لہو رنگ

ریاستی جبر اور انقلابی فکر میں ہمیشہ سے ایک مخاصمت کی فضا قائم رہی ہے۔سٹیٹس کو کبھی بھی اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے اور اندازِ حکومت کو بدلنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتا۔وہ عوام کو زیرِ نگیں رکھنے کیلئے وہی پرانے حربے اورطر یقے اختیار کرتا ہے جسے انقلابی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔انقلابی کرپشن سے پاک ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں ایک ایسی دنیا جس کو سٹیٹسکو کی حکومت میں حقیقت کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا اور شائد یہی وجہ ہے کہ انقلابی حکومت کے خلاف بغاوت پر اتر آتے ہیں اور حکومت ان کے نعروں کی صداقت سے خو فزدہ ہو کر انھیں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ان دونوں گروہوں کے پاس طاقت ہوتی ہے ایک کے پاس عوامی طاقت ہوتی ہے جبکہ دوسرے کے پاس ریاست کی طاقت ہوتی ہے اور ریاست کی طاقت بے رحم ہوتی ہے جو اپنے ہی شہریوں کو کچل کر رکھ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی جس کا مظاہرہ دنیا نے مصر میں جنرل فتح السیسی کے جابرانہ انداز میں دیکھا ہے جہاں پر سینکڑوں انقلابیوں کو پھانسی کی سزائیں سنا جا رہی ہیں جن کا جرم فقط اتنا ہے کہ وہ امریکہ کی پٹھو حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ریاست کیلئے اس کا اپنا وجود سب سے مقدم ہوتا ہے اور اس کیلئے اس کے ہاں ہر قسم کی پہچان بے معنی ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے وجود کے سامنے ہر وجود کو غیر اہم سمجھتی ہے اور جو کوئی بھی ا س کے وجود اور اسکی حاکمیت کے سامنے کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے ریاست اس کی کھال کھینچ کر رکھ دیتی ہے۔یہ سچ ہے کہ ریاست کو چھو کر محسوس تو نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔اس کا آئین اور قانون اس کے وجود کی علامت ہوتا ہے ۔حکومتِ وقت آئین کی عطا کردہ قوت کے سہارے ریاست کے نام پر اپنے اختیارات کا ستعمال کرتی اور ریاست کی رٹ کو قائم کرتی ہے آئین ہی ریاست کی طاقت ہوتاہے ۔ ریاست کو چلانے کیلئے حکومت کو کبھی کبھی نا خوشگوار، سخت اور کڑوے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں کیونکہ یہ ریاست کی بقا کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ریاست کبھی کبھی آمرانہ انداز میں شب کی تاریکی میں معصوم لوگوں کو لہو میں نہلا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اپنی غلطی بھی تسلیم نہیں کرتی۔ حکومت کسی ایسی سوچ کو جو اس کی حکومت کیلئے خطرہ بنے پھلنے پھولنے اور پنپنے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ اسے بزورِ قوت کچل کر رکھ دیتی ہے جبکہ انقلابی اپنی قائم کردہ راہ سے ہٹنے کا نام نہیں لیتے اور حکومت انھیں کچلنے میں تامل نہیں کرتی ۔ دونوں کے درمیان کشمکش میں اضا فہ ہوتا چلا جاتا ہے اور آخرِ کار حتمی تصادم ناگزیر ہو جا تا ہے جو سٹیٹسکو کی قوتوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے جس سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔لیکن ایک بات واضح ہے کہ انقلابی سوچ کی طاقت ایک مثبت سوچ ہوتی ہے جو انسان دوستی کے جذبات کی ترجمان بنتی اور ظلم و جبر اور نا انصافی کے خلاف سینہ سپر ہوتی ہے۔انقلابی حق کی خاطر ہر قسم کی سختیوں کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ انقلابیوں کے سینے جب انقلاب کی طاقت سے بھر جاتے ہیں تو پھر زندگی اور موت کا فرق ان کیلئے بے معنی ہو جاتاہے اور یہی سے انقلاب کی منزل قریب تر ہو جاتی ہے۔پاکستان میں بھی اس وقت انقلاب کی آوازیں ہر سو سنی جا رہی ہیں ۔کیا انقلاب کی یہ آوازیں سٹیٹسکو کو توڑ پائیں گی یا اس کیلئے ابھی مزید انتظار کرنا پڑیگا؟قوم اس وقت ایک دوراہے پر کھڑی ہے اور اسے فیصلہ کرناہے کہ وہ انقلاب کی کوکھ سے جنم لینے والے نئے نظام کی حامی ہے یا سٹیٹسکو کے کرپٹ اور بوسیدہ نظام میں زندہ رہنا چاہتی ہے ۔ کہتے ہیں جو نظام ایک دفعہ بوسیدہ ہو جائے وہ کبھی برگ و بار کی قوت نہیں رکھتا اور یہ بات پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام پر صادق آتی ہے کیونکہ یہ بالکل غیر موثر اور ناکارہ ہو چکا ہے۔

