عافیہ صدیقی کیس اور ہمارا کردار۔۔۔۔۔

ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو ستمبر2010 میں نیویارک کی عدالت نے افغانستان میں خراست کے دوران امریکی فوجیوں پر حملے کی الزام میں86 سال قید کی سزا سنائی تھی ۔اس نے اپنی سزا کے خلاف نومبر 2012میں فیڈرل کورٹ میں درخواست دائر کی تھی لیکن عدالت نے سزا برقرار رکھتے ہوئے ان کی درخواست خارج کر دی تھی۔

ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے گُزشتہ روز 86 سال کی سزا کے خلاف ایک بار پھر امریکہ کے فیڈرل کورٹ میں درخوارست دائر کردی۔عافیہ صدیقی کی جانب سے درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ 2010 میں86 سال کی سزا سناتے وقت انہیں مناسب قانونی نمائیندگی نہیں دی گئی تھی اور جج نے انہیں پاکستانی حکومت کی جانب سے نامزد کردہ تین وکیلوں کو قبول کرنے کے لئے مجبور کیا تھا۔لہذا میری سزا کو کالعدم قرار دیا جائے۔عافیہ صدیقی کا بیان دیکھ کر مجھے احمد کی کہانی یاد آگئی۔بچپن ہی سے میں اور احمد ایک ساتھ عشاء کی نماز کیلئے اکھٹے جاتے تھے۔دن میں ہم اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے، اس لئے ہم صرف رات کو مسجد میں ملتے تھے ۔حسب معمول ایک دن میں نماز کیلئے گیالیکن اس دن احمد غیرحاضرتھا۔میں انتظار کر رہا تھا کہ شائد وہ آئے مگر وہ نہ آیا۔مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کے گھر جانا پسند کیا۔گھر پہنچتے ہی پتہ چلا کہ اس کی بہن بیمارتھی اور ڈاکٹر صاحب کسی کا م کے سلسلے میں شہر گیا تھا اور رات شہر ہی میں گُزارے گا۔سب گھروالے بہت پریشان تھے۔اسکی ماں، بھائی اور بہنیں، اپنی بہن کی تکلیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے رورہے تھے۔اسکی باپ کا یہ حال تھا کہ پریشانی اور دُکھ سے آنکھیں سُرح تھے۔نیند کا کوئی نام نہیں لے رہا تھا۔میں نے بہت کوشش کی کہ انہیں نیند کے لئے راضی کروں مگر بے سود۔۔میں گھر گیا، رات باہر گزارنے کی اجازت لی اور واپس احمد کے گھر آیا۔چاروں طرف مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ آخرکار خدا خدا کر کے صبح ہوگئی۔معلوم ہوا کہ ڈاکٹرصاحب بھی واپس آگیا تھا۔میں نے اسے بُلایا۔ ڈاکٹرصاحب نے مریض کا معائنہ کیا اور اسے انجکشن لگایا، آرام کرنے کو کہا اور چلا گیا۔تھوڑی دیر میں اُسے آرام نصیب ہوگیا۔سارے گھر والے بہت خوش ہوئے اور اﷲ تعالی کا شکریہ ادا کرتے رہے۔سب کو آرام آگیا اور میری آنکھیں بھی شب بیداری کی وجہ سے سُرح ہورہی تھی۔ میں نے بھی گھر جاکرآرام کرنے کو ترجیح دی۔اس روز میں سمجھ گیاکہ اگرایک گھر میں کسی بھی فرد پر اگر تکلیف ہو تو درد باقی سب گھر والے بھی محسوس کرتے ہیں۔۔۔

اسی طرح پاکستان کا مثال بھی ہمارے گھر جیسا ہے۔اگر یہاں کوئی شحص پر کوئی تکلیف ہو تو درد باقی سارے لوگوں کو بھی محسوس ہونا چاہیے، لیکن افسوس کہ ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ جیل میں تقریبا گیارہ سال اور دو مہینے ہوگئے مگرآج تک ان کا دردکسی کو محسوس نہیں ہوا۔ان پر طرح طرح کے مظالم کئے جارہے ہیں، ان کو قران پر چلنے کیلئے مجبورکیا جارہاہے اور ان کے ساتھ جانوروں کی طرح سلوک کیا جارہاہے۔ایک عافیہ صدیقی ہے جو بغیر کسی جرم کے سزا کاٹ رہی ہے اور ایک ریمنڈوس ہے جو بہت کچھ کرنے کے باوجود رہائی حاصل کرتا ہے ، ایک الگ کہانی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عافیہ صدیقی خود ہی اپنی مقدمہ کیلئے درخواست دائر کرتی ہے۔ایک فوزیہ صدیقی ہے جو عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور ایک ہمارے سیاستدان حاحبان ہیں جو اپنی کرسی اور حکومت کیلئے تو بہت کچھ کرتے ہیں مگر جب با ت پاکستان کی بیٹی اوران کی رہائی کی کیس پر آجاتی ہے تو کوشش کرنے کی جھوٹے وعدوں پر اکتفا کرتے ہیں۔کوئی یہ تو بتادیں کہ یہ کیسا کوشش ہے جو گیارہ سال میں بھی کوئی رنگ نہیں لاتا؟؟؟کیا عافیہ صدیقی، پاکستان کی بیٹی نہیں ہے؟ کیا وہ عوام اور سیاستدانوں کی بہن اور بیٹی نہیں ہے؟ کیا وہ صرف فوزیہ صدیقی کی بہن ہے ؟ ؟کیا عافیہ کا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے ؟ اگر ہے تو اس کی کیس کو سنگینی سے کیوں نہیں لیا جا سکتا؟افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کسی کو اپنی کرسی سے فرصت نہیں ملتا تو کسی کادل دھرنوں اور جلسوں سے نہیں بھرتا۔

کاش عافیہ صدیقی احمد کی بہن ہوتی، جسے تب تک آرام نہیں ملتا جب تک اس کی بہن کو آرام نہ ملے۔کا ش عافیہ صدیقی وفاقی حکومت کے میٹرو بس کا منصوبہ ہوتا، جسے کرنے کیلئے انہیں صرف ایک سال کا وقت چاہیے۔کا ش عافیہ صدیقی، عمران خان کی دھاندلی کی آواز ہوتی جس کے لئے اسلام آباد کا ڈی چوک ہزاروں لوگوں سے بھرا ہوتا۔۔۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب قانون کے دائرے میں اپنی بہن کے لئے آواز اُتھائیں اور حکمرانوں کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ ہمیں ہماری بہن واپس لائے۔عافیہ صدیقی پاکستان کی عزت ہے اور پاکستان کی عزت ہم سب کی عزت۔۔۔۔۔۔۔