برازیل: پاکستانی فٹبال کی دھوم٬ ایک منفرد داستان

یہ 2014ء کے اوائل کی بات ہے، مشہور فٹبالروں، کرسٹانو رونالڈو، لیونل میسی، وائن رونی وغیرہم کو فیفا (FIFA) کے عہدے داروں نے’’برازوکا‘‘ (Brazuca) نامی فٹ بال دکھایا۔ اسے ہی برازیل میں آمدہ عالمی کپ میں استعمال ہونا تھا۔عہدے دار چاہتے تھے کہ مایہ ناز فٹبالر اس گیند سے کھیل کر اپنا اطمینان کر لیں۔ دراصل عالمی کپ 2010ء (جنوبی افریقہ) میں استعمال ہونے والے فٹبال’’جابولانی‘‘(Jabulani) کو تقریباً سبھی نامور کھلاڑیوں نے ناپسند کیا تھا۔وہ ایک بھدی،بھاری اور کھیلنے میں مشکل گیند قرار پائی۔اسی لیے فیفا کے عہدے دار اب چاہتے تھے کہ وہ کھلاڑی برازوکا کو چھان پھٹک لیں تاکہ بعد میں واویلا جنم نہ لے۔ جابولانی گیند مشینوں کے ذریعے چین میں تیار ہوئی تھی۔ ورلڈ کپ 2014ء کے لیے بھی برازوکا تیار کرنے ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو ملا۔یاد رہے، فیفا نے 1970ء سے مشہور جرمن سپورٹس کمپنی، ایڈیڈاس(Adidas) کو ورلڈ کپ کی گیند تیار کرنے کا ذمہ سونپ رکھا ہے۔
 

image


تاہم کام زیادہ ہونے کے باعث کمپنی بیرونی کمپنیوں سے بھی مدد لیتی ہے۔ پچھلے سال اگست میں انکشاف ہوا کہ چینی کمپنی میں کام بہت سست رفتاری سے جاری ہے۔ یہ سن کر فیفا کے کارپرداز پریشان ہو گئے۔انھوں نے پھر ایڈیڈاس پہ زور ڈالا کہ وہ کسی اور کمپنی سے بھی برازوکا بنانے کا معاہدہ کرے۔سو ایڈیڈاس کے ماہرین نے فٹ بال بنانی والی بھارتی، تھائی، انڈونیشی اور پاکستانی کمپنیوں کے دورے کیے۔ آخر ہمارے سیالکوٹ میں واقع ایک پاکستانی کمپنی، فاروڈ کا انتخاب ہوا۔

اسی پاکستانی ادارے میں بنے برازوکا فٹ بال مشہور فٹبالروں کو دئیے گئے تاکہ وہ گیند کو جانچ پرکھ سکیں۔ رونالڈو،میسی ،رونی وغیرہم نے میدان میں بھاگ دوڑ کر کے برازوکا کو دیکھا بھالا۔سبھی نے اسے بہترین فٹ بال قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا۔وائن رونی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’دوران کھیل جابولانی کو قابو میں رکھنا بڑا کٹھن تھا۔اس کے زاوئیے درست نہیں تھے اور گیند کو برتتے ہوئے بہت تگ و دو کرنا پڑتی۔مگر برازوکا کے ساتھ ایسا کئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔‘‘ اس ممتاز برطانوی فٹبالر نے برازوکا کو پسند کر کے دراصل سیالکوٹ کے ہنر مندوں کو خراج ِتحسین پیش کیا۔یہ انہی کی محنت شاقہ،تجربے اورخداداد صلاحیتوں کا نتیجہ ہے کہ دنیائے فٹبال میں پاکستان کا نام جانا پہچانا ہے۔

