عوام کیا سوچتے ہیں ؟

جب بھی کوئی دہشت گردی کا سانحہ رونما ہوتا ہے۔آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ دشمن ملک کے اندر فرقہ وارانہ فساد برپا کروانا چاہتا ہے۔ان خدشات کو تقویت اس وقت ملتی ہے ۔جب ملک کے اندر دہشت گردی کا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے۔اور اہل اسلام کے ایک گروہ کی جانب سے نہ صرف اس سفاکی اور بربریت کا بڑے فخر سے اسکا اعتراف کیا جاتاہے۔اس اعتراف کے جواب میں چند ایک نحیف سے آوازیں کانوں سے ٹکراتی ہیں ۔کہ اسلام کے کس حکم کے تحت بے گناہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو ان دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے؟

کچھ بڑے نام جن میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی شامل ہیں، دہشتگردوں کادفاع بھی کرتے ہیں۔انکا موقف ہوتا ہے کہ چونکہ حکومت امریکہ کی پٹھو بنی ہوئی ہے ۔اسکی پالیسیاں اختیار کی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کی واردادتیں ڈرون حملوں کے ردعمل میں کی جاتیں ہیں…… کبھی کسی راہنما نے ان دہشت گردوں سے یہ نہیں کہا کہ بے گناہوں کو قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی قومی املاک کو تباہ کریں۔امریکہ سے لڑنا ہے تو پھر امریکہ کو نقصان پنچایا جائے نہ کہ اپنے ہی ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے پر لگ جائیں۔
میں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے،اور مجھے اس بات میں صداقت دکھائی نہیں دی کہ ’’دشمن ملک میں فرقہ وارانہ فساد برپا کروانا چاہتا ہے‘‘ اور ہمارے عوام اس قسم کے پروپیگنڈے کے اثر سے کلی طور پر محفوظ ہیں۔ اپنی اس بات کی سچائی میں چند ایک واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا…… میں نے اس بات کا کھوج لگانے کے لیے کہ آیا واقعی دشمن کے جانسہ میں ہمارے عوام آ چکے ہیں۔جس سے ملک میں فرقہ وارانہ فساد اور خانہ جنگی برپا ہو نے کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں؟
اس مقصد کے لیے میں نے بہت سے شہروں اور دیہات میں لوگوں کے ساتھ شب و روز بسر کیے ہیں۔اور وہاں سے مجھے یہ اطمینان حاصل ہوا ہے ۔ کہ یہ محض دشمن کا پروپیگنڈہ ہے۔اور اس میں رتی بھر صداقت نہ ہے۔بلکہ مجھے یہ دیکھ کر بہت دلی مسرت ہوئی کہ ہمارے سادہ لوح عوام خواہ وہ شہروں میں بستے ہیں یا دیہات میں زندگی گذار رہے ہیں۔خواہ انکا تعلق اہل سنت و جماعت سے ہے یا اہل تشیع مسلک سے ہے۔ یا پھر اہل حدیث یا دیوبند مکتبہ فکر سے منسلک ہیں۔ سب آپس مین شیر و شکر ہیں۔یک جان دو قالب کے مصداق خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔

دیہات اور شہروں میں لوگوں نے آپس میں رشتہ داریاں قائم کی ہوئی ہیں۔ اہل سنت و جماعت کے گھروں میں اہل تشیع کی بیٹیاں بیاہی ہوئی ہیں۔ قلعہ ستار شاہ……لاہور شیخوپورہ روڈ پر واقع ایک بہت ہی قدیمی گاوں ہے۔ وہاں کے پیر سید منظور حسین شاہ بخاری نے قیام پاکستان سے قبل ہونے والے انتخابات میں شرقپور شریف کے انتہائی مضبوط امیدوار ملک مظفر علی کو شکست دی تھی…… اس قلعہ ستار شاہ کے ریلوے اسٹیشن پر 17اور18جیٹھ کو تمام نان سٹاپ ریل گاڑیاں ایک منٹ کے لیے رکتی ہیں۔ کیونکہ اس ایام میں عزا داری امام مظلوم کربلا برپا ہوتی ہے ۔اور ذوالجناح برآمد ہوتا ہے ۔پیر منظور حسین شاہ بخاری کا خاندان علاقہ کے بہت بڑے زمیندار ہے۔

