سپنے سہانے دکھانے کا فن

حج کانفرنس، بنگلہ دیش، مولانا محمود مدنی،عراق کی صورتحال اور ڈاکٹر طاہرالقادری

سہانے سپنے دکھاکر عوام کو مٹھی میں کرلینا ایک بڑا فن ہے۔ہمارے ملک میں یہ فن جو کام کرجاتا ہے وہ حکومت کا کوئی اچھایا براریکارڈ بھی نہیں کر پاتا۔ اس کا ثبوت حالیہ انتخابات میں دہلی، بہار اور مدھیہ پردیش کی ریاستوں میں ملا جہاں کے عوام نے اپنی ریاستوں میں تمام تعمیری، فلاحی اور ترقیاتی کاموں کو نظرانداز کرکے ووٹ سہانے سپنے دکھانے والوں کو دیدیا۔ووٹ دیتے ہوئے شاید کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ سپنے دکھانے والے اتنی جلدی وعدوں سیپھر جائیں گے اور ان کے سپنییوں بکھر جائیں گے۔دہلی میں کیجریوال نے فرارکی راہ اختیار کی اور مودی نے ’اچھے دنوں ‘ کی جگہ ’برے دنوں ‘ کی سوغات دی، جس سے عوام میں یقینا مایوسی ہے۔

اقتدار سنبھالتے ہی مودی سرکارنے ریل کے کرایوں میں سواچودہ فیصد اور مال بھاڑے میں ساڑھے چھ فیصد کا اضافہ کردیا۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ریل گھاٹے میں چل رہی ہے چنانچہ توسیع، جدید کاری اور مسافروں کو بہتر سہولتیں پہنچانے کے لئے پیسہ کی کمی ہے۔ دلیل درست ہے مگر تدبیر غلط ہے۔ پیسہ کی فراہمی کا واحد راستہ عوام پر کرایہ اور بھاڑے کا بوجھ ڈالنا نہیں ہے بلکہ پہلے کرپشن اور بدانتظامی کو ختم کرنا چاہئے تھا۔اپنی انتخابی مہم میں مودی نے نعرہ گڈ گورننس (چست و درست انتظامیہ) اور کرپشن کے خاتمہ کا لگایا تھانہ کہ عوام پر بوجھ ڈالنے کا۔اگر پہلے قدم کے طور پر ریلوے نظام کو بدعنوانی و بدانتظامی سے پاک کردیا جاتا تو امید ہے کہ ان بھاری اضافوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ایک خطیر رقم تو ان مسافروں سے ہی وصول کی جاسکتی ہے جو بغیر ٹکٹ سفر کرنے کے عادی ہیں۔ آخر یہی تو ریلوے تھی جس نے لالویادو کے دور میں بھاری نفع کماکر سرکار کو دیا تھا۔

اسی طرح کی دلیلیں دے کر اضافے پہلے بھی ہوئے، مگر ان میں ڈیلی پسنجرس اورکم فاصلے کے مسافروں، ضعیفوں، کمزوروں اور جسمانی طورسے معذوروں کے لئے کچھ نہ کچھ رعایت ہوتی تھی۔ مودی سرکار نے سب کے سر پر برابرکا بوجھ ڈال دیا ہے جس سے وہ لوگ بھی زیربار ہوگئے جور وٹی روزی کے لئے روز سفرکرتے ہیں۔بفرض محال کرایہ میں اضافہ کا کچھ فیض بعض سہولتوں کی صورت میں ملا بھی تو اس کی جو قیمت مسافروں کوچکانی پڑیگیوہ بہت زیادہ ہوگی۔علاوہ ازیں بھاڑے میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس کا اثر روزمرہ کے استعمال کی ہرچیزپر پڑیگا ۔ وہ نمک بھی مہنگا ہوجائیگا جو غریب کی روٹی میں سالن کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی وہ شیٹ بھی مہنگی ہوجائیگی جو بے گھرافرادبارش اوردھوپ سے بچنے کے لئے اپنے سروں پر تان لیتے ہیں۔غذائی اجناس مزید مہنگی ہونگی۔یہ اضافہ کرتے ہوئے حکومت نے ان تمام حساس پہلوؤں کو نظر اندازکردیا ۔