یہ کرشمہ ہمارے ہنرمندوں کی جدت طبع ہی کا نتیجہ ہے ورنہ افسوس کہ پاکستانی فٹ بال ٹیم کا شمار تو کمزور ترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔عالمی شہرت یافتہ فٹبالر پاکستانی گیندوں کی پائیداری و خوبصورتی سراہتے اور انھیں دیگر ممالک کے بنے فٹ بالوں پہ فوقیت دیتے ہیں۔ برازیل میں منعقدہ عالمی کپ میں ایک ماہ کے دوران میچوں اور پریکٹس مقابلوں میں تین ہزار سے زائد فٹ بال استعمال ہوں گے۔اور ان میں سے بیشتر پاکستان ساختہ ہیں۔یہ یقیناً ملک وقوم کے لیے فخر کی بات ہے کہ پاکستانی ہنرمندوں کو دوسروں پہ ترجیح دی گئی۔حقیقت یہ ہے کہ ایڈیڈاس اور فیفا کے کارپرداز دیگر ممالک کے ہنرمندوں کی خراب کارکردگی کے باعث گھبرا کر اہل سیالکوٹ کی جانب پلٹے اور ان کی شاندار صلاحیتوں کا لوہا تسلیم کر لیا۔

پندرہ سال قبل تک دنیائے فٹ بال میں ’’75 تا 80‘‘ فیصد گیندیں سیالکوٹ کے ہنرمند ہی دستی سلائی کے ذریعے تیار کرتے تھے۔پھر چین،تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں مشینوں کی مدد سے فٹ بال بننے لگے۔چونکہ یہ سستے تھے لہذا یورپی سپورٹس کمپنیاں چینی و تھائی اداروں ہی سے اپنے فٹ بال تیار کرانے لگیں۔اس روش نے سیالکوٹ کے ہنرمندوں اور صنعت کاروں کو بہت مالی نقصان پہنچایا۔حتی کہ دنیا میں صرف 30 تا 40 فیصد فٹ بال ہی پاکستان میں بننے لگے۔ لیکن رفتہ رفتہ فیفا اور یورپی سپورٹس کمپنیوں کو احساس ہوا کہ انھوں نے معیار پہ سستے پن اور مقدار کو ترجیح دے ڈالی۔جب کھلاڑی چینی و تھائی گیندوں سے کھیلتے ،تو انھیں سنبھالتے ہوئے دقت محسوس کرتے۔اکثر فٹبالر یہ کہتے سنے گئے’’لگتا ہے، یہ گیندیں ایسے لوگ بنا رہے ہیں جنھوں نے کبھی فٹبال ہی نہیں کھیلا۔‘‘ کھلاڑیوں کی بڑھتی شکایت کے باعث ہی جب لندن اولمپکس کا موقع آیا، تو فیفا نے فیصلہ کیا کہ اولمپک فٹ بال میچوں میں پاکستانی گیند استعمال ہو گی۔یوں ایڈیڈاس نے سیالکوٹ کے ہنرمندوں سے خصوصی فٹ بال تیار کرایا جسے ’’البرٹ ‘‘(The Albert) کا نام ملا۔اس گیند کو سبھی کھلاڑیوں نے پسند کیا۔یوں پاکستانی ہنرمند ایک بار پھر دنیائے فٹ بال میں نمایاں ہو گئے۔
 

