امریکی امداد” تحفہ “ نہیں ہے

امریکی وضاحت کی ایک اور نئی وضاحت ذلتوں اور رسوائیوں کی داستان

کیا جادو تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا، وزیر محترم کا چہرہ جوش خطابت سے تمتما رہا تھا، سینیٹر جان کیری اور ہاورڈ برمن کے دستخطوں سے جاری ایک سیاسی بیان کے وہ وہ نقطے بیان ہورہے تھے اور وہ وہ توضیحات پیش کی جارہی تھیں کہ جو خود امریکیوں کے بھی وہم و گمان میں نہ ہوں گی، حکومتی ارکان عش عش کررہے تھے، خوشی میں سر دھن رہے تھے اور بے تابانہ انداز میں ڈیسکیں بجارہے تھے، جبکہ محترم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کیری لوگر بل پر بحث سمیٹتے ہوئے وضاحتی بیان کی کاپی لہرا لہرا کر ارکین اسمبلی کو بتارہے تھے کہ ہم نے امریکہ کو بتا دیا ہے کہ وہ اپنے طور طریقے بدلے کیونکہ آج پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہم سب پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں، کیری لوگر بل پر خدشات دور ہوگئے ہیں، امریکہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا، موصوف فرما رہے تھے کہ امریکہ نے کیری لوگر بل میں عائد شرائط کے بارے میں خدشات دور کرتے ہوئے پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا یقین دلایا ہے۔

وزیر موصوف نے وضاحتی بیان کی کاپی لہراتے ہوئے کہا، یہ وضاحتی بیان کیری لوگر بل کے ساتھ منسلک ہے، جو اب قانون بن چکا ہے، اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ امریکہ پاکستان میں فوجی اور سویلین آپریشن کی مائیکرو مینجمنٹ نہیں کرے گا اور اس بل سے پاکستان کی خود مختاری، سلامتی اور جوہری پروگرام پر کوئی حرف نہیں آئے گا، اس قانون کے عوض ہم نے پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، ان کے بقول کیری لوگر بل میں پاکستانی حکومت پر کوئی شرائط عائد نہیں کی گئیں، بلکہ اس قانون کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کے بارے میں امریکی حکومت، امریکی کانگریس کے روبرو جوابدہ ہوگی جبکہ یہ امداد سکولوں، صحت، سڑکوں، جیسے ترقیاتی کاموں کے انفراسٹرکچر اور غربت کے خاتمہ کیلئے بروئے کار لائی جائیگی جو پاکستان کے کسی مخصوص علاقے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں استعمال ہو گی، وزیر خارجہ کے لبوں سے نکلتے ہوئے تند تیز الفاظوں کے تھپیڑے اور منہ زور طوفانی لہروں کے آگے ساکت و جامد، بے بس اور مبہوت تماشائی بنی اپوزیشن اُس وقت جاگی جب ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنے کا اعلان کیا، یہی حال سینٹ کا تھا، پوری قوم دانتوں میں انگلی دابے حیران و پریشان کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہاں ہے اُس کی امنگوں کی ترجمان، وہ پارلیمنٹ،جس کی Sovereignty اور Supermacy کے دعوے کئے جاتے ہیں اور جس نے قوی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے لوگر بل پر حتمی فیصلہ دینا تھا، مگر نہ تو کوئی قرار داد پیش ہوئی اور نہ ہی کوئی رائے شماری کرائی گئی بلکہ وزیر موصوف کی تقریر سے سرشار اپوزیشن شیم شیم اور کیری لوگر بل نا منظور، نامنظورکے نعرے لگاتی سرجھکائے اپنے اپنے گھر وں کوروانہ ہوگئی ۔

