کیا حکومتی کشتی میں چھید ہو چکا ہے؟

حکومتی بنچوں پر بیٹھے شر فا حکومتی عہدیداروں کی آنی جانیاں دیکھ کر مجھے حیرت و مسرت ہو رہی ہے، حیرت اس بات پر کہ مسلم لیگ کے خود کو ’’ سقراط ، افلاطون اور بقراط ‘‘ سمجھنے والے ’’ نواز شریف کے ان فیصلوں پر ہوئی ہے۔جس مین انہوں نے آزمائے ہوئے دنیا ئے سیاست میں تسلیم شدہ ’’قلابازوں ‘‘ کو انتخابات میں پارٹی ٹکٹ عنایت کیے تھے……خوشی و مسرت کے جذبات کے ساتھ مسرور اس لیے ہو رہا ہوں کہ نواز شریف نے جو بویا ہے وہیں کاٹنا بھی ہے……

میں نے تو بار ہا اپنے علمائے دین اور میدان سیاست کے شہسواروں سے سنا ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بس ایک بار ہی ڈستا ہے…… لیکن پاکستان کے میدان سیاست میں خود کو عقل کل کے درجہ پر فائز سمجھنے والے ہمارے سیاست دان بار بار ایک ہی ’’ لوٹا سوراخ ‘‘ سے نہ صرف ڈستے چلے آرہے ہیں…… بلکہ ہر بار ’’توبہ ‘‘ کرنے کے باوجود اگلی بار پھر اسے سوراخ سے ڈسنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

جب میں دیکھتا ہوں کہ سابق صدر غلام اسحاق خاں کے داماد عرفان اﷲ مروت نواز شریف کی وفاقی حکومت سے غیر مطمئن ہونے کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر ہمارے تحفظات دور نہ کیے گئے تو سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے ارکان آزاد بینچوں پر بیٹھ جائیں گے…… پھر میرے کانوں میں سندھ کے بلکہ ایشیا کے سب سے بڑے جاگیردار مگر شریف النفس سیاست دان کے فرزند ارجمند جو وفاقی کابینہ میں وزیر ہیں …… یہ کہتے ہیں کہ ان کی وزارت کی بیورو کریسی انکی بات نہیں سنتی یا نہیں مانتی …… اس لیے انہوں نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے…… یہ بات غلام مصطفی خان جتوئی کے بیٹے مرتضی جتوئی نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرنے کے بعد کہی-

اب سنا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الررحمان نے بھی کہا دیا ہے کہ ان پر پارٹی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم کابینہ سے تو پہلے ہی الگ ہو چکے ہیں اور ھکومت سے بھی تقریبا اتحاد ختم ہوچکا ہے۔بجٹ کے بعد کسی وقت بھی حکومت سے الگ ہونے کا اعلان متوقع ہے۔مولانا فضل الررحمن کی جماعت وفاقی کابینہ میں شریک ہوئی تھی مگر نواز شریف نے ان کے وزرا کو من پسند وزارتیں نہیں دیں ۔جس سے مولانا صاحب اور انکے وزرا ھکومت سے کھچے کھچے ہیں۔ اور حکومت سے الگ ہونے کے لیے کسی مناسب موقعہ محل کی تلاش میں تھے……شائد اب وہ موقعہ آگیا ہے جس کا انہیں انتظار تھا……نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بھی اسی طرح ان کے اتحادی باری باری ایک ایک کرکے مختلف حیلے بہانوں سے علیحدگی اختیار کرتے گے تھے۔ غلام مصطفی جتوئی نے نواز حکومت پر اپنی جاسوسی کرانے کا الزام لگایا اور حکومت کو ’’گڈ بائی ‘‘ کہہ دیا……

اب ایکبار پھر غلام مصطفی جتوئی کے بیٹے کی جانب سے بیوروکریسی کے عدم تعاون کا بہانہ تراشا ہے ……حالانکہ مرتضی جتوئی اپنے والد غلام مصطفی جتوئی کی سیاسی وراثت ’’ نیشنل پیپلز پارٹی ‘‘ کو مسلم لیگ نواز میں ضم کرنے کا اعلان لاہور مین کر چکے ہیں…… عرفان اﷲ مروت نے بھی وفاقی حکومت کی جانب سے نظرانداز کیے جانے کا نوحہ پڑھا ہے…… اور اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گے تو سندھ اسمبلی میں مسلم لیگی ارکان آزاد بنچوں پر بیٹھ جائیں گے……

اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایسے ارکان (جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے) کی ایک قابل ذکر تعداد بھی ’’بغاوت‘‘ پر آمادہ ہو رہی ہے۔ وزارت دفاع کی جیو گروپ کے خلاف پیمرا میں درخواست کے فیصلے سے بہت کچھ واضع ہو جائیگا…… حکومت کو جیو گروپ کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر دو غلی یا غیر واضع موقف اختیار کرنے پر غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس صورت حال سے جو میں نے نتیجہ اخذ کیا ہے ۔وہ تو یہی ہے کہ حکومتی کشتی میں چھید ہو چکے ہیں ،اور اس کشتی پر سوار روائتی فصلی بیٹرے اب ’’اڑان پکڑنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں؟ بھارت کے نئے منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کے فیصلے کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا۔……سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز کو سہارا دے پائے گی؟ اگر نواز حکومت کے لیے غیر موافق صورت حال پیدا ہوتی ہے تو…… میرا نہیں خیال کہ آصف علی زرداری نواز شریف کو سہارا دے پائیں گے-
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144238 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.