خبر یہ بھی ہے کہ رسوئی گیس کی قیمت میں ہر ماہ دس روپیہ کااضافہ ہوگا۔ گویا ایک سال میں 120 روپیہ اور اگلے پانچ سال میں 600روپیہ کا اضافہ ہوگا ۔ اس وقت دہلی میں سلنڈر کی قیمت 414روپیہ ہے جواگلے سال جون میں 534روپیہ اور پانچ سال میں 1014 روپیہ ہو جائیگی۔ چینی کے دا م بھی بڑھنے والے ہیں ۔ لگتا ہے بھاجپا کو عوام کے دکھ تکلیف اور پریشانیوں سے کوئی سروکار نہیں رہ گیا، جب کہ پچھلے دس سال ہردم بیچین نظرآتی تھی ۔ مسٹر مودی نے اس کو کڑوی گولی کہا ہے ۔ دیکھنا ہوگا کہ اگلے ماہ ریلوے بجٹ اورعام بجٹ میں کتنی کڑوی گولیاں اور عوام کے حلق میں ٹھونسی جائیں گیں؟

حج کانفرنس
بروزپیر، 23جون، دہلی میں منعقدہ کل ہند حج کانفرنس میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنی تقریر میں بڑی ہی ذمہ دارانہ باتیں کہیں۔ کانفرنس کی شرکاء کا تاثر ہے کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئی تھیں ۔ انہوں نے تمام مسائل کا احاطہ کیا۔ ان کا لب ولہجہ بھی حج کانفرنس کے ماحول سے ہم آہنگ تھا۔ انہوں نے حجاج کو درپیش مسائل میں جو دلچسپی دکھائی ہے اور ان کو حل کرنے کیلئے جو بھروسہ دلایا ہے ،اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ہم صرف دعا کرسکتے ہیں ان کی یہ تقریر ’سہانے سپنے ‘ کے صیغہ میں شامل نہیں ہوجائیگی اور انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس پران کی وزارت کام کریگی۔

وزیرخارجہ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سابق نوابین اور دیگراہل خیر حضرات کی قائم کردہ ان رباطوں کا بھی ذکر کیا جن میں سفر حج اور عمرہ کے دوران ہندستانی شہریوں کو قیام و طعام کی سہولتیں میسر تھیں۔مدینہ منورہ میں ایسی تقریبا135 رباط تھیں۔ مکہ مکرمہ میں بھی ان کی تعداداچھی خاصی تھی۔ خانہ کعبہ سے محض چھ سو میٹر کے فاصلے پر ’رباط نظام حیدرآباد‘ اب بھی موجود ہے۔ ممکن ہے کچھ دیگر بھی موجود ہوں۔ حرمین شریفین کی توسیع میں جو رباط آگئیں ان کے لئے سعودی حکومت نے خطیررقوم بطور معاوضہ ادا کیں تاکہ ان سہولتوں کوبافراغت نئے مقامات پر منتقل کیا جاسکے ۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ وزیر خارجہ کے اس عندیہ کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے کہ ان رباطوں کے بارے میں ، جووقف تھیں،تحقیق کرائی جائے۔امید ہے کہ سعودی حکومت کا تعاون بھی حاصل ہوجائیگا۔وزیر خارجہ نے عازمین حج وعمرہ کے قیام کے لئے مستقل نظم کا بھی ذکر کیا ۔ یہ کچھ مشکل نہیں۔ حرمین شریفین کے نواح میں بڑی تعداد میں کثیر منزلہ ہوٹلوں کی تعمیر ہورہی ہے۔ حکومت ہند ایسے پروجیکٹوں میں اشتراک کرسکتی ہے۔

