شیخ صاحبان آپکا یجنڈا فکس ہے

پاکستان کے شہر جھنگ میں پیدا ہونے والے دور حاضر کے مفکر"شیخ اسلام"پروفیر ڈاکٹر محمد طاہر القادری پنجاب لاء یونیورسٹی کے استاد رہے ہیں اور مختلف ممالک میں ہزاروں لیکچر دے چکے ہیں ، سینکڑوں موضوعات پر پانچ ہزار سے زائد ریکارڈ لیکچرز آڈیو کیسٹس ،CDsاورDVDکی صورت میں ، جن میں ایک ایک سو سے زائد خطابات کی سریز کی شکل میں ہیں ۔محترم کی کتب کی تعداد کم وبیش ایک ہزار ، جن میں سے چار سو پچیس زائد کتب انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں طبع ہوچکی ہے۔چھ سو تیس کتب کے مسودات طباعت کے مختلف مراحل میں میں ہیں۔کل خطابات کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائدہے پاکستان میں "عوامی تعلیمی منصوبہ"کی بنیادرکھی اور ان کے مطابق سینکڑوں اسکولز اور کالجز کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے ۔ایک یونیورسٹی ، چار کالج ،ماڈل اسکول 257اور پبلک سکولز310جس میں مجموعی طور پر 42000طلبا ء و طالبات زیر تعلیم ہیں لیکن تعلیم مفت نہیں دی جاتی ۔ تمام مضامین کے امتحانات خود منہاج القرآن بورڈ ہی لیتا ہے۔MESکے قائم کردہ سکولز اور ملحق اداروں میں 41کتب جو ڈائریکٹوریٹ آف کریکولم ریسرچ کے تحت تدوین و اشاعت کی گئی ،بطور نصاب شامل ہے۔ تمام تر تحقیق میں صرف ــ"سائنس "کے نام پر ایک کتاب ہے ، باقی عربی ، اسلامیات،اردو پر مشتمل کتب ہیں۔ جو مسالک عقائد پر ہیں ۔ کیونکہ اسلام کا ہر فرقہ اپنے مسلک کے مطابق ترتیب کو درست قرار دیتا ہے اس لئے اس پر بھی بحث مقصود نہیں ۔تحریک منہاج القرآن محض این جی او تنظیم ہے جس کے زیر اہتمام تعلیمی ادارے قائم ہیں ۔ لیکن ان تعلیمی نیٹ ورک سے کتنے طالب علموں نے جدید دورکے مطابق میڈیکل ، فلکیات، معاشیات یا سائنسی علوم میں کون سی نامور شخصیات فارغ التحصیل ہوکر پاکستان کی خدمت کر رہی ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔تحریک منہاج القرآن کو مختلف مذہبی مسالک نے ان کے عقائد اور طریقہ کار پر"طاہریہ فرقہ"کے نام سے بھی موسوم کیا ہے ۔ اس لئے مسلکی اختلافات سے بچنے کیلئے تفصیلات میں جانا مقصود نہیں ہے، عوام خود فیصلہ کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔ تاہم گمان یہی تھاکہ ہزاروں طالب علموں کی کوئی ایسی کھیپ تیار ہوچکی ہوگی جو ، مسلم امہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے اسلامی رنگ کیساتھ جدیدتقاضوں کے مطابق ہنر مند ، اور اسلام مخالف قوتوں کیخلاف سائنس کے میدان میں کارہائے کارنامے سر انجام دیکر مسلمانوں کو اپنے اسلاف کا جانشین بنا دے گی۔نبی اکرم ﷺ کے دور میں عربی زبان اور قرآن مجید نصاب کا حصہ تھے ۔ خلفائے راشدین کے دور میں تفسیر، حدیث، علم الانساب ، اسماء الرجال ،عربی محاوارت اور جغرافی شامل تھے ۔