image

اس حیات ِنو کا راز یہ ہے کہ اہل سیالکوٹ نے بھی فٹ بال ساز اداروں میں جدید مشینیں لگوا لیں۔چناں چہ کئی عشروں پہ محیط انسانی تجربے اور مشینی جدت کا انوکھا ملاپ ہوا،تو بہترین فٹ بال تخلیق ہونے لگے جنھیں ممتاز فٹبالروں نے سراہا۔اسی خوبی کی وجہ سے سیالکوٹ کے ہنرمند دوبارہ یورپی سپورٹس کمپنیوں کی آنکھوں کا تارا بن چکے۔اس حقیقت کا ایک مظہر انوکھے انداز میں پچھلے سال نمایاں ہوا۔ 33 دنوں کا کرشمہ ’’جناب!آپ کی بیشتر مشینیں پتھر کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔آپ ہمارے مطلوبہ معیار کے فٹ بال نہیں بناسکتے۔‘‘ایڈیڈاس اور فیفا کے نمائندوں نے خواجہ مسعود اختر کو بتایا اور واپس یورپ لوٹ گئے۔ یہ پچھلے سال کے وسط کی بات ہے۔ ہوا یہ تھا کہ فٹ بال کی عالمی تنظیم، فیفا نے ورلڈ کپ 2014ء میں استعمال ہونے والی گیند، برازوکا تیار کرنے کا ٹھیکہ مشہور جرمن سپورٹس کمپنی،ایڈیڈاس کو دیا۔آرڈر بہت بڑا تھا سو جرمنوں نے آگے یہ کام ایک چینی کمپنی کو دے ڈالا جو کئی ہزار ملازم رکھتی ہے ۔ چینی کمپنی کو یقین تھا کہ وہ بروقت آرڈر پورا کر دے گی مگر ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ جب فیفا کو علم ہوا کہ چینی کمپنی وقت پر کام پورا نہیں کر سکتی تو وہ دیگر کمپنیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔

انتظامیہ کی نظریں پاکستانی شہر سیالکوٹ پہ جا ٹھہریں جہاں کے ہنر مند ایک صدی سے فٹ بال بنا رہے تھے۔ فیفا کو علم تھا کہ آج کل فارورڈ کمپنی نامی سیالکوٹی ادارہ عالمی معیار کے فٹ بال تیار کرتا ہے سو پچھلے سال کے اواخر میں فیفا کے ماہرین نے کمپنی کا دورہ کیا ۔وہ ادارے کے سربراہ خواجہ مسعود اختر سے ملے اور فٹ بال بنانے والے پلانٹ کا دورہ کیا۔اس پلانٹ میں مشینوں کے ذریعے فٹ بال بنتے ہیں۔ آج کل ورلڈ کپ سمیت فٹ بال کے تمام عالمی و یورپی مقابلوں میں جدید ترین تکنیک ’’تھرمل بائنڈنگ ٹیکنالوجی‘‘(Thermal Binding Technology ) سے بنی گیندیں استعمال ہوتی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں ایک فٹ بال تقریباً 80 مختلف مراحل سے گزر کر تیار ہوتا ہے تاکہ اسے مضبوطی و پائیداری میں بے مثال بنایا جا سکے۔ پاکستانی ادارے میں تھرمل بائنڈنگ ٹیکنالوجی کی کچھ پرانی مشینیں نصب تھیں ،اسی لیے فیفا کے ماہرین نے کمپنی کو ٹھیکہ دینے سے انکار کر دیا۔کوئی اور ہوتا تو اس ناکامی پر ہمت ہار بیٹھتا مگر خواجہ مسعود نے اپنا عزم و حوصلہ جوان رکھا ۔وہ اپنے دیرینہ خواب کو ہر قیمت پرشرمندہ تعبیر کرنا چاہتے تھے۔ خواجہ مسعود کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جہاں فٹ بال بنانا آرٹ یا فنکاری کا درجہ پا چکا ۔ ان کے دادا اس فن سے منسلک ہوئے پھر والد اوراب وہ خود !طویل تجربہ اور مہارت بروئے کار لاتے ہوئے خواجہ صاحب نے 1991ء میں اپنے ادارے کی بنیاد رکھی۔ محنت ،رزق حلال اور دیانت داری کے باعث اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں برکت دی۔رفتہ رفتہ فٹ بال بنانے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں سے آرڈر ملنے لگے ۔جلد ہی چوٹی کے یورپی فٹ مقابلوں …چئمپینز لیگ (UEFA Champions League) برطانیہ ،بوندیلگا (Bundesliga)،جرمنی، لیگ ( league )فرانس وغیرہ میں کمپنی کے تیار کردہ فٹ بال استعمال ہونے لگے۔اس امر نے کمپنی کو عالمی شہرت عطا کر ڈالی۔