اس اجلاس میں مسٹراسدالدین اویسی ، ایم پی نے یہ مشورہ دوہرایا کہ حج سب سیڈی کا تماشا بند کیا جائے۔ یہ مطالبہ مسلم قیادت برابر کررہی ہے ۔ رہا اس صورت میں مصارف میں اضافہ تو حج اسی پر فرض ہے جو بافراغت مصارف برداشت کرسکے۔البتہ مصنوعی طور سے سفر خرچ میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔مثلا ہوائی جہاز کا جوکرایہ عازمین حج سے وصول کیا جاتا ہے وہ عام کرایہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حج کمیٹی کو اجازت دی جائے کہ ہوائی سروس کا انتخاب خود ٹنڈر کے ذریعہ کرلے۔ علاوہ ازیں سمندری جہازوں کا متبادل بھی کھولا جائے، جس کو حکومت نے بند کردیا۔ بحری راستے سے سفر کم خرچ ہوتاہے۔جہاز وں کا بندوبست حج کمیٹی خود کرسکتی ہے۔اب بھی بہت سے ممالک سے عازمین حج وعمرہ بحری جہازوں سے آتے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش
وزیر اعظم نے اپنی رسم حلف برداری میں سارک ممالک کے سربراہان کو مدعوکرکے پڑوسی ممالک سے رشتوں کی استواری کے مبارک عندیہ ظاہرکیا تھا۔ اسی کے تحت انہوں نے اپنا پہلا غیرملکی سفر پڑوسی ملک بھوٹان کا کیا۔ اب وزیر خارجہ سشما سوراج ڈھاکہ جارہی ہیں۔ وزارت خارجہ کی ایک تجویز یہ تھی کہ متعدد دیگر ممالک کے طرح بنگلہ دیش کے شہریوں کوبھی ہند آمد پر ویزا کی سہولت جاری کی جائے۔ مگر آسام کے کانگریسی وزیراعلا ترن گوگوئی نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ایک خبر یہ ہے آسام کے ایک سابق ایم پی نے مرکزی وزارت داخلہ کو منفی رپورٹ دینے پر آمادہ کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بھوٹان اور نیپال کے باشندوں کو بغیرپاسپورٹ اور ویزا ہند آنے کی سہولت حاصل ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش کا نام آتے ہی سیکیورٹی کا ہوا کھڑاکردیا جاتا ہے۔ پالیسی میں اس تفریق کی بنیاد وہ فرقہ ورانہ سوچ ہے جس پر حکومت ہند 65سال سے کاربند ہے۔ آسام میں مسلمانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کا ظالمانہ رویہ بھی اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی سرکار کیا رویہ اختیار کرتی ہے؟ اچھا ہو کہ دنیا کی دوسری سب سے نمایاں جمہوریت کی نمائندہ کی حیثیت سے محترمہ سوراج ڈھاکہ کو یہ بھی باور کرائیں اس نے اپوزیشن کو کچلنے کے لئے جوراہ اختیار کی ہے وہ جمہوریت کے تقاضوں کے منافی ہے۔

مولانا محمود مدنی
پربھوچاولہ کے پروگرام ’سیدھی بات‘ میں مولانا محمود مدنی نے اگرچہ سدھے ہوئے انداز میں جوابات دئے، مگر اہم سوال یہ ہے جوسوال کئے گئے وہ کتنے معقول تھے؟پربھو چاولہ نے صرف تین موضوعات کو چنا۔ مودی سرکار کے تئیں مسلمانوں کے ردعمل پرمولانا نے بجا کہا کہ ہم عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ مودی سرکار کی کارکردگی پر کوئی رائے قائم کرنے کے لئیان کو ایک دوسال کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ دوسرا سوال یکساں سول کوڈ پر تھا اور تیسرادفعہ 370کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ کا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ان سوالات کا اس ایجنڈے سے کیا تعلق ہے جس کے حق میں عوام نے مودی کو ووٹ دیا ہے؟کیا یکساں سول کوڈ بن جانے اور دفعہ 370ختم کردینے سے غریبی، بے روزگاری ، بیماری ، ناخواندگی اور پینے کے پانی جیسے عوامی مسائل حل ہوجائیں گے اور ملک کا نام دنیا میں روشن ہوجائیگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم قیادت کونہ تو یکساں سول کوڈ کے اشو پر پریشان ہونے کی ضرورتہے اور نہ دفعہ 370پر۔ ابھی تک توسبھی ہندوفرقوں کویکساں طور سے منظور سول کوڈ نہیں بن سکا، ہم سے یہ سوال کیوں ہوتا ہے؟ رہا دفعہ 370تو یہ آئینی اورقانونی معاملہ ہے۔ اس پر بحث محض سیاسی عیاری ہے۔ بہرحال مولانا نے پربھوچاولہ کی باربار مداخلت کے باوجود سکون کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔

عراق کی صورت حال
گزشتہ چند سال سے رضاکار فوجیوں کی تنظیم ’’الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام‘‘ (داعش) شام میں برسرپیکار تھی اور اس کو امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی تائید و نصرت حاصل تھی۔ شام میں تو اس کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی،البتہ جیسے ہی اس نے عراق کا رخ کیا،آگے بڑھتی چلی گئی اور کئی اہم شہروں پراس کا قبضہ ہوگیا۔ یہ خبریں بھی آئیں عراقی فوجیوں نے کئی جگہ بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈال دئے۔ داعش کو عوام کی مدد بھی مل رہی ہے۔ جس سے نوری المالکی کی حکومت کی غیر مقبولیت ظاہر ہوتی ہے۔مالکی کو صدام کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں نے عراق پر مسلط کردیا تھا، مگر وہ عراق کے باشندوں میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکے۔ہرچند کہ ان کی پالیسوں کی بدولت فرقہ ورانہ خلیج بڑھ گئی مگرسنی ہی نہیں کئی شیعہ رہنما بھی ان کے طور طریقوں سے نالاں ہیں۔ اس لئے ان کی حکومت کو شیعہ حکومت کہنا اور اس ٹکراؤ کو شیعہ سنی ٹکراؤ باور کرانا سیاسی عیاری ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب تک داعش شام میں سرگرم رہی، اس کی تائیدہوتی رہی اور جیسے ہی اس کی زد پر عراق کا امریکا نواز حکمراں آیا، داعش کو ’’ باغی ‘‘ اور’’ دہشت گرد‘‘کہا جانے لگا۔اس کی واحد وجہ اس کا نام ’’اسلامی مملکت عراق و شام ‘‘ ہونا ہے۔ مغربی میڈیا کو ہر وہ چیز ’’دہشت گرد‘‘ لگتی ہے جس میں اسلام کا نام آجائے۔ اسی کی نقل ہمارے اخبار بھی کرتے ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے پیر ، 23جون بغداد کا دورہ کیا۔ ان کے بیان سے لگتا ہے کہ اب امریکا بھی اس حق میں ہے کہ مالکی کوہٹایا جائے۔ مگراب صورتحال یہ ہے عراق عملاً تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ ایک حصہ پرکرد حکومت کررہے ہیں۔ دوسرے پر داعش قابض ہے اور کچھ حصہ پر ابھی بغداد کی حکومت ہے۔ موجودہ حالت میں کرد بغداد کی سربراہی کو قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے بلکہ انہوں نے عراقی فوج کے فرار ہوتے ہی کچھ اورعلاقوں پر تسلط قائم کرلیا ہے۔غالباًامریکا نے انہی حالات کے پیش نظر براہ راست فوجی مداخلت سے انکارکردیا ۔ امکان یہ ہے کہ اس تصادم کے نتیجہ میں عراق تین حصوں میں تقسیم ہوجائیگا۔ اسلامی ممالک کے حصے بخرے ہوجانا اور ان میں انتشار جاری رہنا ، ممالک غیر کوبھی راس آتا ہے۔ لیکن داعش کو متنبہ رہنا چاہئے کہ وہ اپنے قبضے والے خطے میں وہ طرز حکمرانی اختیار نہ کرے جو افغانستان میں امریکا کے پیدا کردہ طالبان نے اختیارکیا تھا، بلکہ ایک مثالی فلاحی حکومت کا نمونہ پیش کرے۔ ورنہ ان کی مدت عمر مختصر ہوجائیگی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری
پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری بنیادی طور سے جدید تعلیم یافتہ ماہر قانون ہیں ۔وہ 1978سے 1983تک پنجا ب یونیورسٹی لاہورمیں بین اقوامی آئینی قانون کے پروفیسررہے۔اسلام کے قانون جرم وسزا(حدود) میں پی ایچ ڈی کی۔ بلا کے ذہین ہیں۔ اسلامی علوم پر توجہ مرکوز کی تو اس میں بھی کمال حاصل کیا۔ صوفیائے کرام کی حیات اوران کی تعلیمات ان کا خاص موضوعہے۔ان کی تقریردل پذیر کا کیا کہنا! لگتا ہے علم کا دریا رواں دواں ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ تصوف کے ساتھ ان کی دلچسپی سیاست میں بھی ہے۔ وہ قومی اسمبلی کے منتخب رکن رہے۔وہ گزشتہ تقریباً دس سال سے ٹورنٹو (کناڈا) میں مقیم ہیں، مگر پاکستانی سیاست میں ان کے دم سے ہنگامہ خیزی رہتی ہے۔سنہ 2012 میں پارلیمانی چناؤ سے پہلے وہ پاکستان پلٹے اور لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ کئی دنوں تک ان کے حمایتی، جو ان کی مذہبی روپ سے زیادہ مسحور ہیں، جنوری کی بھری سردی میں اسلام آباد کی سڑک پر دھرنے پر بیٹھے رہے اور خود ڈاکٹر صاحب ایک ہوٹل میں قیام پذیررہے۔ وہ چاہتے تھے ملک کا نظام حکومت بدلے۔ وہ تو نہیں بدلا، مگر نجانے کیا ہواوہ خود ہی بدل گئے اور واپس کناڈاچلے گئے۔ اب پھر وہ پاکستان تشریف لائے ہیں اورکہتے ہیں ویسی ہی تحریک چلائیں گے جیسی ’’بہار عرب‘‘ کے نام سے بعض عرب ممالک میں چلی، جس کی بدولت عدم استحکام اور بیرونی مداخلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ رمضان سے ایک ہفتہ قبل ان کی تازہ آمد کا خیرمقدم پرتشدد مظاہروں کی خبروں سے ہوا۔ لاہور میں ان کے حامیوں کا پولیس سے تکراؤ ہوا اور کئی زخمی اسپتال میں پڑے ہیں ۔انہوں نے پاکستان آتے ہی مطالبہ کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، فوجی تحفظ فراہم کیا جائے۔وہ جمہوری نظام حکومت کے مخالف اور فوج کے مداح ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ تصوف کے اس مبلغ کے تشدد سے اس رشتہ کو کیا نام دیا جائے؟ ہمارے محترم حضرات صوفیائے کرام توامن وآتشی اور محبت کے نقیب رہے ہیں ۔ وہ کبھی سیاسی جھمیلوں میں نہیں پڑے۔ حکومتوں نے ان کو بیجا عتاب کا نشانہ بھی بنایا مگر ان کے کردار سے تشدد کی جھلک تک نظر نہیں آئی۔ عاشق رسول اورصوفیائے کرام پر شیداقابل احترام علامہ طاہرالقادری کے مزاج میں یہ روگ اور قول اورعمل کی یہ دوئی ان لوگوں پر یقیناشاق گزرتی ہے جو صوفیائے اسلام کی خدمات عالیہ کا احترام لازم سمجھتے ہیں۔ (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163705 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.