حقیقت یہی ہے اور صدیوں کا تجربہ اور دانشوری بھی کہتی ہے کہ ہے فکرِ اغیار کے اسیر اور بیرونی امداد کی آکسیجن کے سہارے زندہ رہنے والے کاسہ لیسوں کے رنگ ڈھنگ اور انداز ایسے ہی ہوتے ہیں، جب خوئے غلامی انسان کے رگ و پے میں سرایت کرجائے اور بیرونی امداد کا نشہ انسان کے دل و دماغ پر چھا جائے تو تائید و حمایت کا جادو سر چڑھ کر ہی بولتا ہے، قومی غیرت و حمیت، سلامتی و خود مختاری کے لٹنے کا احساس زیاں جاتا رہتا ہے، نہ ماتھے پر ندامت کا پسینہ ہوتا ہے اور نہ ہی چہرے پر شرمندگی کے آثار نظر آتے ہیں، بلکہ کمال ڈھٹائی سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور دھوکہ دینے کیلئے غلامی کی دستاویز کو ترقی و خوشحالی کا منبع قرار دیتے ہوئے تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں، وہ وہ معنی و مطلب کشید کئے جاتے ہیں کہ خود اس دستاویز کے خالق حیران و ششدر رہ جاتے ہیں اور ایوان نمائندگان و سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹیوں کے ترجمان مسزلن وائل اور فریڈ جونز امریکی وضاحت کی ایک اور نئی وضاحت جاری کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ”کیری لوگر بل اپنی تمام تر متن، شقوں اور شرائط کے ساتھ مسلمہ امریکی قانون کا درجہ رکھتا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، وضاحتی بیان محض تشریح ہے جسے قانون کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔“

یہی وہ بات ہے جو امریکی نمائندگان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کانگریس کے وضاحتی بیان کا مقصد بل کی درست تعبیر و تشریح اور اُس پر اُس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہے، جبکہ امریکی مبصرین کے نزدیک بھی کیری لوگر بل کے سلسلے میں وضاحتی بیان ایک ایسی رسمی کاروائی ہے جس کے تحت قابل اعتراض شرائط کو ختم کرنے کے بجائے یہ کہہ کر برقرار رکھا گیا ہے کہ ان کی صحیح تشریح نہیں ہوسکی، لیکن امریکی وضاحت کی وضاحت کے بعد بھی وزیر خارجہ کا کیری لوگر بل کو تاریخی دستاویز اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری قرار دینا حیرت ناک بات ہے، یہی وہ خوش فہمی اور خود فریبی کی اسیری ہے جس میں مبتلا ہمارے ارباب اقتدار اپنی قوم کو آرزؤں اور تمناؤں کے کبھی نہ ختم ہونے والے سرابوں میں دھکیل کر امریکی غلامی کی راہ ہموار کررہے ہیں۔

جبکہ کیری لوگر بل کے ساتھ شامل کئے گئے وضاحتی بیان کی وضاحت سے یہ بات بالکل واضح ہوکر سامنے آگئی ہے کہ اس بل میں عائد شرائط کے اثرات ختم یا کم نہیں ہوئے، خود امریکی خارجہ امور کمیٹی کے بقول متذکرہ وضاحتی بیان کیری لوگر قانون کا حصہ نہیں ہے، جبکہ ہمارے سینئر سرکاری عہدیداران، قانونی و آئینی ماہرین،سابق سفارت کاروں اور میڈیا کی جانب سے بھی اسی رائے کا اظہار کر کیا جارہا ہے کہ وضاحتی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی متذکرہ وضاحتی نوٹ سے کیری لوگر بل کے تحت کی جانے والی قانون سازی متاثر ہو گی، اس لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ محض اس وضاحتی بیان کی بنیاد پر جس میں پاکستان پر عائد کی جانے والی شرائط کو چھیڑا تک نہیں گیا اور جس میں صرف امریکہ پاکستان سٹریٹجک پارٹنر شپ کو مستحکم بنانے کا رسمی اعلان کیا گیا ہے، جبکہ یہ پارٹنر شپ بھی امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے، وزیر خارجہ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی زد نہیں پڑیگی۔

اصل بات یہ ہے کہ کاسہ گدائی لے کر خود ہی اپنی عزت پامال کرنے والے اگر دوسروں سے عزت و اخترام کی توقع کریں تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی، آج کی دنیا میں طاقتور ممالک کسی کمزور ملک کی مدد و معاونت صرف اور صرف اپنے مقاصد اور مفادات کیلئے کرتے ہیں، کیری لوگر بل کی آڑ میں امریکہ کے بھی اپنے مفادات ہیں، جس کا اظہار ایوان نمائندگان کی جنوبی ایشیاء سے متعلق ایک ذیلی کمیٹی کے چیئرمین گیری ایکرمین کے اُس بیان سے ہوتا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ” اسلام آباد کو دی جانے والی مجوزہ امداد”تحفہ“نہیں، ایک خاص معاملے پر اشتراک عمل ہے جس کے مطلوبہ نتائج کا حصول یقینی بنانا ضروری ہے ۔“

