یہ درد غنیمت ہے یارو

انسان دکھ کیوں محسوس کرتا ہے؟ اور درد کیا چیز ہے؟ مجھے تو کسی چیز کی طلب نہیں مجھے تو کوئی تشنگی نہیں پھر بھی میں دکھی ہوں آخر دکھ اور انسان کا رشتہ کیا ہے؟ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ جب انسان کی توقعات کے خلاف کوئی کام ہو تو اسے دکھ ہوتا ہے اور اگر ہونے والے عمل کی شدت اسکی قوت برداشت سے باہر ہو تو آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں اور انسان کی خواہشیں بھی تو بے شمار ہیں اس لئے اسے رونا بھی بے شمار پڑتا ہے میں نے ایک صاحب ثروت خوشحال شخص سے پوچھا کہ تم کیوں رو رہے ہو جب کہ تم کو کوئی غم نہں تو اس نے جواب دیا کہ میرا دل دکھوں سے چور ہے تم میرا ظاہر دیکھ کر میرے اندر کے حالات معلوم نہیں کرسکتے میں نے کہا پھر بھی کوئی ایک غم دلیل گریہ میں افشاں کر دو تو بولا میں جینا چاہتا ہوں اور بڑھاپہ مجھے قبر کی طرف لے کے جا رہا ہے۔ غم کی بہت سی قسمیں اور اشکال ہیں، کبھی ذاتی ہوتا ہے کبھی اجتماعی، کبھی وقتی ہوتا ہے اور کبھی دائمی اسی طرح رونا بھی کبھی وقتی ہوتا ہے کبھی دائمی کبھی انفردی ہوتا ہے اور کبھی اجتماعی، سے بد ترین رونا اجتماعی ہوتا ہے جب ہر کوئی رو رہا ہو اور دلاسہ دینے والا کوئی نہ ہو، کسی صوفی نے کہا ہے کہ ہر مسکراہٹ اور خوشی سے پہلے اور پیچھے رونا ہوتا ہے زیادہ ہنسنے سے بھی آنسو ہی نکلتے ہیں اور لوگ انہیں خوشی کے آنسو کہتے ہیں مگر میرا سوال پھر اپنی جگہ ہے کہ انسان اور غم کا رشتہ کیا ہے؟ مہاتما بدھ نے کہا تھا کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے اس لئے اس سے کنارہ کشی اختیار کرو مگر دنیا دکھوں کا گھر کیوں ہے؟ ہر آنکھ پر نم کیوں ہے، ہر ساعت دل آزار کیوں ہے، لوگ دنیا کی محفلوں سے کیوں اکتا جاتے ہیں۔ بقول اقبال
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

آخر دل کیوں بجھ جاتا ہے اور پھر کتنی عجیب بات ہے کہ اللہ والے بھی روتے رہتے ہیں یاد الہی میں، سجدوں میں اور میرے نبی کو بھی ہنسنے سے زیادہ بارگاہ ربی میں رونا زیادہ پسند تھا اور میرا نبی رحمت العالمین ہے مشکل کشا ہے اور سوالوں کا جواب دینے والا ہے، یا رسول اللہ آپ تو وارث حوض کوثر ہیں آپ کو تو نہ دنیا کا کوئی غم ہے نہ آخرت کا تو پھر آپ کیوں روتے ہیں‌ آپ کو کیا غم ہے میرے نبی نے سوال کا جواب دیا جو دلوں کی دھڑکن بن گیا اور عاشقوں کی میراث بن گیا فرمایا اے سائل کیا تجھے نہیں معلوم کہ دینا اپنی اصل سے دور ہے یہ دنیا اور اسکی ہر چیز جز ہے اور وہ اللہ کل جز کل سے جدا ہے اور کل کی طرف جانے کے لئے بے قرار ہے انسان کی مثال ایسے بچے کی سی ہے جو اپنی ماں سے جدا ہو وہ کیسے خوش رہ سکتا ہے کل سے جدائی انسان کے خمیر میں ہے اور رونا فطرت میں۔ اللہ کو انسان کا رونا بڑا پسند ہے اور وہ شکستہ دلوں میں رہتا ہے۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 22022 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More