وہ تمام ممالک جہاں پرانقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں ان ممالک میں عام انتخابات نہیں ہوتے بلکہ ایک نیا نظام متعارف کروایا جاتا ہے اور ایک انقلابی کونسل قائم ہو جاتی ہے جو ریاست کے نام پر اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہے۔وہاں پر سیاسی جماعتوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے اور جمہوری کلچر جس کا پورے عالم میں شہرہ ہے اسے وہاں پر قائم ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ہمارے سامنے چین ،روس اور ایران کی مثال ہے۔روس میں ولادیمیر پوٹین اور ایران میں روحانی راہنما خامنائی اپنے اپنے ممالک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ولادیمیر پوٹین کا احوال تو یہ ہے کہ جب آئین دو دفعہ سے زیادہ صدارت پر فائز ہونے پر پا بندی عائد کرتا ہے تو وہ وزیرِ اعظم بن کر سارے اختیارات کا مالک بن جاتا ہے اور وزارتِ عظمی کی مدت پوری کرنے کے بعد پھر صدارت کی کرسی پر قبضہ کر لیتا ہے۔اپنی مرضی سے کرسیاں بدلنے میں اس کی راہ میں کوئی مزاحم نہیں ہوتا کیونکہ ان ممالک میں جمہوریت حکمرانوں کی ذات میں مر تکز ہوتی ہے۔یک جماعتی نظام میں فردِ وا حد سارے فیصلوں کا منبہ بن جاتا ہے۔چین جہاں پر اقتدار کیمونسٹ پارٹی کے پاس ہے اس کی مرکزی کونسل ہی ملک کے سارے فیصلے کرتی ہے۔وہاں صدر، وزیرِ اعظم اور وزرا بھی ہیں لیکن ان کا چناؤ عوامی رائے اور ووٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا فیصلہ وہی مرکزی کونسل کرتی ہے جس نے انقلاب کی داغ بیل ڈالی ہوتی ہے ۔چین میں تو یہ ایک روائیت ہے کہ کیمو نسٹ پارٹی نے جس فرد کو ملک کی زمامِ اختیار سونپنی ہوتی ہے اس کی تربیت کا بندوبست کئی سال پہلے شروع کر دیا جاتا ہے تا کہ جب وہ چینی حکومت کے سارے امور کا مختارِ کل بنے تو اسے ریاستی امور کو چلانے کے سارے گر اور طریقے آتے ہوں۔وہ چینی حکومت کی بنیادوں ،اس کی ترجیحا ت اور اس کے نظام کی باریکیوں سے کما حقہ آگاہی رکھتا ہو اور اسے مشکل فیصلے کرنے میں کوئی دشواری حائل نہ ہو۔چین میں چونکہ وراثتی سیاست کا گند نہیں ہے اس لئے وہاں پر قرعہِ ِفال اس شخصیت کے نام نکلتا ہے جو قیادت کی خوبیوں سے لیس ہوتا ہے۔کسی کا بیٹا ہونا، بھائی ہونا،خا وند ہونا، بیوی ہونا اور وارث ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ہمارے ہاں تو وارث بننے کیلئے خاندانی نام تک تبدیل کر لئے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ناموں پر ووٹ ملتے ہیں۔ذہن و دل غلامی کے خو گر ہو جائیں تو سمجھنے سوچنے کی صلا حیتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور مردہ پرستی اپنا رنگ دکھاتی رہتی ہے۔چینی نظام کی خو بیوں کا صلہ یہ ہے کہ چینی معیشت اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور چینی قوم اس وقت دنیا کی سپر پاور بننے کیلئے پر تول رہی ہے۔امریکہ کی بدحال ہوتی ہوئی معیشت کے بعد چین اس مسند کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے جس پر اس وقت امریکہ قابض ہے۔اسلامی ممالک کے خلاف امریکی دشمنی،جارحیت، بغض اور نفرت امریکہ کے زوال کا باعث بن رہا ہے ۔ افغانستان میں اس کی پنگے بازی اور فوج کشی اس کی تباہی کا پیش خیمہ بنی ہے۔وہ مسلم دنیاکو تباہ کرنے کا عزم لے کر اپنے گھر سے نکلا تھا لیکن اس کی اس روش نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ مسلم دنیا اب بھی کسی نہ کسی انداز میں اپنی بقا کو یقینی بنائے ہوئے ہے اور دھیرے دھیرے آگے کی جان بڑھ رہی ہے۔وہ کمزور ضرور ہے لیکن اس کے اندر اسلام کی جو محبت ہے وہی اس کے وجود کی ضمانت بنی ہوئی ہے۔اسلام کو مٹانے اور نیست و نابود کرنے کیلئے بڑے بڑے فرعون اور بازی گر آئے لیکن اسلام کے شجرِ سایہ دار کو کاٹنے میں کوئی کامیاب نہ ہو سکا۔یہ سچ ہے کہ اسلامی دنیا کو بہت سے مواقع پرحزیمت سے بھی ہمکنار ہونا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا وجود پھر توانا اور طاقتور ہو کر ابھرا ہے۔اسلام کے پیرو کاروں کی تعداد اب بھی دنیا کی دوسری بڑی آبادی کا درجہ رکھتی ہے اور مستقبل قریب میں مسلمان دنیا کی نمبر ون آبادی والی قوم بن جائیگی اور اس کے عروج کا زمانہ ایک دفعہ پھر لوٹ آئیگا لیکن شرط صرف اتنی ہے کہ وہ اپنے ہاں عد ل و انصاف کا نظام قائم کرے ۔عدل و انصاف سے ہی عزت و شرف اور عروج کے کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔اسی سے ا لیکٹرانک اور سا ئنسی ترقی کے د روازے بھی کھلیں گئے کیونکہ کبھی یہ دروازے مسلمانوں کے ہی قائم کردہ تھے ۔وہ دن دور نہیں جب د نیا میں ایک دفعہ پھر ان کے اقتدار کا پرچم لہرائے گا اور دنیا امن و سلامتی اور سکون و طمانیت کی اماجگاہ بن جائیگی کیونکہ اسلام کا پیغام امن اور محبت کا پیغام ہے اور دنیا کو آج اس پیغام کی جتنی اشد ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی اتنی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انسانیت زخم زخم ، مجبور ،بے بسَ،لہو رنگ اور خون میں لت پت ہے۔۔،۔،۔،۔،۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 450460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.