یہ بات اظہرمن الشمس کے کہ جذباتی تقریریں اور الفاظ کی جادوگری نہ تو حقیقت حال کو چھپا سکتی ہے اور نہ حقائق کے رخ روشن پر پردہ نہیں ڈال سکتی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی میں جوش خطابت کے جوہر دکھانے کے بجائے وزیر خارجہ قوم کے ذہنوں میں اٹھنے والے ان سوالوں کے جواب دیتے کہ کیا کیری لوگر بل کی شرائط میں کوئی تبدیلی ہوئی یا نہیں؟ کیا اب امداد کیلئے پاکستان کو امریکی صدر اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے نیک چلنی کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ وضاحتی بیان کانگریس کے منظور کردہ بل کی شرائط کو منسوخ کرتا ہے اور بل پر حاوی ہے یا نہیں؟ تو زیادہ بہتر ہوتا، لیکن اصل حقائق کو سامنے لانے اور اس پر گفتگو کرنے کے بجائے وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی کے روبرو اپنی جذباتی تقریر میں ارکان اسمبلی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ متذکرہ بل میں امریکہ نے پاکستان کو سٹریٹجک پارٹنر تسلیم کیا ہے، اسکی ماتحت کی حیثیت ہرگز نہیں۔

انہوں نے جذبات ابھارنے کیلئے یہ اعلان بھی کیا کہ ہمارا اقتدار رہے نہ رہے اور حکومت رہے نہ رہے، ہم پاکستان کے سٹریٹجک اثاثوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، جبکہ کیری لوگر بل میں موجود شرائط پر بالخصوص ملک کے عسکری حلقوں کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، اس کے مطابق متذکرہ شرائط تسلیم کرنے کی صورت میں ملک کے سٹریٹجک اثاثوں پر ہی زد پڑیگی، وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی جن کی وزارت کے ذریعے کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی امداد بروئے کار لائی جانی ہے، اپنے تحفظات میں اسی امر کی نشاندہی کی ہے کہ اس امداد کے عوض پاکستان کو خود کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرنا پڑیگا اور اس صورت میں امریکہ کسی بھی وقت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں غیر محفوظ قرار دے کر ان کی حفاظت کی آڑ میں ان پر قبضہ جما سکتا ہے اور ہمیں جوہری صلاحیتوں سے محروم کر سکتا ہے، ملک کی آزادی اور خودمختاری پر اس سے بڑی زد اور کیا ہوگی، جبکہ امریکی امداد کی مانیٹرنگ کے نام پر پاکستان میں تعینات امریکی انسپکٹر جنرل ہمارے ایٹمی اثاثوں تک رسائی کا کوئی موقع بھی کیوں ہاتھ سے جانے دیں گے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت کیری لوگر بل میں وہ تمام شرائط اور شقیں بدستور اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہیں جن پر ملک کی عسکری قیادت اور خود حکومتی حلقے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں، خود وزیر خارجہ کے ایک اہم حکومتی ساتھی وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بھی اس بل کی بعض شقوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کر چکے ہیں کہ اس بل کی ایک شق کے تحت پاکستان کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ ایک دہشت گرد ریاست ہے جبکہ اس بل کی بنیاد پر پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کی مانیٹرنگ کیلئے امریکی انسپکٹر جنرل پاکستان میں تعینات کیا جائیگا، لیکن اس کے باوجود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا ہے کہ یہ بل ہماری آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے، قوم آنکھوں میں دھول جھونکنے اور دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

سچی بات ہے کہ ذلتوں اور رسوائیوں کا جو سفر نائن الیون کے بعد سے شروع ہوا تھا، کیری لوگر بل اُسی سفر کا صرف ایک حصہ ہے، امریکہ اور اس کے حواری پاکستان کی عزت، غیرت اور سلامتی پر مسلسل حملے کررہے ہیں اور تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی پر ہونے والے اِن حملوں میں پاکستانی خزانے سے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات لینے والے لوگ برابر کے شریک نظر آتے ہیں، کیا یہ حیرت ناک بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ہر ذی شعور فرد کیری لوگر بل کی مخالفت کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت اسے ہر حال میں قبول کرنے کو تیار ہے، حالات کا تقاضہ ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی امریکی بھیک کیلئے پاپڑ بیلنے اور کیری لوگر بل کی شرمناک شرائط پر عمل کرنے کے بجائے ارباب اقتدار ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے کیونکہ یہی ہمارے قومی مفاد اور قومی غیرت کا تقاضہ تھا۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 316537 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More