2006ء کا ورلڈ کپ جرمنی میں ہوا ،تو اس میں خواجہ مسعود بھی شریک تھے ۔وہاں لوگوں کا جوش و جذبہ، عقیدت اوررنگا رنگ کھیل تماشے دیکھ کر انہیں احساس ہوا کہ دنیائے فٹ بال میں ورلڈ کپ ہی اعلیٰ ترین مقابلے کی حیثیت رکھتا ہے۔تبھی انہوں نے تمنا کی کہ کاش کمپنی کے تیار کردہ فٹ بال اس لاجواب عالمی مقابلے میں بھی استعمال ہوں۔یوں نہ صرف کمپنی کا وقار بلند ہوتا،بلکہ سب سے بڑھ کردنیائے فٹ بال میں پاکستان اور پاکستانی قوم کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا…گو پاکستانی فٹ بال ٹیم کسی شمار قطار میں نہیں آتی۔ چناں چہ فیفا کے نمائندے پاکستان آئے، تو خواجہ مسعود کے دل کی کلی کھل اٹھی۔ گو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا مگر خواجہ صاحب نے ہمت نہ ہاری۔ انہوں نے فیفا انتظامیہ کو لکھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر تھرمل بائنڈنگ ٹیکنالوجی کی مشینوں والا نیا پلانٹ لگا دیں گے ،سو انہیں برازوکا تیار کرنے کا موقع دیا جائے ۔فیفا اور ایڈیڈاس کے کار پردازوں نے پاکستانی صنعت کار کی پیشکش قبول کر لی۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔کیونکہ متذکرہ بالا پلانٹ لگانے میں کم از کم چھ ماہ لگتے تھے ۔ادھر خواجہ صاحب نے صرف ایک ماہ میں اسے لگانا تھا تاکہ برازو کا گیندوں کی تیاری کا کام فورا شروع ہو سکے۔اس چیلنج کو خواجہ صاحب نے معہ اپنی ٹیم دلیری و پامردمی سے قبول کیا۔ وہ پھر دن رات کام میں مصروف رہے اور محض 33دنوں میں پلانٹ لگا کر چالو بھی کر دیا۔
 

image

یوں شہرِ اقبالؒ کے سیالکوٹی ہنر مندوں نے ثابت کردکھایا کہ محنت،ذہانت،جدت،عزمِ مصمم اورفرض شناسی میں پاکستانی کسی قوم سے پیچھے نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی بیرون ملک جائیں تو اپنی زبردست صلاحیتوں سے سبھی کو متاثر کرتے ہیں ۔بس انہیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملنا چاہیے تب وہ دنگ کر دینے والے کارنامے انجام دیتے ہیں ۔ شاعر مشرق ؒنے اسی لیے فرما رکھا ہے: نہیں اقبال مایوس اپنی کشتِ ویران سے ذرا نم ہو ،تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی یوں کم سے کم مدت میں پلانٹ نصب کر کے پاکستانی کمپنی فٹ بال ورلڈ کپ 2014ء میں استعمال ہونے والے فٹ بال بنانے کا ٹھیکہ پانے میں کامیاب رہی۔گویا 12جون تا 13 جولائی برازیل کے وسیع و عریض میدانوں میں رونالڈو ،میسی ، واٹسن ،رونی اور دیگر عالمی شہرت یافتہ فٹبالر پاکستانی گیند کے ذریعے اپنے کمالات کھیل دکھاتے اربوں انسانوں کا دل شاد کام کریں گے۔تب پاکستانی فخر سے کہہ سکیں گے کہ ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والا فٹ بال ان کی فنی مہارت و محنت کا منہ بولتا ثبوت اور معیار و مضبوطی میں چینی گیندوں سے زیادہ معیاری ہے۔