عباسی دور تک پہنچتے پہنچتے نصا ب ِ تعلیم قرآن، قرات و تفسیر ، فقہ ، خطاطی، جغرافیہ ، تاریخ، ریاضی، جغرافیہ ، علم نجوم ، نظم ، گرامر، کیمیا، فن تعمیر ، سنگ تراشی ، عسکری فنون،صنعتی فنون اور فن خطابت شامل ہوگئیابن الخلدون کی طرح طبعی علوم یا علوم عقلیہ ،طبعی علم میں منطق،حساب، ہیت، موسیقی ، طبعیات ، الہیات ،ابوالفضل کے مرتب نصاب کے مطابق علم الحساب ، علم الہندسہ،فن زراعت، علم المساحت،علم ہیت،رمل، معاشیات،انتظام ملکی، طبعیات، منطق، ریاضیات، الہیات اور تاریخ کی شعبوں میں کام کیا گیا تو مسلمانوں نے ترقی بھی کی اور یورپ کو جدید تعلیم سے آراستہ بھی کیا، لیکن بد قسمتی سے مختلف وجوہات کی بنا ء پر جدید تعلیم سے محروم کردی گئی۔ لیکن انقلاب کے نام پرکسی بھی مفکر نے سو کروڑ روپے سے زائدخرچ کرکے جلسے کا ہتمام نہیں کیا۔کل کو بیکن ، فیلکن ہاؤس ، ماما پارسی سمیت انگلش نظام تعلیم کے ہزاروں ادارے جن کی شاخیں پوری دنیا میں پاکستان سمیت موجود ہیں وہ بھی اپنے لاکھوں طالب علموں کے ساتھ میدان میں اتر آئیں گے تو کیا ہوگا ۔ دیو بند ، بریلوی مسلک اپنے ہزاروں مدارس کے دنیا بھر میں پھیلے نیٹ ورک کے ساتھ مینارِ پاکستان آگئے تو پھر کیا دوسرے مسالک انھیں تسلیم کریں گے ؟ کیا آخا خانیوں سے بڑھ کر جدید ترین تعلیمی سیٹ اپ کسی کے پاس ہے ، پیسوں کی بھی کمی نہیں ، پاکستان کے خالقوں میں سے بھی ہیں ۔ اگر وہ دنیا بھر کے سینکڑوں قائم اداروں کی طرح اپنی اصلاحات دینے کیلئے دہمکی دینے آگئے تو کیا سب کو ماننا ہوگا ؟ ۔ اور پھر تحریک طالبان بھی تو لاکھوں فدائیوں کیساتھ ایک سسٹم کا مطالبہ کر رہی ہے جیسے وہ اپنے تئیں درست سمجھتی ہے تو پھر اس پر اعتراض کرنے کا کیا جواز رہ جائے گا ؟۔ متحدہ ہندوستان میں جب عطا اﷲ شاہ بخاری رات کو تقریر شروع کرتے تو صبح تک لوگ بیٹھے رہتے لیکن ان کا گلہ ہمیشہ یہی ہوتا کہ مسلمان تقریر میری سنتے ہیں اور ووٹ مسلم لیگ کو دیتے ہیں۔شیخ صاحب مسئلہ یہ ہے کہ آپ جیسے بہت سارے شیوخ آتے رہیں گے لیکن نظام مصطفی اور انقلاب کے نام پر ہونے والی جبری آمریت کوابھی تک عوام نہیں بھول سکے۔جلسوں کیلئے اربوں روپے خرچ کر نے کے بجائے ایسے البرونی ، ابن الخلدون ، ابو الفصل کے افکار کے مطابق تعلیمی میدان میں کامیاب کار آمد انسان کی تشکیل میں صرف کرتے ہوئے دوہرے نظام تعلیم کو ختم کرتے تو تو عوام میں انقلاب آچکا ہوتا اور ڈاکٹر عبدالسلام ،ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے مزیدسائنس داں پیلے ٹاٹ والے سرکاری اسکول سے ہی مزید پیدا ہوجاتے اور دنیا میں ایک بار پھر مسلم امہ کا سکہ گونجتا۔ ویسے بھی طاہر صاحب نے اپنی خوائش کا اظہار کر کے ثابت کردیا ہے کہ ان کے آئندہ کے کیامقاصد ہونگے ۔