بھارت میں زیرتعلیم پاکستانی طالبعلم علی حسن کو ہندو
انتہا پسندوں نے بدترین تشدد کا نشانہ بنا ڈالا جس پر واقعہ کا نوٹس لیتے
ہوئے دفتر خارجہ نے بھارت سے شدید احتجاج کیا ہے۔
روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست تامل ناڈو کی پانڈی چیری
یونیورسٹی میں زیر تعلیم قصور کا رہائشی 24 سالہ پاکستانی طالبعلم علی حسن
ہاسٹل میں سو رہا تھا کہ رات گئے انتہا پسند ہندوؤں نے اس کے کمرے میں گھس
کر ڈنڈوں اور آہنی راڈز سے حملہ کردیا۔ علی حسن کی چیخیں سن کر ہاسٹل کے
دیگر کمروں سے طالب علم وہاں پہنچے تو حملہ آور فرار ہوگئے ۔
|
|
علی حسن کو کمر اور گردن پر شدید چوٹیں آئی ہیں اور وہ ہسپتال میں زیرعلاج
ہیں ۔ ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے
کہ بھارت میں پاکستانی طلبہ کی سکیورٹی خطرے میں ہے ، امید کرتے ہیں کہ
بھارت اپنی ذمہ داری پوری کرے گا اور طالبعلم پر تشدد کرنے والوں کیخلاف
کارروائی کرے گا۔
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبعلم پر تشدد سنجیدہ
معاملہ ہے ، بھارت کو اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ نئی دہلی پاکستانی ہائی
کمیشن نے علی حسن پر تشدد کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی
طالب علم کا ویزا 30 جون تک کا ہے اور وہ جب چاہیں انہیں وطن واپسی کے لئے
تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
واقعے کے بعد بھارت کی دیگر یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم پاکستانی اور کشمیری
طلبہ میں بھی شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق
پاکستانی ہائی کمیشن کے احتجاج پر بھارتی حکومت نے تامل ناڈو کی حکومت سے
رپورٹ طلب کرلی ۔
|
|
تحقیقاتی افسر سب انسپکٹر وی سیواکمار کا کہنا ہے کہ انہیں شبہہ ہے کہ حملہ
آوروں نے پاکستانی طالبعلم پر تشدد کسی اور شخص کی غلط فہمی میں کیا ہو۔
جبکہ متاثرہ طالبِ علم علی حسن کا کہنا ہے کہ حملہ آور انہیں ہی کی عمر کے
تھے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ یونیورسٹی کے ہی طالبعلم تھے۔
|