سماجی المیہ

ہمارے ایک دوست جو کچھ دنوں کے لیے لندن گئے تھے جس جگہ وہ ٹھیرے ہوئے تھے اس کے پڑوس میں ایک بوڑھا انگریز روز صبح اپنے پودوں کو پانی دیا کرتا تھا ان کی ان سے کچھ دعا سلام ہوگئی روزآنہ کی ملاقات میں جب کچھ بے تکلفی ہوگئی تو اس بوڑھے انگریز نے بتایا کہ اس کے تین بیٹے ہیں اور تینوں اچھے عہدوں پر ملازم ہیں ،لیکن کوئی ان سے ملنے کے لیے نہیں آتا کبھی کبھی چھوٹا بیٹا آجاتا ہے وہ اس لالچ میں آتاہے کہ شاید میں اسے اپنی جائداد دے دوں پھر اس نے ایک تکلیف دہ واقعہ سنایا ایک دفعہ وہ اپنے کسی کام سے لندن سے باہر اس شہر میں گیا جہاں اس کے بیٹا بھی رہتا تھا رات گیار ہ بجے تھے سخت سردی اور بارش ہو رہی تھی ٹھنڈی او ریخ ہوائیں چل رہی تھیں اسٹیشن کے قریب میرے بڑے بیٹے کا گھر تھا میں نے اس کی کال بیل دی اندر سے آواز آئی کون ہے میں نے اپنا تعارف کرایا اندر سے میرے بیٹے نے جواب دیا کہ ابھی یہ ملنے کا وقت نہیں ہے آپ کل صبح آئیں میں واپس آگیا اور اسٹیشن پہ رات گزاری ۔ابھی پچھلے دنوں پوری دنیا نے باپ کا دن منایا ہے اس سے پہلے ماں کا دن منایا گیا تھا یہ ہر سال ماں اور باپ کے دن کیوں منائے جاتے ہیں اس لیے کہ اس معاشرے میں یہ ہستیاں گم ہو چکی ہیں اس لیے ان کی یاد منانے کے لیے اب ماں اورباپ کے دن منائے جاتے ہیں لندن کے ایک فلیٹ میں ایک بوڑھی خاتون اکیلے رہتی تھی اس کے چھ بیٹے تھے جو سب الگ رہتے تھے دودھ والا روزآنہ دروازے پر دودھ کی تھیلی رکھ جاتا تھا ایک روز اس نے دیکھا کہ کل کی دودھ کی تھیلی رکھی ہوئی ہے یہ سوچ کر کہ شاید کہیں گئی ہوئی ہوں وہ دوسرے دن کی تھیلی بھی رکھ گیا تیسرے دن جب اس نے دیکھا کہ تینوں تھیلیاں جمع ہوگئیں تو اس نے قریبی تھانے میں اطلاع دی پولیس نے فلیٹ کا تالا توڑااندر سے اس بوڑھی انگریز خاتون کی تین دن پرانی لاش ملی جو کسی وقت مر گئی ہوگی لیکن قریبی عزیزوں حتیٰ کے اس کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو پتا نہ چل سکا مغربی تہذیب جو اپنے آپ کو پوری دنیا کی غالب تہذیب گردانتی ہے اور مغرب کا معاشرہ جو اپنے آپ کو مہذب معاشرہ کہتا ہے اس مہذب معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں اب ماں باپ کے لیے گھروں میں جگہ نہیں رہ گئی ان کے لیے اولڈ ہاؤسز بنائے گئے ہیں جہاں وہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام گزارتے ہیں ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بھی اسی چکاچوند کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں ہمارے یہاں اس طرح کے اولڈ ہاؤسز تو نہیں بنے ہیں لیکن کچھ بوڑھے لوگ اب اس کی تمنا کرنے لگے ہیں کہ ان کے ساتھ گھروں میں جو سلوک ہورہا ہے وہ اسے کہیں کہہ بھی نہیں سکتے اب یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ ایک باپ دس بیٹوں کو پال پوس کر اپنے پیروں پر کھڑا کر دیتا ہے لیکن دس بیٹے مل کر ایک باپ کو نہیں پال سکتے ۔ایک دفعہ ایک بوڑھے باپ نے اپنے بیٹے سے پوچھاکہ دیوار پر کیا ہے بیٹے نے جواب دیا کوا ہے باپ نے دوبارہ پوچھا اس نے جواب دیا یہ کوا ہے پھر پوچھا پھر یہی جواب دیا چوتھی بار پوچھنے پر بیٹے نے جھلا کر کہا کیا ہے ابا کائیں کائیں کیے چلے جارہے ہو ایک دفعہ کہہ دیا نا کہ یہ کوا ہے ،باپ نے کہا بیٹا جب تم چھوٹے سے تھے یہی سوال تم نے مجھ سے پچیس مرتبہ پوچھا تھا میں نے ہر مرتبہ بڑی محبت سے جواب دیا تھا کے بیٹا یہ کوا ہے ۔سورہ بنی اسرائیل کی آیات 23-24کاترجمہ ہے "والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو نہ انھیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ بچپن میں پالا تھا"آیات میں بتایا گیا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے اور اولاد کو والدین کا مطیع ،خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کووالدین سے بے نیاز بنانے والا نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے اوربڑھاپے میں ان کی اس طرح خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور نازبرداری کر چکے ہیں یہ آیت بھی صرف اخلاقی سفارش نہیں ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر بعد میں والدین کے وہ شرعی حقوق واختیارات مقررکیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث و فقہ میں ملتی ہیں۔سورہ لقمان کی آیات 14-15کا ترجمہ ہے "یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے ۔اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اس لیے ہم نے اس کو نصیحت کی ) میرا شکر اور اور اپنے والدین کا شکر بجا لائے میری طرف تجھے پلٹنا ہے لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کر۔مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا پھر تم سب کو پلٹنا میری طرف ہے اس وقت میں بتادوں گاکیسے نیک عمل کرتے رہے ہو".