وہ کون تھے

افضل چنگا بھلا‘ ہٹا کٹا اور محنتی انسان تھا۔ پہلے گندم منڈی میں‘ پلے داری کرتا تھا‘ بعد میں‘ دستی ریڑی بنا لی۔ اس سے‘ جہاں مزدوری میں اضافہ ہوا‘ وہاں آسانی بھی ہو گئی۔ اس کی بیوی عنائتاں‘ ناصرف نیک اور شریف عورت تھی‘ بلا کی جفاکش بھی تھی۔ بڑے سلیقے سے‘ گھر چلا رہی تھی۔ اس کے منہ میں‘ ہر وقت شکر کا کلمہ رہتا۔ لباس نیا تو نہ ہوتا ‘ ہاں صاف ستھرا ضرور ہوتا تھا۔ اس جوڑی کو‘ توتے مینا کی جوڑی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ان کے گھر سے‘ کبھی کسی نے‘ اونچی آواز نہ سنی تھی‘ شائد وہ لڑتے ہی نہ تھے۔ اس جوڑی کے باہمی تعلق کو‘ بلامبالغہ مثالی قرار دیا جا سکتا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بائی نیچر‘ صلح جو اور ہم درد لوگ تھے۔ محلے کے دکھ سکھ میں‘ اپنوں کی طرح شریک ہوتے تھے۔ ان کی شرافت کے سبب‘ محلے کے چھوٹے بڑے‘ ان کی عزت کرتے تھے۔

ایک دن‘ افضل کام سے آیا‘ تو وہ کچھ ٹھیک نہ تھا۔ سینے میں‘ درد کی شکایت کر رہا تھا۔ عنائتاں نے کافی اوڑ پوڑ کیا۔ نیم گرم کڑوے تیل سے‘ مالش بھی کی۔ اس کی‘ اس پرخلوص خدمت سے‘ افضل کو کچھ سکون ملا‘ اور پھر وہ‘ گہری نیند سو گیا۔ عنائتاں بھی‘ سارے دن کی محنت کی وجہ سے‘ تھکی ہوئی تھی‘ اوپر سے‘ افضل کی پریشانی آ گئی تھی۔ اسے بھی گہری نیند نے آ لیا۔

فجر کی نماز کے لیے‘ افضل کو‘ عنائتاں نے‘ اٹھانا چاہا‘ لیکن وہ نہ اٹھا۔ پھر اس نے‘ اسے زور سے ہلایا‘ اس کا جسم برف ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے پر‘ کرب کا نام و نشان تک نہ تھا۔ بالکل نارمل اور ہشاش بشاش چہرا تھا۔ وہ تو ابدی نیند سؤ چکا تھا۔ عنائتاں لٹ گئی تھی۔ وہ جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ قدرت کے کاموں میں‘ کب کوئی دخل دے سکتا ہے۔ کچھ بھی کر لو ہونی ٹلتی نہیں۔

عنائتاں کے سر پر‘ ناصرف اپنا‘ تین بچوں کا بوجھ بھی‘ آ پڑا۔ وہ بلاشبہ‘ بڑی صابر اور شاکر عورت تھی۔ اس نے‘ کبھی کسی کے سامنے‘ دست سوال دراز نہ کیا۔ وہ سمجھتی تھی‘ کہ اس سے‘ افضل کا کفن میلا ہو گا۔ رات کو جرخا کاتتی‘ صبح کو دو تین گھروں میں‘ برتن کپڑے وغیرہ صاف کرتی۔ بڑی خوددار عورت تھی۔ اس کی ہمت اور حوصلے کی‘ داد نہ دینا‘ سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ چند سالوں میں‘ محض ہڈیوں کا‘ ڈھیر ہو کر رہ گئی۔ لیکن ایک بات ہے‘ اس نے بچوں کو‘ پھولوں کی طرح پالا۔ وقت کی گرمی سردی‘ اس نے اپنی جان پر برداشت کی۔ بچوں کے سکول کا‘ لباس صاف ستھرا ہوتا۔ ان کے بستے‘ خود تیار کرتی۔ ہر بستے میں‘ کھانے کی کوئی ناکوئی چیز‘ ضرور رکھتی۔ جب وہ سکول جانے لگتے‘ انہیں گلے لگاتی‘ چومتی اور پیار کرتی‘ دروازے تک چھوڑنے جاتی‘ اس کا موقف تھا‘ کہ میری تو جیسے تیسے گزر گئی ہے‘ میرے بچے تو‘ آسودہ زندگی بسر کریں گے۔

جوان اور قبول صورت تھی‘ عقد ثانی‘ اس کا شرعی حق تھا۔ دو تین پیغام بھی آئے‘ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ بچوں کی خاطر‘ اس نے اپنی ذات کو‘ یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔ اس دنیا میں‘ شخص اپنی ذات سے باہر‘ ایک قدم بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ شخص کو نقصان پچانے سے پہلے‘ نقصان پنچانے والا‘ یہ کیوں نہیں سوچتا‘ کہ اتنا بڑا کرنے میں‘ کسی ماں کو‘ کیا کچھ‘ کرنا پڑا ہو گا۔ کتنی مشقت اٹھانا پڑی ہوگی۔ اذیت دینے والا بھی‘ کسی ماں کا بیٹا ہوتا ہے‘ اگر وہ غور کرے‘ کہ اس کی ماں‘ اسے بڑا کرنے کے لیے‘ کن مراحل سے گزری ہو گی۔ ماں اس کی ہو‘ یا اس کی‘ عزت کی مستحق ہوتی ہے۔ ماں کا منہ دیکھتے ہوئے‘ اگر معافی کو شعار بنایا جائے‘ تو خرابی جنم ہی نہیں لے سکتی۔

مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے‘ کہ میری اماں نے مرغی پال رکھی۔ وہ اکیس دن انڈوں پر بیٹھی۔ حاجت اور کچھ کھانے یینے کے لیے‘ چند لمحوں کے لیے نیچے اترتی۔۔ اکیس دن کے بعد‘ چھوٹے چھوٹے‘ ننھے ننھے بچے نکلے۔۔ ایک انڈا گندا نکلا۔ وہ بار بار‘ اس کی طرف پھرتی تھی۔ پالتو بلی تو الگ‘ آوارہ بلی کا آنا‘ مرغی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مرغی نے‘ جو کم زور ترین جانور ہے‘ بند کر دیا۔ اڑا کر‘ اس کی آنکھوں کو نشانہ بناتی۔ حالاں کہ مرغی بلی کا شکار ہوتی ہے۔

مرغی کو ایک طرف رکھیے‘ گیڈر بزدل ترین‘ جانور شمار ہوتا ہے۔ میں چشم دید بات بتا رہا ہوں‘ ایک گیدڑی نے بچے دیے تھے۔ اس نے سانہہ کتوں کا‘ ادھر گزرنا بند کر دیا۔ آج سوچتا ہوں‘ تو یقین نہیں آتا۔ لیکن یہ سب ہوا‘ میں نے اپنی انکھوں سے دیکھا۔

میں ایک درخت کے نیچے‘ تھوڑی دیری سستانے کے لیے رکا۔ مادہ کوا نے بچے نکال رکھے تھے۔ چند ہی لمحے بعد‘ مادہ کوا نے‘ میرے ماتھے پر ایسا ٹہونگا مارا‘ کہ مجھے نانی یاد آ گئی۔ میں نےانہیں نقصان کیا پنچانا تھا مجھے تو ان کے ہونے کا علم تک نہ تھا۔

بچے جانور کے ہوں‘ یا انسان کے بڑے پیارے لگتے ہیں۔ ان کی اٹھکیلیاں دل کو موہ لیتی ہیں۔ انہیں مار دینا‘ پتھر دلی کی حد ہوتی ہے۔ پیدائش سے مکاشفہ تک‘ الف لام سے والناس تک‘ بھگوت گیتا اور رامائن میں سے‘ کوئی حوالہ نکال کر دکھا دیں‘ جس میں بچوں پر تشدد یا قتل کر دینے کا حکم موجود ہو۔ حضرت مہاآتما بدھ کی تعلیمات‘ ہتھیا کی اجازت نہیں دیتیں۔ گرو گرنتھ صاحب کا‘ میں نے ایک ایک شبد‘ ٹٹولا ہے‘ کہیں بچوں کے قتل یا ان پر ظلم کا حکم موجود نہیں۔

میں نےانٹر نیٹ پر‘ جنگ عظیم دوم کے حوالہ سے‘ ایک تصویر دیکھی۔ چھوٹے چھوٹے‘ معصوم‘ پیارے پیارے بچوں کو‘ ننگے پاؤں سپاہیوں کی بندوق کی نوک پر‘ بھاگتے دیکھا۔ ایک چھوٹی سی بچی‘ بامشکل بھاگ رہی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے‘ عنائتاں گھوم گئی۔ ان کی ماں‘ کس طرح‘ صبح سویرے اٹھ کر‘ انہیں لاڈ پیار سے‘ گلے لگا کر‘ سکول بھیجا کرتی ہو گی۔ اچھا ہوا‘ وہ مر گئیں۔ وہ یہ سب دیکھ نہ پاتیں۔ وہ ان سیاہیوں کے ڈکرے ڈکرے کرنے کی کوشش کرتیں۔ میرا اس دھرتی سے‘ کوئی رشتہ نہیں۔ وہ بچے‘ میرے حسب ونسب سے متعلق نہیں ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود‘ میں ساری رات‘ بےچینی اور پریشانی سے‘ بستر پر کروٹیں لیتا رہا۔ میں سوچتا رہا‘ آخر وہ کون تھے۔ انہیں انسان کہنا‘ انسانیت کی تذلیل و توہین ہے۔ وہ کسی انسانی ماں کی اولاد ہو ہی نہیں سکتے۔ انہیں انسانی ماں کی اولاد کہنا‘ کسی بھی سطح پر‘ درست قرار نہیں پا سکتا۔

کسی انسانی ماں کی اولاد‘ کسی دوسری ماں کی اولاد پر‘ ظلم کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر جھکانے پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح نہیں ہو سکتے۔ قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے دروازے کھولتی ہے۔ ماں کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘ پروان چڑھنے والے بچوں کو لہو میں نہلاتی ہے۔ تلوار کی فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی جہالت ہے۔ ہاں ماں کے سے‘ پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور طبقے‘ سکھ کا سانس لے سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے سے‘ مکتی حاصل کر سکے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 175994 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.