سیاسی سوداگر

پچھلے ایک ہفتے سے میں یہ سوچ رہا تھا کہ سندھ کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر کچھ لکھا جائےمگر وقت کی کمی کے باعث میں لکھ نہیں پا رہا تھا البتہ آج تھوڑی ہمت کر کے اس کو لکھ دیا ہے ، آج جو سندھ کی حالت ہے اِس پہلے ایسے کبھی نہیں ہوئی۔

امن کا گہوارہ صوفیوں کی دھرتی سندھ آج اپنی تارییخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے سندھ کا حکمران طبقہ اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں، خامیوں، اور ناقص طرزِ حکومت کے با وجودسندھ کی عوام کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ، حالات تو ماتم منانے کے ہیں مگر سندھ کی موجودہ حکومت کے وزیر و مشیر شاید اتنے کم ظرف ہیں کہ لوگوں کے غم میں شریک ہونے کے بجائے، اُن ماؤں کا مذاق اُڑا رہے ہیں جن ماؤں نے اپنے دو پٹوں سے کفن بنا کر اپنے ھاتھوں سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لاش دفنائے ہیں۔سندھ کے حکمران طبقہ نے بھوک و افلاس سے مرے ہوے بچوں کی توہین کرنے سے بھی کوئی گریز نہیں کی اور سندھ حکومت نے بچوں کے مرنے کا اصل سب غربت کو قرار دیا ہے ۔سندھ کے وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ کے بقول عورتیں ڈلیوری ہسپتال میں کرانے کے بجائے midwives سے کرواتی ہیں اِس لیے اتنی بڑی تعداد میں تھر میں بچے مر تے ہیں، کیوں کہ ایک دایہ سے ڈلیوری کروانے کی وجہ سے کبھی بچے کا سر کبھی ھاتھ کبھی پاؤں میں سے کوئی ایک عضو خراب ہوجائے تو بچہ مر جاتا ہے۔

مگر میرا قائم علی شاہ سے یہ سوال ہے کہ سندھ کے دیگر حصوں میں بھی عورتیں زیادہ تر دایہ سے ہی ڈلیوری کرواتی ہیں وہاں بچے کیوں نہیں مرتے صرف تھر میں ہی کیوں؟

