پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کا انقلاب کیسے برپا ہو سکتا ہے؟

انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کی صلاحتیں اس لیے دی ہیں کہ ان کو استعمال میں لایا جائے، ان کے ذریعے مسائل کی شناخت کی جائے، ناکامی کے اسباب ڈھونڈھے جائیں، ان کو دور کرنے کی منظم منصوبہ بندی کی جائے اور کامیابی کی طرف جانے والے راستوں پر تسلسل کے ساتھ سفر شروع کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ناکامی کامیابی میں نہ بدلے۔قوموں کی آزادی اور ترقی ہمارے سامنے ہے۔ چین ہم سے بعد میں آزاد ہوئے مگر آج سپر طاقت کے منصب پر فائز ہو چکا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ دوسروں کی ترقی سے سبق سیکھنے والے اور رہنمائی حاصل کرنے والے کامیاب ہو جاتے ہیں مگر اندھی تقلید کے خوگر دراصل اپنے دماغوں کی طاقت استعمال کرنے سے عاری رہتے ہیں۔ تقلید ایک ایسا نشہ اور ایسی مدہوشی ہے جو انسان کے دماغی خلیات کی حدت اور تپش کو یخ بستگی اور ٹھنڈک میں بدل دیتی ہے۔ تحقیق اور تقلید دو متضاد الفاظ ہیں۔ دونوں کا وجود بیک وقت محال ہے۔ بالکل ایسے جیسے ایک ہوش وحواس کے ساتھ جاگتے رہنے اور دوسرا مدہوشی میں خوابِ گراں میں پڑے رہنے کا نام ہے۔ تحقیق لفظ " حقیقت سے ماخوذ ہے۔ اس میں انسان چیزوں کی حقیقت جانتا ہے۔ تقلید اندھے، بہرے اور گونگے بن کر دوسروں کے پیچھے چلنے کا نام ہے۔ اسی لیے قرآنِ پاک نے انسان کو تحقیقی رویے اپنانے پر زور دیا ہے۔ کبھی فرمایا کہ " تم سوچتے کیوں نہیں" کبھی حکم ہوا کہ " تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے" کبھی زمین و آسمان کی اشیاء پر غور کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو کبھی انسانوں اور حیوانوں کی ساخت پر غور و فکر کی دعوت دی جاتی ہے۔ وہ اس لیے کہ ناکام انسان ان رویوں کے ذریعے کامیابی کی منزل تک پہنچ جائیں۔ حقیقت کے متلاشی ان فرامینِ الٰہی کے ذریعے اپنی حالت بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر تقلید اور جمود کے خوگر اندھے، بہرے اور گونگے بن کر گرنے کے سوا کچھ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارا رویہ بالکل وہ ہے جو قرآن کا غیر مطلوب ترین رویہ ہے۔ ہم نے آنکھوں پر جمود اور اندھی تقلید کی ایک دبیز اور سیاہ پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی کچھ معلوم اور دریافت کرنے کا داعیہ نظر آتا ہے۔ ذرا دیکھیے کہ مغربی اقوام نے قرآن کے ان فرامین پر کس طرح عمل کیا اور اپنے آپ کو تحقیق و تخلیق کے میدان میں بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ ذرا اس دور کی طرف نظر دوڑائیے جب ہم بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں سب سے آگے تھے۔ بغداد اور قرطبہ کی جامعات دنیا بھر میں تحقیق و تخلیق کے مراکز بن گئیں تھیں۔ تشنگانِ علم و فن پوری دنیا سے یہاں آکر اپنی پیاس بجھایا کرتے تھے۔ ابن الہیثم، بوعلی سینا، جابر بن حیان، امام رازی اور دیگر مسلم سائنس دانوں کا ستارہ اس دھرتی کے افق پر چمکا کرتا تھا۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں یورپ کی یونیورسٹیوں میں ایک لمبا عرصہ تک پڑھائی جاتی رہیں۔ آخر کیا کہ غاروں، گندی اور کیچڑ سے بھری گلیوں میں رہنے والی قوموں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اوجِ ثریا کو چھو لیا اور روشنی کے نور مناروں میں رہنے والی قومیں گندی گلیوں اور کیچڑ میں رہنے لگیں۔ تحقیق و تخلیق کی صلاحیت بھی دم توڑ گئی اور دنیا کی امامت بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ یہ پانسہ کیوں پلٹ گیا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی عقل ہم میں نہیں ہے؟ کیا پچاس سے زائد آزاد مسلم ممالک اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں؟ کیا ایٹمی پاکستان بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے؟ اگر سب کی زباں پر چپ کے تالے ہیں تو ایک معلّم کی زبان سے اس کا جواب سن لیجئے۔ ان گندی گلیوں اور کیچڑ زدہ علاقوں کے باسی حکمران سر جوڑ کر بیٹھے۔ انتہائی گہرائی کے ساتھ سوچا۔ منصوبہ بندی کے اس ابتدائی مرحلے میں وہ ایک بات پر متفق ہوئے ۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کی تمام سائنسی اور علمی کُتب کے ترجمے کیے جائیں اور اس پر تمام وسائل لگا دیے جائیں۔ جب ان کا علمی سرمایہ مسلمانوں سے بڑھ جائے گا تو مسلمانوں کی علمی برتری ختم ہو جائے گی۔ یہی ان کا نقطہ عروج ہوگا اور مسلمانوں کا نقطہ زوال ۔ کہنے کو یہ چند جملے ہیں لیکن ان کو مسلمانوں پر علمی برتری حاصل کرنے میں پوری ایک صدی لگ گئی۔ با الفاظِ دیگر ایک صدی تک تسلسل کے ساتھ مختلف علوم و فنون پر کتابیں لکھنے کا کام کیا۔ کسی بھی درست سمت میں بنائی گئی پالیسی اور اس پر تسلسل کے ساتھ عمل کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قعرِ ذلّت میں گری ہوئی قومیں اوجِ ثریا تک پہنچ جاتی ہیں۔ کتنی اظہر من الشمس ہے یہ بات۔ پاکستان کی تمام جامعات میں یہ کام اگر شروع کر دیا جائے اور ہر ضلع میں ایک لازمی یونیورسٹی قائم ہو جہاں دیگر علوم و فنون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک بڑا ترجمہ مرکز بھی قائم ہو جو مختلف علوم و فنون کو دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل کرے تو صرف بیس سالوں میں ہماری علمی کسمپرسی کا علاج ہو سکتا ہے۔ آجکل تو یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر اتنا جدید علوم پر مواد ہے کہ ہر دن کے چوبیس گھنٹے ڈاؤن لوڈ کرتے رہیں تو بھی ختم نہیں ہوتا۔اس کام کے ساتھ ساتھ اردو میں نئے نئے سوفٹ وئیر بھی تیار کیے جائیں تو ایٹمی پاکستان بہت جلد علمی پاکستان بھی بن سکتا ہے۔ صرف تیس سال تک اس پالیسی پر تسلسل کے ساتھ عمل ہوتا رہے تو پاکستان دنیا میں سپر طاقت کے طور پر ابر سکتا ہے۔ ورنہ وہی بھیک اور وہی پل پل بدلتی تعلیمی پالیسیاں اس کو گھن کی طرح چاٹ جائیں گی۔
Ishtiaq Ahmed
About the Author: Ishtiaq Ahmed Read More Articles by Ishtiaq Ahmed: 52 Articles with 168796 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.