بزدل

میں بہت کچھ ہوں، میری طاقت کا اندازہ کون کر سکتا ہے، میں بم بنا کر معصوموں کی جان لے سکتا ہوں اور میں اپنی جان دینے سے بھی نہیں ڈرتا، مجھے کون روک سکتا ہے، وہ دن دور نہیں کہ ہر جگہ ہماری حکومت ہوگی اور وہ حکومت اسلام پر مبنی ہوگی اور سامراجی قوتوں کا سورج ہمیشہ کے لئے ڈوب جائے گا ۔۔۔۔ وہ یہ باتیں کرتا جا رہا تھا اور اسے اپنی باتوں کے پورا اور سچا ہونے پر کتنا یقین تھا۔ میری اور اسکی دوستی بچپن سے تھی میٹرک کے بعد اس نے ایک جہادی مدرسے میں داخلہ لیا تھا جہاں پر اسے قرآن کی مخصوص آیتوں کی تعلیم دی گئی تھی اور بندوق چلانی سیکھائی گئی تھی اور کسی پیر صاحب سے بیت کروایا گیا تھا۔ مجھے شروع سے تصوف سے شغف تھا اور میں نے اسلام کو امن کے حوالے سے پڑھا تھا میری نظر میں وہ ایک غلط راستے پر جا رہا تھا اور اسکی نظر میں میں دین سے دور تھا اور ہم ایک دوسرے کو قائل کر نے کی کوشش کرتے تھے، اس نے مجھ سے کہا دیکھو جہاد اسلام کا بنیادی ستون ہے اور کافروں اور مرتدین سے جہاد بندوق کے زور پر فرض ہے اور اگر تمہاری جان چلی بھی گئی تو جنت تمہاری منتظر ہوگی ۔ میں نے کہا کہ میری نظر میں جنت کے لالچ میں کسی کام کا کرنا حرام ہے خدا کی محبت جنت سے افضل ہے، جنت تو میں نے نہیں دیکھی لیکن خدا کی محبت دیکھی ہے وہ کہنے لگا وہ کیسے میں نے کہا اس کی مخلوق کی محبت سے، بھوکوں کو کھانا کھلانے سے، قرآن پڑھنے سے، ضبط نفس سے، نماز سے، اور انتقام نہ لینے سے اور انا کو مارنے سے۔ وہ کہنے لگا تم بزدل ہو اسکی راہ میں جان دینے سے ڈرتے ہو میں نے کہا بزدل اور بہادر کا فرق معلوم کرنا ضروی ہے میں نے کہا فرض کرو ایک شخص کی ماں بڑی ظالم ہو اور مرتد بھی اب اگر وہ اپنی ماں کو قتل کر دے تو کیا بہادر ہوگا اور اسکے بدلے میں جنت پائے گا، حضور کے سامنے کفار اللہ کو برا بھلا کہتے اور ایسے ایسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے کہ اصحابہ کا خون کھول اٹھتا کیا ایسے میں حضور کی خاموشی بزدلی تھی۔ کہنے لگا میں نہیں مانتا میرے امیر کہتے ہیں کہ کفار کے خلاف لڑنا پڑتا ہے دین کے لئے انتقام لینا پڑتا ہے شہید ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنی دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور والدہ اکثر بیمار رہتی تھیں وہ دن جہاد افغانستان کے دن تھے پھر ایک دن وہ ایک جیپ پر میرے پاس آیا اور کہنے لگا میری مدد کرو ماں کو ہسپتال لے کر جانا ہے

مجھے بڑے فخر سے کہنے لگا دیکھو میں اللہ کے دین کا کام کرتا ہوں اور اللہ نے مجھے ہر فکر سے آزاد کر دیا ہے میرے پاس گاڑی ہے اور ماں کے علاج کے لئے دو لاکھ روپیہ ہے مجھے میرے امیر نے دیے ہیں، میں نے کہا کہ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم ان پیسوں سے اپنی ماں کو بچا لو گے اور اگر پیسے نہ بھی ہوتے تو تمہاری ماں کو اللہ شفا دے سکتا تھا۔ ماں ہسپتال میں کچھ دن رہنے کے بعد اللہ کو پیاری ہوگئی اس دن وہ بہت رویا۔ ماں کے کفن دفن کے بعد وہ واپس اپنے امیر کے پاس چلا گیا اور پھر دو مہینے تک اسکی کوئی خبر نہ آئی۔

پھر ایک دن شہید افغانستان کے نام کے حوالے سے اسکی میت شہر میں لائی گئی اور بہت بڑا جنازہ ہوا میرے لئے وہ دن بڑا منحوس تھا میں سارا دن سوچتا رہا کہ وہ بہادر تھا یا میں بزدل ہوں، شہید کی بہنیں اسکی چارپائی سے لپٹی رو رہی تھیں اگر یہ کہانی یہاں ختم ہوجاتی تو میں اسکو کبھی نہ لکھتا زمانہ بڑا بے وفا ہے شہید کے مرتے ہی اسکی بے یارو مددگار جوان بہنوں کے برے دن شروع ہوگئے وہ گھر جو شہید کا گھر تھا غربت و افلاس کی آماجگاہ بن گیا وہ لوگوں کے گھروں کا کام کر کر کے زندگی کے دن گزارنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دن ہوئے مجھے شہید کی بہن کا خط نیوزی لینڈ میں موصول ہوا۔

بھائی جان،

بڑی مشکل سے آپکا ایڈریس لے کر آپکو یہ خط لکھ رہی ہوں بھائی جہاد افغانستان لے گیا بہن کو ٹی بی لے گئی اب میں ہی بچی ہوں میری بچی شدید بیمار ہے علاج کے لئے پیسوں کی اشد ضرورت ہے اگر آپ پچاس ہزار کی مدد کر دیں تو نوازش ہوگی۔
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 22034 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More