اور میں یہاں پر یہ بھی بتا تا چلوں کہ یہ تو تھر کی صورتِ حال تھی جس کا سندھ اسلیر میں خوب مذاق اڑایا گیا لیکن سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی کوئی بہتر صورتِ حال نہیں ہے سِجاول، گھوٹکی، حیدرآباد، بدین اور ٹھٹھہ میں بڑی تعداد میں بچے ڈائریا کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں مگر صحت کی بنیادی سہولتیں نا ہونے کے برابر ہیں، صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا، آفت زدہ علائقوں میں خوراک پہنچانا ، سستہ علاج فراہم کرنا یہ سب حکومت کا کام ہے مگر سندھ حکومت کو شاید یہ کسی نے بتایا ہی نا ہو کہ یہ سب بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہ تو محکمہ صحت کے کارنامے تھے جو مینے اوپر لکھے ہیں اب میں تھوڑا اپنے قارئین کو سندھ کے دیگر مسائل اور امن و امان کی صورتِحال کے بارے میں بتاتا چلوں کہ سندھ میں کوئی قانون نہیں جو جو چاہے جب چاہے کچھ بھی کرسکتا ہے بشرطیہ کہ وہ حکمران پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، وزیرِ اعلیٰ سندھ کے ابائی شہر خیرپور میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں روزانہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اِس وقت بھی 19 افراد گم ہیں جن کا کچھ پتہ نہیں اور سندھ میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں حکومتی وزیر خود اقرا کرتے ہیں کہ ہر سال پانچ ہزار ہندو ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں ، روڈوں کی حالت اِنتہائی خراب ہے آئے روز حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے پچھلی حکومت میں جو روڈ اکھاڑے گئے تھے وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوے سندھ کی تعلیم کی اگر بات کی جائے تو وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیںAnnual status of Educational Report کے مطابق ماسواءِ بلوچستان کے صوبہ سندھ تعلیم کے حساب میں سب سے پیچھے ہے حتیٰ کہ فاٹا اور وزیرستان جیسے علائقے بھی تعلیمی حساب سے بہتر ہیں۔سندھ میں 60 سے زائد پچھلے سال کی ترقیاتی اسکیمیں ابھی تک مکمل نہیں ہو سکیں اور وفاقی وزارتِ خزانہ نے مزید فندز جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے ، دوسری طرف سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے مگر سندھ کے سیاسی رہنماؤں نے قومی اسمبلی میں اس مسئلے پر اور سندھ کی عوام کے دیگر حقوق کی کبھی کھل کر بات نہیں کی، چاہے کوئی بھی مسئلہ ہو سندھ کے سیاست دان ہمیشہ چپ کا روزہ رکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور دیں بھی کیوں نہ۔ کیوں کہ کبھی اِن کے بچے بھوک و افلاس سے نہیں مرے، کبھی وقت سِر علاج نہ ہونے کی وجہ سے نہیں مرے، کبھی اِن کی زمینیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے بنجر نہیں ہوی ہیں ، تو پھر اِن کو کسی سے کیا شکایت کرنی کیوں کہ اِن کا مقصد سندھ کے حقوق کے لیے لڑنا نہیں بلکہ اقتداری سیاست ہے، اور مزید چاہتے ہیں کہ سندھ میں ایسے لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکاجائے جو سیاسی شعور رکھتے ہیں کیوں کہ سندھ میں زیادہ تر سیاستدان وڈیرے، پیراور میرہیں اس لیے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پڑھا لکھا طبقہ آگے آئے یہاں اگر یہ کہا جائے کہ ان کی سوچ کسی آمر سے کم نہیں ہوتی تو یہ بلکل بھی غلط نہ ہوگا، وڈیرے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو غلام بنا کہ رکھا جائے اور انہیں تعلیم جیسے زیور سے محروم رکھا جائے تا کہ کل کوئی ان کے سامنے کھل کر اپنے حقوق کے لیے نہ بولے۔ آج سندھ کی عوام کی بنیادی ضرورت ایک قومی پارٹی کی ہے جو سندھ کے کیس کو ہمیشہ سندھ کی عوام کے مفاد کی خاطر لڑے جو سندھ کے حقوق کا تحفظ کرے ایسی پارٹی بنانا مشکل ہے مگر اس مشکل کو اگر سندھ کے نو جوان challenge سمجھ کر قبول کریں تو پھر یہ مشکل آسان ہو جائے گی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سندھ کے نوجوانوں نے کوئی تحریک چلائی ہے اسےضرور کامیابی ملی ہے، مثال کے طور پر ون یونٹ کے خلاف جدو جہد ہو یا پھر جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آرڈی کی تحریک ہو سندھ کو نوجوان ہمیشہ سب سے آگے رہے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے دینے کے با وجود بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ آج ایک مرتبہ پھر سندھ دھرتی اپنے وجود کی بقا ، تہذیب اور ثقافت کو بچانے کی خاطر اور موروثی سیاست سے نجات پانے کے لیے سندھ کے نوجوانوں سے قربانی مانگ رہی۔ قربانی صرف اس بات کی کہ جو سندھ کا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ ہے وہ اپنے درمیان میں سے ایسے نو جوانوں پر مبنی circle بنائیں جنہیں سندھ کی سیاست کی اچھی خاصی معلومات ہو اور اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں سوشل میڈیاکا استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں اور لوگوں کو اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کریں اور لوگوں کو سیاست میں حصہ لینے کے لیے motivate کریں اور نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے اور اسکالر شپ کے بارے میں بتائیں اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے خلاف بولنے سے گریز کریں بلکہ خاموشی سے اپنے mission پر کام کرتے رہیں کیوں کہ جب ہر انسان کو اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں پتہ چل جائے گا تو لوگ خود بخود اس موروثی سیاسی نظام کو reject کر دیں گے۔

میں یہاں پر یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ میرا تعلق سندھ سے ہے اس لیے میں نے سندھ کی سیاست کے بارے میں لکھا ہے اور سیاست دانوں پر تنقید کی ہے۔
Asad Lashari
About the Author: Asad Lashari Read More Articles by Asad Lashari: 17 Articles with 14412 views By profession I am student of Media studies at Sindh Madressatul Islam University Karachi .. View More