ہم اپنے سائنس دانوں سے اور کیا چاہتے ہیں؟

تعلیم اور ریسرچ کے میدان پاکستان کا نمبر دنیا میں ۲۹ نمبر پر آتا ہے۔ دنیا میں سب اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمیں تعلیم اور تحقیق کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو منوانا چاہئے۔ لیکن ہماری ایسی ترجیحات نہیں ہیں کہ جس کے ذریعے ہم دنیا میں اپنا یہ مقام حاصل کرسکیں، پاکستانی قوم ذہانت کے اعتبار سے دنیا کی ذہین قوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سائنسی ادارے ناسا میں پاکستانی ماہرین کے تعداد زیادہ ہے بلکہ وہ اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں سائنسی اداروں کی نا قدری کا کیا حال ہے اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے کرسکتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی محمد اعظم خان سواتی ہیں۔ جو جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ کراچی تشریف لائے تو انھوں نے سرکاری سائنسی تحقیقاتی اداروں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے سائنس کی تحقیق کرنے والوں سے پوچھا کہ ان کے اس کام کا کیا فائدہ ہے، انھوں نے اس موقع پر نہایت حقارت سے کہا کہ ان اداروں کی جانب سے لمبے چوڑے اخراجات کرنے، حکومتی وسائل کو ضائع کرنے کے علاوہ کیا کام ہے۔ اور یہ ملک و قوم کی کیا خدمت کررہے ہیں۔ انگریزی معاصر روزنامے نے اس بارے میں جو تفصیل بتائی ہے۔ اس کے مطابق وفاقی وزیر نے پی سی ایس آئی آر، نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوسنو گرافی، پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالیٹی کنٹرول اتھارٹی، اور کونسل آف ورک اینڈ ہاﺅسنگ جیسے اداروں کا دورہ کیا۔

اس موقع پر وزیر موصوف نے ایک کام کا گر یہ بتایا کہ ان اداروں کے پاس جو زمین موجود ہے اس کو کمرشل طور پر استعمال میں لائیں۔ اور اس سے آمدنی میں اضافہ کریں۔ پی سی ایس آئی آر ملک کا قدیم تحقیقاتی ادارہ ہے۔ جو ۳۵۹۱ سے قائم ہے۔ اس ادرارے نے ملک میں سائنس کے فروغ اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے لئے شاندار خدمات انجام دی ہیں۔آج جوس، اور بہت سی اشیاء اور خشک خوراک کو محفوظ کرنے کی جو ٹیکنالوجی ہے۔ وہ اسی ادارہ کی تحقیق کی مرہون منت ہے۔ اس وقت جو برآمدات ہوتی ہیں۔ یہ ادارہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ اب تک اس ادارہ نے ۷۸۱۱ ٹیکنالوجی، اور پروسیس تیار کئے ہیں، جو نہ صرف ملک میں کمرشل طور پر استعمال میں ہیں بلکہ ۱۱۵ تو رجسٹرڈ ہیں۔ ۸۰۱ بیرونی ملک میں پیٹینٹ ہیں۔ اس ادارے کی آمدنی گزشتہ سال چار کروڑ تھی جو اب بڑھ کر چھ کروڑ ہوگئی ہے۔ حکومت ان تحقیقاتی اداروں کے سائنس دانوں کو تنخواہ کے علاوہ کیا دیتی ہے۔ پاکستان کے ان سائنس دانوں ہی کا کاررنامہ ہے کہ آج پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی صلاحیت رکھنے والی مملکت ہے۔ جس کی وجہ سے مغرب اور امریکہ ہمارا دشمن بنا ہو ہے۔ اس کے باوجود یہ ملک دنیا کے بہترین سائنسدان پیدا کرنے والا آٹھواں ملک شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان سائنس کی تحقیق پر اپنی کل مجموعی آمدنی کا صرف اعشاریہ چھ فیصد خرچ کرتا ہے۔ اس بجٹ میں ہم اپنے سائنس دانوں سے اور کیا چاہتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے جو اس ملک کے سارے وسائل پر دسترس رکھتے ہیں۔ کہ انھوں نے اس ملک کو کیا دیا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387587 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More