والدین کے حقوق کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کی بہت سی احادیث بھی اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہیں حضرت حکیم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کون بھلائی(حسن سلوک)کا زیادہ مستحق ہے فرمایا تمھاری والدہ ۔ میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا تمھاری والدہ ۔عرض کیا ان کے بعد ؟فرمایا تمھاری والدہ ۔میں نے چوتھی مرتبہ عرض کیا ۔ان کے بعد کون زیادہ مستحق ہے تو اس مرتبہ آپﷺ نے فرمایا تمھارے والد اور ان کے بعد اقربا میں سے جو سب سے زیادہ قریبی ہوں اور اسی طرح درجہ بدرجہ ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سوال کیا بس میں نے دریافت کیا یا رسول اﷲ کون سا عمل افضل ہے ؟فرمایا نماز اپنے وقت پر ۔ تو میں نے اس کے بعد یا رسول اﷲ ؟فرمایا والدین سے اچھا سلوک کرنا ۔پھر میں نے پوچھا ،پھر کون سا یا رسول اﷲ ؟فرمایا جہاد فی سبیل اﷲ حضرت عبداﷲ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺنے فرمایا ۔اﷲ تعالی کی رضا والد کی خوشی میں اور اﷲ کا غصہ والد کے غصے میں مضمر ہے ۔حضرت عبداﷲ بن عمرو کہتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ۔کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے ۔لوگوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے ؟فرمایا ہاں جب کوئی شخص کسی دوسرے کے والد یا والدہ کو گالی دیتا ہے تو وہ بھی اس کے والدین کو گالی دیتا ہے ۔حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ۔بہترین نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے ۔حضرت براء بن عازب کہتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا خالہ ماں کی طرح ہے۔ایک بڑی اہم حدیث جبرئیل ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے ممبر رسول کی پہلی سیڑھی پر پیر رکھا اور کہا آمین پھر دوسری سیڑھی پر آئے تو کہا آمین اور تیسری سیڑھی پر پھر کہا آمین۔صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا سول اﷲﷺ آپ کس بات پر آمین کہہ رہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا ابھی حضرت جبرئیل آئے تھے اور انھوں نے تین دعائیں مانگی ہیں جس پر میں نے آمین پہلی دعا میں حضرت جبرئیل نے کہا کہ اﷲ اس شخص کو تباہ و برباد کردے جس کی زندگی میں رمضان آئے اور وہ اس کے ذریعے سے اپنی مغفرت نہ کراسکے۔دوسری دعا یہ مانگی کہ تباہ و برباد ہو جائے وہ شخص جس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک موجود ہو اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت کا مستحق نہ بن سکے تیسری دعا یہ کی کہ تباہ و برباد ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے اŸحمدﷺ کا نام آئے اور وہ ان پر درود نہ بھیجے۔ ایک دفعہ ایک نوجوان صحابی نے رسول ﷺ سے شکایت کی کہ میرے والد صاحب اکثر مجھ سے پیسے مانگتے رہتے ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا اچھا اپنے والد کو میرے پاس بھیجنا ۔پھر جب ان صحابی کے والد نبی اکرم ﷺ سے ملنے آرہے تھے تو وہ چونکہ شاعر بھی تھے اس لیے اپنے اشعار ہی گنگناتے ہوئے آرہے تھے جس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ میں نے اس پالا اس کی تربیت کی اسے بڑا کیا کچھ یہ الفاظ آپ ﷺ کے کانوں میں بھی سنائی دیے پھر آپﷺ نے ان سے کچھ نہیں کہا اور بعد میں ان کے بیٹے کو کہا کہ جو کچھ تم کماتے ہو یہ سب تمھارے باپ کا ہے ۔نبی اکرمﷺ چھوٹے سے اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑے جارہے تھے کہ اچانک ان کی والدہ حضرت بی بی آمنہ گر پڑیں اور تڑپنے لگیں اور پھر اسی وقت انتقال فرما گئیں اور اسی جگہ انھیں دفنایا گیا ان کی قبر مبارک پر اکثر نبی کریم ﷺ سر رکھ کر اور انھیں یاد کرکے رویا کرتے تھے ۔ایک دفعہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ اس جگہ سے گزر رہے تھے تو آپﷺ نے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑے جا رہا تھا کہ ان کا میرے سامنے انتقال ہو گیا ۔پھر کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں ایک چھوٹی بچی کے ساتھ کھیلا کرتا تھا اور دیکھو یہ وہ تالاب ہے جہاں میری والدہ مجھے تیرنا سکھاتی تھیں آپﷺ نے فرمایا کاش میری ماں زندہ ہوتیں اور میں مسلح بچھا کر نماز کے لیے کھڑا ہوتا اور نماز کی نیت باندھ لیتا پھر اگر میری ماں مجھے پکارتیں محمدتو میں نیت توڑکر اپنی والدہ کی بات سننے کے لیے چلا جاتا۔یہ ہے ہمارے مذہب اسلام میں ماں اور باپ کا مقام جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی تہذیب نہیں کر سکتی آخر میں علامہ اقبال کا ایک شعر
عمر بھر محبت جس کی میری جلوہ گر رہی میں جب خدمت کے قابل ہوا تو چل بسی
لے کے یہ فریاد میں تیری سوئے قبر آؤں گا اب دعائے نیم شب میں میں کسے یاد آؤں گا
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49954 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.