برازوکا کا ٹھیکہ ملنے پر مالکان کمپنی نے کارکنوں کے ساتھ مل کر جشن منایا…خوشی دو چندہو جاتی ہے جب دوسروں کو بھی اس میں شریک کیا جائے ۔پھر ادارے کو ترقی دینے میں کارکنوں ہی کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔1991ء میں خواجہ مسعود نے کمپنی کی بنیاد رکھی ،تو اس میں پچاس لوگ ملازم تھے، آج وہاں چودہ سو مرد و زن کام کرتے ہیں۔ بچوں سے کام کرانے پر سختی سے ممانعت ہے۔ بزرگوں نے سچ ہی کہا ہے کہ محنت و دیانت ہی سے راحت و برکت ملتی ہے اور عزت ، دولت و شہرت بھی!
 

image

تھرمل بانڈڈ ٹکنالوجی:
دور جدید میں فٹ بال کی تیاری کے تین طریقے رائج ہیں: ہاتھ سے سلائی، مشینی سلائی اور تھرمل بانڈڈ !آخر الذکر طریق کار میں فٹ بال کے سبھی پینل (یا حصے)ایک سانچے میں رکھے جاتے ہیں۔پھر ان پہ خاص قسم کا گوند ڈالا جاتا ہے۔آخری مرحلے میں سانچے میں مطلوبہ درجہ حرارت جنم لیتا ہے۔تپش کے باعث گوند یکساں مقدار میں پھیل کر سبھی پینلوں کو انتہائی مضبوطی سے جوڑ دیتا ہے۔یوں فٹ بال کے پینل جوڑنے کی خاطر اب ہاتھ یا مشین کی ضرورت نہیں رہی۔پچھلے ایک برس سے ایک اور جدت یہ سامنے آئی کہ اب بین الاقوامی مقابلوں مثلاً عالمی کپ،چیمپئنز لیگ وغیرہ میں استعمال ہونے والی گیندوں کو ’’80‘‘مختلف مراحل سے گزار کر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔یہ امتحانی مرحلے لیبارٹری نما کمرے میں تجربے کار ماہرین کی زیرنگرانی انجام پاتے ہیں۔جدید ترین آلات سے آراستہ ایک ایسی ہی لیبارٹری خواجہ مسعود کی کمپنی میں بھی موجود ہے۔ لیبارٹری میں سب سے پہلے خوردبین کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ فٹ بال کے سبھی پینل درستی و نفاست سے جڑے ہیں۔پھر اسے پانی میں ڈبکی دی جاتی ہے۔یوں یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ گیلا ہونے پہ گیند کی ہئیت اور رنگ تو خراب نہیں ہو گا۔اگلے مرحلے میں اسے 50 درجے سینٹی گریڈ سے زیادہ حرارت والی جگہ میں رکھتے ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ فٹ بال سخت گرمی برداشت کر لے گا؟غرض کئی اقسام کے ٹیسٹوں کی مدد سے گیند کی مضبوطی و پائداری جانچی جاتی ہے۔آخر میں وہ ’’شوٹر مشین‘‘کے تجربے سے گزرتی ہے۔یہ مشین 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کو دیوار پہ مارتی ہے۔یوں جانا جاتا ہے کہ طاقتور کھلاڑیوں کی طوفانی ککوں سے فٹ بال کا حلیہ تو نہیں بگڑے گا۔ یاد رہے،میدان میں اکثر فٹبالر 50 تا 55 کلومیٹر کی رفتار رکھنے والی ککیں مارتے ہیں۔ جو فٹ بال تمام اسّی مراحل کامیابی سے پاس کر لے،وہی میدان تک پہنچتا ہے۔
 