یہ مصر نہیں ،پاکستان ہے جہاں مختلف النسل قومیت میں پٹھان ، سندھی ، بلوچ ، مہاجر ، پنجابی ، سنی ، مسالک میں شیعہ ، دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث وغیرہ ہیں۔یہاں کوئی پاکستانی اور خالص مسلم نہیں ہے ۔اگر کسی کو میری تنقید پر اعتراض ہے تو سروے کروالیں کہ طاہر القادری کی کتنی کتب ،کتنے پاکستانیوں نے آج تک پڑھی ہیں ۔ کتنے لوگوں نے ان کے خطبات اور مہنگی کتابیں خریدکر تحقیق کی ہے۔ عام غریب پاکستانی کو موٹی موٹی کتابوں سے زیادہ اپنے مسائل کا حل درکار ہے۔ ایسی جوشیلی تقاریر ہر جمعے کے خطبے میں سنتے ہیں ۔ بچارا غریب اپنی سال بھر کی کمائی اکھٹی بھی کرلے تو شیخ صاحب کی ایک کتاب بھی خریدنہیں سکتا۔ المیہ یہی ہے کہ آج مسلمان تعلیم کیجانب متوجہ نہیں ہیں کیونکہ ایسے خانہ جنگیوں ، بد امنی ، دہشت گردی اور ملکی بغاوتوں میں الجھا دیا گیا ہے۔معاشی طور پر مضبوط مسلم حکومتیں عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ ترقی پذیر مملکتیں معاشی الجھنوں و مفاہمتی سیاست و تعلیم پر مجرمانہ عدم توجہ کا شکارہیں۔ سینکڑوں اسکول شدت پسندوں نے تباہ کرڈالے۔مسلم دنیا کو اقوام عالم پر ماضی کی طرح فکری تسلط چاہیے تو انھیں تعلیم کی تریج پر توجہ دینا ہوگی جو اصل اسلامی اساس ہے۔ ہم موجودہ مدارس کو جدید تقاضوں کیمطابق ہم آہنگ کرکے مسلم امہ کی شان و شوکت بحال کرکے اسلام کیخلاف تعلیمی سازش ناکام بناناہوگا۔تعلیمی فروغ کیلئے اپنے اسلاف کی پیروی کریں۔کیونکہ یہی واحد حل ہے، غلامی سے نجات کا ۔لیکن جو دوہری تعلیم دی جارہی ہے اسکی تفریق تو سب سے پہلے ختم کریں کہ یہ دنیاوی تعلیم ہے اور یہ دینی تعلیم ہے ۔کروڑوں روپے خرچ کرکے ریلی بھی کرلیں گے وہ بھی کامیاب ہوگی ۔ لیکن شیخ طاہر القادری صاحب اور شیخ رشید صاحب آپکا یجنڈا فکس ہے کہ انقلاب پیدا کرنے کے بجائے ملک کو انتشار اور انارکی کی آگ میں جھونک دیا جائے، ۔ سیاست میں ناکامی کے بعد بیرونی قوتوں کے کندھوں پربیٹھ کر پاکستانی قوم کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ شیخ طاہر القادری کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں۔وہ پہلے بھی اپنے مقصد میں ناکام ہو کر جا چکے ہیں اور اب دوبارہ انھیں اپنا مذموم مقاصد میں ناکامی ہی ہوگی ، ضرورت صرف بات کی ہے پنجاب اور وفاق کی شریف بردارن کی حکومت ذرا تحمل اور بردباری سے کام لے۔ماڈل ٹاؤن والے جیسے فیصلے کرکے اپنی مدت حکومت کو زخود کم نہ کرے تو سب کیلئے بہتر ہے۔
، " سادگی پر اس کی ،مر جانے کی حسرت دل میں ہے بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے۔"
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661025 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.