاز کرے گا ، دل چسپ بات یہ ہے کہ یو ایس ایڈ ان فنڈز کیلئے ابتدائی سرمایہ جبکہ ابراج گروپ اور جے ایس ایکویٹی اس کے مساوی یا زیادہ سرمایہ کاری کرے گا ۔فنڈز کی مالیت 100ملیں ڈالر ہوگی ۔یو ایس ایڈ یا مریکہ کی بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی کے ایک داخلی محاسبے سے یہ انکشاف ہوا کہ افغان سرحد سے محلق علاقے میں پاکستانی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں ملی بلکہ ایجنسی کے ساڑھے چار کروڑ ڈالر کے پروجیکٹ کے مطابق پاکستانی قبائلی علاقوں یا فاٹامیں اس پروگرام نے اصل ہدف ابھی تک پورا نہیں کیا ، محاسبے کے مطابق امریکی کمپنی ڈیوپلیمنٹ الٹر نیٹیو انک یا ڈائی کو دئیے جانے والے ٹھیکے کے اس منصوبے پر ایک لروڑ 55لاکھ ڈالر پہلے ہی خرچ ہوچکے ہیں۔جبکہ یو ایس ایڈ کی معاونت سے شروع کئے جانے والے ایسوسی ایٹ ڈگری ان ایجوکیشن ( اے ڈی ڈی) کے تحت چلنے والا پروگرام بھی صرف دنیا میں ایک دکھاوے کے طور پر ہے جس میں من پسند امریکی مفادات کو پورا کرنے والے ہی اہل کہلاتے ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666957 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.