image

دلچسپ بات یہ کہ اب تک ایسا کوئی فٹ بال ایجاد نہیں ہوا جو سبھی کھلاڑیوں کے معیار پہ پورا اتر سکے۔کوئی نہ کوئی فٹبالر ہر گیند میں نقص نکال لیتا ہے…شاید یوں اپنے ناقص کھیل کا ملبہ بیچاری بے زبان گیند پہ ڈالنے کی سعی ہوتی ہے۔ ٭…٭…٭…٭…٭…٭ مصر سے پاکستان تک: پانی ،ہوا اور دھوپ کے مانند گیندیں بھی دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں اور اسی لیے لوگ انھیں اہمیت نہیں دیتے۔حالانکہ یہ گیند نہ ہوتی تو آج کے سبھی مقبول عام کھیل مثلاً فٹ بال، کرکٹ، ہاکی، بیس بال،باسکٹ بال،گولف ، والی بال وغیرہ وجود میں نہ آتے۔ آثار قدیمہ افشا کرتے ہیں کہ مصر،یونان اور روما کے قدیم باشندوں نے سب سے پہلے گیندیں بنائیں۔ یہ جانوروں کی کھال(چمڑے)سے بنتی جن کے اندر گھاس پھونس یا روئی ٹھونس دی جاتی۔ فٹ بال بنانے میں جدت 1832ء کے بعد آئی جب امریکی موجد، چارلس گڈئیر نے لچک دار ربڑ بنانے کا کیمیائی طریقہ دریافت کیا۔یوں ممکن ہو گیا کہ فٹ بال کے اندر ہوا سے بھرا بلیڈر رکھا جا سکے۔بلیڈر نے گیند کا باؤنس ڈرامائی طور پہ بڑھا دیا۔یوں جدید فٹ بال ظہور پذیر ہوا۔فیفا نے 1863ء میں پہلی بار فٹ بال بنانے کے سلسلے میں قوانین بنائے۔تب سے ان میں خاصی تبدیلیاں آ چکیں۔ برازوکا فٹ بال کی تاریخ کا جدید ترین نمونہ ہے۔یہ گیند کئی اولیّات (First)کی حامل ہے۔مثلاً یہ پہلا فٹ بال ہے جس کا نام (برازیلی)عوام نے رکھا۔ برازوکا کی اصطلاح دو معنی رکھتی ہے:اول بیرون ممالک میں مقیم برازیلی۔دوم برازیلی طرز ِزندگی جو جوش و جذبے،وطن سے محبت اور دوسروں کے لیے نیک خواہشات سے عبارت ہے۔ یہی پہلا فٹ بال ہے جسے 80 مختلف مراحل سے گزار کر بنایا گیا۔نیز پہلی گیند ہے جسے بنانے میں چھ پینل استعمال ہوئے۔پولی یورتھین سے بنے ان پینلوں کو تھرمل بانڈڈ ٹکنالوجی سے باہم جوڑا گیا۔یہ گیند شدید بارش ،سردی یا گرمی میں بھی اپنا وزن،ہئیت اور گولائی برقرار رکھتی ہے۔اس کا وزن 437گرام (تقریباً آدھ کلو) ہے۔قطر 69 سینٹی میٹر ہے۔ ماہرین کی رو سے یہ ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والی سب سے زیادہ ائرو ڈائنمک (Aerodynamic ) گیند ہے۔ واضح رہے، برازوکا ورلڈ کپ کی تاریخ میں ایڈیڈاس کا ڈیزائن کردہ بارہواں فٹ بال ہے۔یہ پہلے فٹ بال سے بہت مختلف ہے جسے ورلڈ کپ1970ء میں برتا گیا تھا۔وہ بتیس پینل رکھتا تھا ،جبکہ یہ صرف چھ پینلوں کا حامل ہے، نیز چمڑے کی جگہ اب پولی یورتھین کا میٹریل استعمال ہوتا ہے۔

بشکریہ: (دنیا میگزین)
YOU MAY ALSO LIKE:

Cricket-mad Pakistan might not have much of a football team -- 159th in FIFA's world rankings -- but Sialkot has a long history of manufacturing top-class balls. Forward Sports has been working with Adidas since 1995 and supplies match balls to some of the world's top football competitions, including the Champions League, the German Bundesliga -- and now the World Cup.