انسانی جبلت اور کھیل۔

بطخ کا انڈا اگر مرغی کے نیچے رکھ دیا جائے تو نکلنے والا بچہ خود بخود تیراکی شروع کر دے گا کیونکہ یہ اس کی جبلت کا حصہ ہے۔ اسی طرح انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی روکر اپنی آمد کا اعلان کرتا ہےاور پھر ہاتھ پاوں ہلا کراپنے تندرست کھلاڑی ہونے کی نوید سناتا ہے۔ گذشتہ وقتوں میں جھنجھنا، گڑیا پٹولے اور گھوگھو گھوڑے لے کر بچے کھیل کے میدان عمل میں وارد ہوا کرتے تھے۔ آج بھی یہ مہم جوئی جاری ہے لیکن اندازبدل گئے۔

بنائے عالم سے ہی انسان علم و فن اور نئی ایجادات کی ارتقائی دوڑ کامیابی سے دوڑ رہا ہےاورساتھ ساتھ کھیل اور تفریح کے میدان میں بھی بتدریج ترقی کر رہا ہے۔ یقینا” آپ کو یاد ہو گا کے ہمارے خطے میں کون کون سے ابتدائی کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں، اور وہ بچوں، بڑوں سب میں یکساں مقبول تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ مثلا” کلی ڈنڈا[گلی ڈنڈا]، بندر کلہ، کوکلا چھپاکی، سٹاپو یا شٹاپو، ٹیناں،پٹھوگول گرم،بنٹے، اخروٹ، سگریٹ کی خالی ڈبیوں سے کھیلنا اور ونج وڑیکا جیسی کھیلوں سےنئی نسل تقریبنا” نابلد پے لیکن اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ کھیل کا کوئی بھی قدیم یا جدید طریقہ کیوں نہ ہو اس کا اور انسان کا تعلق اتنا ہے پرانا ہے جتنا کے انسان خود۔

ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈی وی ڈی، ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، انٹرنیٹ،اور موبائل فون نے پوری دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا ہے جس سے نہ صرف کھانے پینے، رہنے سہنے، پہننے، اوڑھنے بچھونے بلکہ کھیل اور تفریح کے انداز بھی یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ آج نہ صرف شہروں بلکہ دیہاتوں میں بھی سنوکر،بلیئرڈ، ٹیبل فٹبال اور ویڈیو گیمز وغیرہ کھیلی اور پسند کی جاتی ہیں۔ سی سرفنگ[سمندر کی لہروں پر اچھل کود کرنا] آپ نے سنا اور دیکھا ہو گا لیکن یہ کھیل اب بادلوں پر بھی کھیلا جا رہا یے یعنی کلاوڈ سرفینگ۔ ہو سکتا ہے کے آنے والے وقتوں میں فٹبال کا عالمی کپ چاند یا کسی اور سیارے پر منعقد ہو، جہاں بھی ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ انسان اور کھیل آخری دم تک ساتھ ساتھ رہیں گئے۔

اب بات کرتے ہیں ان والدین کی جو اپنے بچوں کو یہ محاورہ سناتے ہیں کہ؛؛پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب؛؛ اگر اس خیال کی روشنی میں دیکھا جا ئےکہ بچہ جب پہلے دن نرسری کلاس میں جاتا ہے تو جھولوں اور کھیلونوں کے ذریعے ہی اس کا دل بہلایا جاتا ہے۔

اور پھر کھیل ہی کھیل میں اسے بہت کچھ سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے اسیلئےوہ خوشی سے ہر روز سکول جاتا ہے۔ کالج ، یونیورسٹی، قومی ادارے اور ممالک بھی کھیلوں اور کھلاڑیوں کو خاص اہمیت دیتےہیں بلکہ کھلاڑی تو اپنے ممالک کے سفیر گردانے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے تعلیمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کے صحت مند تفریحی مشاغل بمع کھیل خرابی نہیں بلکہ طلبہ و طلبات کی صلاحیتوں کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ ان کی دستیابی اتنی ہی ضروری ہے جتنی سکول میں کتابیں۔

ھارٹ فارآل نہ صرف دنیا بھرکے تعلیمی ماہرین سے متفق ہے بلکہ بچوں کی تربیت فن اور کھیل کے ذریعے کرنے میں کوشاں ہے۔

صحت مند جسم ہی صحتمند دماغ رکھتا ہے۔ آیئے آج سے کھیل اور ورزش کو نہ صرف بچوں بلکہ اپنی زندگی کا بھی حصہ بنائیں۔
Gul irfan khan
About the Author: Gul irfan khan Read More Articles by Gul irfan khan: 5 Articles with 4214 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.