اس پکے اہل تشیع خاندان نے اپنی بیٹی شیخوپورہ کے ایک ایسے خاندان کے ہاں بیاہی ہے جو کٹر اہل سنت و جماعت ہے اور انکی بڑے وسیع پیمانے پر پیری مریدی کا سلسلہ ہے۔ میری اپنی سگی بہن عشرت بانو شیخوپورہ میں ہی ایک سنی گھرانے کی بہو ہے۔ میرے خاندان میں اہل حدیث بھی ہیں دیوبندی بھی ہیں اور اہل تشیع بھی ……اورایک بڑی تعداد اہل سنت و جماعت سے بھی وابستہ عزیز و اقارب کی ہے۔
’’عوام کیا سوچتے ہیں ‘‘ کوکالم کا عنوان بنانے کے لیے جس بات نے مجھے مجبور کیا وہ یہ ہے کہ اس ماہ مئی میں میرے آبائی ٹاون شرقپور شریف میں دو اموات ہوئیں……دونوں مرنے والوں کا تعلق سادات گھرانوں سے ہے۔ ایک میرے محلے دار سید افضال علی شاہ نقوی تھے جو رضائے الہی سے وفات پا گے اور دوسرے شہر دار سید ارشد علی شاہ المعروف اچھو شاہ……سید اچھو شاہ ابھرتا ہوا نوجوان سماجی اور سیاسی راہنما ہے۔ جس نے بہت کم عرصے میں عوام کے دلوں ایسا بسیرا کیا کہ وہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا…… ایک شب نامعلوم ڈاکووں نے چند سکوں کی خاطر انھیں سفاکی سے قتل کردیا ……پیراچھو شاہ کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی۔

اگلے دن نماز جنازہ کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہوئے۔جگہ کم پڑ گئی…… نماز جنازہ میں شریک ہر آنکھ اشک بار تھی اورہر دل سوگوار۔

میری ان آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ دیوبندی مسلک سے تعلق ہے تو اسکا دل سوگوار نہیں ……نماز جنازہ میں شیعہ بھی تھے ،سنی بھی اچھو شاہ کے قتل پر اتنے ہی سوگوار تھے جتنے کہ اہل تشیع یا اچھو شاہ کے گھر والے…… کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اچھو شاہ کے لیے اہل حدیث، سنی،شیعہ اور دیوبندی سب سوگوار تھے۔سب کے ہاتھ فضا میں بلند ہوکر سید ارشد علی شاہ کے قاتلوں کے عبرت ناک انجام کے لیے دعا گو تھے۔ سب کے سب بارگاہ الہی سے سید ارشد علی شاہ کی مغفرت کے طلب گار تھے۔

سید افضال علی شاہ اور سید ارشد علی شاہ کی رسم قل خوانی کے اجتماع اہل سنت و جماعت کی مساجد میں ہوئے۔سید افضال علی شاہ کی رسم قل اور رسم چہلم کا ختم میرے محلے کی’’ سرکار مدینہ مسجد‘‘ میں ہوا ۔اور مسجدکے خطیب قاری حافظ محمد عالم نقشبندی شیعہ عالم دین حافظ ریاض حسین جوادی کی صورت میں شیعہ سنی علما ء نے ملکر دعا کروائی۔اسی طرح سید ارشد علی شاہ المعروف پیر اچھو شاہ کی قل خوانی کا ختم شہر کی معروف ’’ شیر ربانی مسجد‘‘ میں ہوا…… آہ !کیا پر کیف شیعہ سنی اتحاد کے مناظر تھے۔ میں سوچنے لگا کہ اس دن کے لیے پوری امت ترستی ہے۔ کہ ایسا ماحول ہماری ہر مسجد میں دیکھنے کو میسر آئے……

یہ پر کیف مناظر دیکھنے کے بعد میں دشمنان دین و ملت کے اس پروپیگنڈے کو مسترد کرنے پر قائل اور آمادہ ہوا ہوں۔کہ جب تک ہمارے اندر ایسا جذبہ موجزن رہے گا کسی مائی کے لال میں ہمت نہیں کہ وہ ہم میں تفریق پیدا کر نے میں کامیاب ہو پائے۔ہمارے عوام باشعور ہیں۔ انھیں دشمنان دین و ملت اور دشمنان پاکستان اپنے پروپیگنڈے کے زور پر باہمی دست و گریبان نہیں کرسکتے……سید افضال علی شاہ اور سید ارشد علی شاہ المعروف اچھو شاہ کے لیے منعقدہ اجتماعات میں تمام مکاتب فکر کی شرکت بالخصوص اہل سنت و جماعت کی مساجد میں ان اجتماعات کے انعقاد پذیر ہونے سے مجھے پیغام ملا کہ ہمارے عوام کو اسلام کے نام پر بے وقوف یا آلہ کار بنانا اس قدر آسان نہیں ہے جس قدر دشمنان اسلام و دین و پاکستان خیال کرتے ہیں…… میں یہ کہنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ ہمارے عوام نے دشمن کے تمام پروپیگنڈے کو مسترد کردیا ہے۔ اور دشمن کو بتادیا ہے کہ پاکستان کے عوام ایسے نہیں سوچتے جیسا آپ سوچتے ہیں۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144186 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.